خبر در خبر (600)
شمس تبریز قاسمی
عام الیکشن کی تایخ کا اعلان ہوچکاہے ۔جنگی پیمانے پر سیاسی پارٹیوں کی تیاری جاری ہے ۔ 11اپریل سے 19 مئی تک سات مرحلوں میں انتخاب ہوگا ۔ 23مئی کو نتیجہ سامنے آجائے گا کہ ملک میں کس کی سرکار ہوگی ۔ بی جے پی کی حکومت باقی رہے گی یا ملک کو ایک نئی حکومت ملے گی ۔ آپ بھی انتظار کیجئے ہم بھی انتظار کررہے ہیں ۔
بی جے پی کی تیاری تقریبا الیکشن کمیشن کے اعلان سے پہلے ہی ہوچکی تھی ۔ اپوزیشن پارٹیاں پلوامہ حملہ اور ایئر اسٹرائک کے بعد خاموش ہوگئی ۔ انہیں لگا کہ اگر اس دوران ہم نے کچھ کیا تو بی جے پی اسے دیش دروہی سے جوڑ کر الیکشن میں ہمارے خلاف ایشو بنائے گی ۔ دوسری طرف بی جے پی نے اس دوران اپنا تمام اتحاد فائنل کرلیا۔ اب صرف ان کے امیدواروں کا اعلان باقی ہے۔کانگریس اور دیگر پارٹیاں اب یہ کام کررہی ہے ۔ کرناٹک میں کانگریس اور جے ڈی ایس کے درمیان سمجھوتہ ہوگیاہے ۔20 سیٹوں پر کانگریس لڑے گی ۔ 8سیٹوں پر جے ڈی ایس اپنے امیدواراتارے گی ۔ بہار میں بھی عظیم اتحاد کا فارمولہ تقریبا طے ہوگیاہے جس کا رسمی اعلان باقی ہے ۔
جن ستا کی رپوٹ کے مطابق چالیس میں سے 20سیٹوں پر آر جے ڈی لڑے گی ۔11پر کانگریس لڑے گی ۔تین سیٹوں پر راشٹریہ لوک سمتا پارٹی لڑے گی ۔شرد یادو ،جیتن رام مانجھی اور مکیش سہنی کی پارٹی کو بھی ایک ایک سیٹ ملے گی ۔ بی ایس پی نے بہار کے گٹھبندھن میں شامل ہونے سے انکار کردیاہے ۔خبر ہے کہ ماویاتی بہار کی چالیس سیٹوں پر اپنا امیدوار اتارے گی ۔ یوپی میں ایس پی ۔بی ایس پی اتحاد میں کانگریس کی شمولیت کے تمام امکانات تقریبا ختم ہوگئے ہیں ۔ 27امیدواروں کا اعلان کانگریس کرچکی ہے جن میں سہارنپور ، رامپور ، فروخ آباد اور سیتاپور سے مسلم امیدوار شامل ہیں ۔ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس نے بھی تمام 42سیٹوں پر اپنے امیدواروں کا اعلان کردیاہے ۔ ممتابنرجی نے خواتین پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے 41فیصد عورتوں کو ٹکٹ دیاہے ۔ چناں چہ 17خواتین ان کی پارٹی سے الیکشن لڑرہی ہیں ۔ ممتاکے 42امیدواروں میں سات مسلمان بھی شامل ہیں جن میں چار مسلم خواتین ہیں ۔
سیاسی پارٹیوں نے اپنا انتخابی منشور ابھی جار ی نہیں کیا ہے ۔ اس دوران ملک کی معروف تنظیم جماعت اسلامی ہنے 13مارچ کو پریس کانفرنس کرکے ایک عوامی منشور جاری کیا ہے۔جماعت اسلامی ہند مختلف سیاسی پارٹیوں اور اہم شخصیات سے براہ راست ملاقات کرے گی۔ان سے اپیل کرے گی کہ وہ اسے اپنے انتخابی منشورمیں ’چارٹرآف ڈیمانڈ‘ کے طور پرشامل کرے۔
