کیا ہندوستان میں بھی کبھی ایسا ہوسکتاہے

خبر در خبر (598)
شمس تبریز قاسمی
ہندﺅوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی پاداش میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پارٹی کے ایک صوبائی وزیر کو برطرف کردیاہے ۔ فیاض الحسن چوہان پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اطلاعات ونشریات کے وزیر تھے ۔تحریک انصاف پارٹی کے وہ ترجمان بھی تھے ۔ایک تقریب میں ہندوپاک کے درمیاجاری تنازع پر جذباتی تقریر کرتے ہوئے انہوں نے تمام حدیں پار کردی اور کچھ ایسا کہہ گئے جس سے دنیا بھر کے ہندﺅوں کے جذبات مجروح ہوئے ۔
فیاض الحسن نے کہا” پیشاب پینے والوں ! تم ہمارا مقابلہ کہاں کرسکتے ہو“
فیاض الحسن نے اپنے اس بیان پر ہنگامہ ہونے کے بعد معافی بھی طلب کی ۔ صفائی دیتے ہوئے کہاکہ ہمار امقصد ہندوستان کے ہندو تھے پاکستان کے نہیں لیکن ہندو پاکستان کے ہوں یا ہندوستان کے یا کہیں اور کے جذبات سبھی کے مجروح ہوئے ہیں ۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق فیاض الحسن اس طرح کے بیانات کیلئے وہاں بہت مشہور ہیں ۔اس سے پہلے بھی وہ کئی مرتبہ متنازع بیان دے چکے ہیں ۔ آسانی سے سمجھنے کیلئے آپ اپنے ملک کے گراج راج ،سبرامنیم سوامی ،یوگی آدتیہ ناتھ اور شاکسی مہاراج کو دیکھ سکتے ہیں ۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین اور وزیر اعظم عمران خان نے سخت ایکشن لیتے ہوئے پنجاب کے وزیر اعلی پر کاروائی کا دباﺅ بنا یا اور فیاض الحسن کو استعفی دینا پڑ ۔
فیاض الحسن کی یہ ویڈیو سب سے پہلے ٹوئٹر پر پاکستان کے ہی ایک ہندو شہری نے کپل دیو نے شیر کی اور ہیش ٹیگ استعمال کیا” سیک فیاض الحسن چوہان“۔
فیضا الحسن چوہان کو برطرف کیا جائے ۔ صارفین نے فیاض الحسن کا ساتھ دیا اور یہ ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا ۔ یہ خبر میڈیا میں آگئی ۔ پاکستان کے تمام سینئر لیڈروں نے ٹوئٹ کرکے مذمت کی ۔ خود پی ٹی آئی کے لیڈروں نے اپنے وزیر کی بدزبانی کی مذمت کرتے ہوئے کاروائی کی بات کی ۔ عمران خان نے ایکشن لینے کا حکم دیا اور انہیں برطرف کردیاگیا ۔
ادھر کل ہی برطانیہ سے ایک خبر آئی کہ وہاں کنزر ویٹیو پارٹی کے چودہ اراکین کو مسلمانوں کے خلاف بولنے کی وجہ سے معطل کردیاگیاہے ۔
آپ سوچیے کیا ہندوستان میں بھی یہ سب ممکن ہے ۔ ہندوستان میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی لیڈر کو مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف زبان درازی کرنے اور ان کے جذبات کو ٹھیس پہونچانے کی وجہ سے برطرف کیاگیا ہو یا آئند ہ کبھی یہاں ممکن ہے ۔
ہندوستان میں یہ پروموشن حاصل کرنے کا طریقہ سمجھاجاتاہے ۔مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے پی ایم ، سی ایم اور دیگرعہدوں پر فائز کئے جاتے ہیں ۔میڈیا کی سرخیاں بٹورنے کیلئے زیاد ہ تر سیاست داں اسی ہتکھنڈے کا استعمال کرتے ہیں ۔مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف بیان دیتے ہیں ۔

گذشتہ پانچ سالوں کے دروان نفرت آمیز اور اشتعال انگیز تقریر کی شرح میں 90 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ایک رپوٹ کے مطابق یہاں ہر 17 منٹ پر مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز بڑے سیاسی لیڈر ان تقریر کرتے ہیں اور ان کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ۔
ہندوستان اور پاکستان کی میڈیا کا رویہ بھی بہت عجیب ہے ۔ پاکستان کی میڈیا ہمیشہ اپنی عوام کو صرف یہ دکھاتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے جاتے ہیں ۔ انہیں انسانی حقوق سے محروم رکھاجاتاہے ۔ پاک میڈیا کبھی ہندو مسلم بھائی چارہ کو نہیں دکھاتی ہے ۔دوسری طرف انڈیا میڈیا ہمیشہ یہ دکھاتی ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں بالخصوص ہندﺅں پر بہت زیادہ مظالم ڈھائے جاتے ہیں ۔انہیں شہری اور انسانی حقوق سے محروم رکھاجاتاہے ۔ عوام کے ذہن میں یہی تاثر پیدا کیا گیاہے کہ پاکستان میں ہندو محفوظ نہیں ہیں ۔ ایسے میں یہ بہت بڑی خبر تھی کہ ہندﺅں کے جذبات کو مجروح کرنے کی وجہ سے پاکستان نے اپنے ایک وزیر کو بر طرف کردیا ہے ۔ لیکن ہندوستانی میڈیا میں اس کا کوئی تذکر ہ نہیں ہے ۔
ٹی وی چینلوں کے ساتھ انڈین ایکسپریس ۔ ہندوستان ٹائمز اور ٹائمز آف انڈیا جیسے اخبارات نے بھی اس خبر کو کوئی اہمیت نہیں دی ۔
ہم نے اپنے پروگرام خبر در خبر میں اسی موضوع پر تجزیہ کیاہے ۔ ہمارے پینل میں جے این یو کے ریسرچ اسکالر ابھے کمار اور سینئر صحافی جناب مستقیم مکی شریک تھے ۔ وقت نکال کر آپ یہ پروگرام دیکھیں اور اپنے خیالات سے آگاہ کریں کہ
”پاکستان نے ہندﺅں کے جذبات کو مجروح کرنے کی وجہ سے اپنے ایک وزیر کو بر طرف کردیاہے کیا ہندوستان میں بھی کبھی ایسا ہوسکتاہے ۔ کیا ہندوستان کے عوام او رسیاسی رہنما یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں گے جب یوگی آدتیہ ناتھ ، شاکسی مہاراج ،گری راج اور اس جیسے لوگ اشتعال انگیزی کرتے ہیں،مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں ،ان کے جذبات کو ٹھیس پہونچاتے ہیں تو صرف ہندوستان نہیں بلکہ پاکستان ،انڈونیشا ،ملیشیا ، بنگلہ دیش ،سعودی عرب ،مصر ،متحدہ عرب امارات سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ۔انہیں شدید تکلیف ہوتی ہے ۔ہندوستانی سیاست میں فی الحال ابھی اتنی اخلاقی وسعت نظر نہیں آتی ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف ایکشن لیا جائے ۔ یہاں تو وزیر اعظم بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔
بہر حال آپ خبر در خبر کا یہ پروگرام ملت ٹائمز کے یوٹیوب پر دیکھیں اور کمنٹس بوکس میں اپنے خیالات سے ہمیں آگاہ کریں ۔
stqasmi@gmail.com

SHARE