منشور میں کہاگیاہے کہ جماعت اسلامی ہند ہمیشہ سےاعلی اخلاقی و انسانی اقدار، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بھائی چارہ ،تمام طبقات کی ترقی اورانصاف پر مبنی حکمرانی کویقینی بنانے میں اپنا رول ادا کرتی ہے۔ ہندوستان کے تمام شہریوں کے حقوق کے تحفظ اورسب کے لئے برابر مواقع کو یقینی بنانے، ایک تکثیری، ترقی پسند اوروسیع الظرف ہندوستان کے تصورکوعملی جامہ پہنانے کےلئے منشورمیں شامل نکات کوہرسنجیدہ سیاسی پارٹی کے مقاصد میں شامل ہونا چاہئے۔ تمام شہریوں کے لئے خوراک، لباس، مکان، تعلیم، صحت اور باوقارزندگی کی ضمانت نیزمنصفانہ تصورِترقی پرمبنی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ظلم، تشدد، مذہبی جارحیت، ہجومی تشدد،ریاستی مظالم اورفرقہ وارانہ فسادات کا موثرانسداد،غریبوں، عورتوں، مسلمانوں اورملک کے غیرمحفوظ طبقات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ تعلیم اورملازمتوں میں اقلیتوں کے لئے ریزرویشن دیا جائے، جس میں دوتہائی ذیلی کوٹہ مسلم اقلیت کے لئے محفوظ ہو۔ قومی پولس کمیشن کی سفارشات نافذ کی جائیں اور پولس نظام میں ہمہ گیراصلاح کی جائے۔ پولس فورس کو سب کی نمائندہ اورغیرمتعصب بنانے کے لئے اس فورس میں اقلیتوں کے لئے25 فیصد ریزرویشن ہو۔
کانگریس بی جے پی اور دیگر پارٹیوں کے دفتر میں اس وقت نیتاﺅں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے ۔ ٹکٹ لینے کیلئے ماراماری ہورہی ہے ۔اپنے حلقہ میں جو ایم پی صاحب دس گاڑیوں اور باڈی گارڈ کے ساتھ گھومتے نظر آتے ہیں۔ عوام ان کی ان ایک جھلک دیکھنے اور مصافحہ کرنے کیلئے بے قرار رہتی ہے وہ پارٹی دفتر میں پارٹی کے جنرل سکریٹری اور انچار ج کے دفتر کے سامنے نمبر میں لگے ہوئے دکھ رہے ہیں ۔ٹکٹ ملنے کے بعد یہ آپ کے گھر بھی پہونچیں گے ۔آپ کے سامنے منت اور سماجت بھی کریں گے ۔یہی دو مہینہ موقع ہے جمہوری ملک میں ہم عوام کو اپنی طاقت دکھانے اور اس کا مظاہر ہ کرنے کا ۔
جمہوریت کا مطلب ہوتاہے کہ عوام کیلئے عوام کے ذریعہ منتخب حکومت ۔مطلب عوام حکومت بناتی ہے عوام کیلئے اور اس کا مطلب وہی لوگ سمجھتے جو چناﺅکو دیکھتے ہیں ۔اس میں سرگرم رہتے ہیں ۔ اندازہ لگتاہے عوام کی طاقت کا ۔ ان کے ووٹ کا ۔ کہ آخر ووٹ کی کتنی قیمت ہے ۔اس کی کیا حیثیت ہے۔
حید رآباد اور بہار کے کشن گنج میں کانگریس اور این ڈی اے کو کوئی ایسا امیدوار نہیں مل رہاہے جو مجلس اتحاد المسلمین کے امیدواروں کا مقابلہ کرسکے ۔ حیدر آباد کی سیٹ پر 1984 سے ایم آئی ایم کا مسلسل قبضہ ہے ۔ سترہویں لوک سبھا میں بھی اسد الدین اویسی وہاں الیکشن لڑرہے ہیں۔ بی جے پی اور کانگریس دونوں کو ان کے مقابلے میں کوئی امیدوار نہیں مل رہاہے ۔ بہار کے کشن گنج میں ایم آئی ایم کے ٹکٹ سے اختر الایمان مضبوط امیدوار ہیں ۔ کانگریس کو یہاں کوئی ایسا امیدوار نہیں مل رہاہے جو ان کا مقابلہ کرسکے ۔ بی جے پی کی اتحادی جے ڈی یو بھی یہاں سے مسلم امیدوار اتارنا چاہ رہی ہے لیکن مضبوط چہرہ کی تلاش ہے ۔ جو سروے آرہے ہیں اس کے مطابق اختر الایمان کی پوزیشن بہت مضبوط ہے ۔
ملک بھر میں مسلمانوں کا سیاسی لائحہ عمل سامنے نہیں آیاہے ۔کسے ووٹ نہیں دینا ہے یہ تقریبا عوام نے طے کرلیاہے لیکن یوپی اور دیگر ریاستوں میںکس کو دینا ہے اس کا فیصلہ کرنا ابھی باقی ہے ۔
الیکشن کی گہماگہمی میں کئی اہم اور بڑی خبریں دب کر رہ گئی ہیں ۔ جس میں قابل ذکر سیتامڑھی کا واقعہ ہے ۔ 6مارچ کو سیتامڑھی پولیس نے چمپارن کے ڈمریہا گاﺅں سے غفران اور تسلیم نام کے دو جوانوں کو رات کے تین بجے گھر سے اٹھالیا ۔ عورتوں کے ساتھ بدتمیزی کی ۔ ڈمرا تھانہ میں دونوں نوجوانوں کے ساتھ پولس نے بربریت کی ۔ پاﺅں میں کیل ٹھوکے ۔ الیکٹرک شارٹ لگائے جس سے پولیس کسٹڈی میں ہی دونوں کی موت ہوگئی ۔اس پر ملت ٹائمز کی ہندی ٹیم نے سب سے پہلے رپوٹ شائع کی ۔ بعد میں ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل کی اینکر شبینہ ناز نے بھی اس پر تفصیلی رپوٹ پیش کی ۔ جس کے بعد بی بی سی ہندی ۔ انڈین ایکسپریس سمیت کئی اخبارات میں بھی رپوٹ آئی ہے ۔
اس واقعہ پر اب تک کوئی خاص ایکشن نہیں لیاگیاہے ۔آٹھ پولیس اہلکار فرار ہیں جن پردفعہ 302 کا مقدمہ درج کیاگیاہے ۔ ایس پی کا ٹرانسفرکردیاگیا ہے ۔ وزیر اعلی نتیش کمار نے اب تک مذمت تک نہیں کی ہے ۔مہلوکین کے اہل خانہ کو معاوضہ تک نہیں ملا ہے ۔ جے ڈی یو کے مسلم چہرے مولانا غلام رسول بلیاوی اور ڈاکٹر خالدانور پورے واقعہ میں انصاف دلانے کی تسلی دے رہے ہیں لیکن اب تک کچھ ہونہیں سکاہے ۔ اپوزیشن لیڈروں میں قاری صہیب اور اختر لاسلام جیسے مسلم چہرے بھی پیش پیش ہیں ۔ گذشتہ کل تیجسوی یادو نے بھی ایک ٹوئٹ کیاہے ۔ اتنی بڑی خبر کا میڈیا میں کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔جمیعة علماءہند ۔ امارت شرعیہ اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی علاقائی یونٹ وہاں کا دورہ بھی کیاہے لیکن سوال یہی ہے کہ اتنے بڑا واقعہ پر اتنی گہری خاموشی کیوں ہے ؟ نتیش سرکار کیوں سخت ایکشن نہیں لے رہی ہے ۔
stqasmi@gmail.com