محمد اسلم آزاد
شیوانی نے گھر آکر اپنا اسکول بیگ ٹیبل پر رکھا اور جا کر ماں سے بولی
مما: تین ہزار روپے دو نا پلیز
تم نے کھانا کھایا ؟شیوانی کی ماں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا
مما آج میں گھر سے باہر کھا کر آئی ہوں
شیوانی تمہاری یہ روز روز باہر کھانے کی عادت بالکل ٹھیک نہیں ہے یا تو ٹفن لے جایا کر یا واپس گھر آ کر کھانا کھایا کرو سمجھ گئی ؛اور یہ تجھے اچانک تین روپیہ کی کون سی ضرورت آن پڑی؟ شیوانی کی ماں رجنی ملہوترا نے بیٹی کو وارننگ دیتے ہوئے سخت لہجے میں پوچھا ….
اپنی ماں کے کڑے تیور دیکھ کر شیوانی کا چہرا اتر ایا اور وہ روٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی کچھ دیر بعد شوانی کے والد سومناتھ ملہوترا بھی گھر میں داخل ہوگئے وہ شہر کے ایک بڑی ٹیکسٹائلس کمپنی کے مالک تھے انہوں نے آتے ہی شوانی کو آواز لگایا
شیوانی اوشیوانی ؟
بیٹی شیوانی کہاں ہو تم ؟بیٹی کی طرف سے کوئی ردعمل نہ پانے پر وہ نہایت حیران و پریشان ہوئے کیونکہ شیوانی سومناتھ کی اکلوتی اولاد تھی جسے دونوں نے بڑے لاڈ اور پیار سے پالا تھا اور جب بھی وہ اپنی بیٹی کو آواز لگاتا وہ بغیر کسی تاخیر کے فورا اپنے ابا کے حضور حاضر ہوا کرتی تھی ۔پر آج اس نے خلاف معمول کام کیا تھا جس سے سومناتھ نہایت متحیر تھا
اس نے فورا مسز ملہوترا کو آواز لگایا اور پوچھا:۔ کیا کہا تم نے بیٹی شیوانی سے؟
رجنی :۔ بیٹی سے ہی پوچھ لو جاکر اوپر ہے اپنے کمرے میں۔
سومناتھ :۔ اوہو! اب بتاو بھی کیا بات ہے۔
تم بھی نہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر ڈانٹتی رہتی ہوں اسے ۔ ارے ایک ہی تو اولاد ہے ہماری جی لینے دو اسے بھی اپنی مرضی سے
رجنی:۔ اس لئے تو ڈر تی ہوں اس کی مرضی سے کیو نکہ ہماری ایک ہی اولاد ہے اگر اسے کچھ ہوگیا؟ تو رجنی کی آنکھیں اشکبار ہو چکی تھی ۔
سومناتھ نے رجنی کی آنکھوں سے آنسوں پوچھتے ہوئے اسے دلاسا دیا اور کہا :۔اچھا اب دل چھوٹا نہ کرو ۔کچھ نہیں ہوگا ہماری لاڈلی کو بھگوان پر بھروسہ رکھو
اب جاؤ اسے بلا لاؤ
رجنی اوپر شیوانی کے کمرے میں گئی اور اسے بلا لائی وہ بالکل اداس اور خاموش چہرہ لے کر اپنے والد صاحب کے پاس جا کر صوفے پر بیٹھ گئی اور ٹی وی آن کرکے سیریل دیکھنے لگی سومناتھ نے اخبار کا ورق الٹتے ہوئے پوچھا
آگئی بیٹی؟ کیسا رہا تمہارا آج کا پیپر ؟
اچھا رہا ڈیڈی شیوانی نے دھیرے سے جواب دیا
ویری گڈ
اچھا بیٹی، بتاؤ کیا بات ہے؟
کیا چاہیے تمہیں؟
کچھ نہیں ڈیڈی بس یونہی ۔
اوہو۔ بیٹی ضد نہیں کرتے بتا کتنے روپیوں کی ضرورت ہے تمہیں ؟
تین ہزار، شیوانی نے نظر یں جھکاتے ہوئے کہا
بس۔ اور اتنی سی بات کے لئے تم روٹھ گئی ؟یہ لو پانچ ہزار ہیں سومناتھ نے پاس رکھے بیگ سے پیسے نکال کرشیوانی کو دیتے ہوئے پوچھا :۔پر بیٹی شیوانی ؟ تم ان روپیوں کا کرو گی کیا ؟تمہارے کالج کی ساری فیس تو میں نے بھر دی ہے اور ایگزام فی بھی میں نے دے ہی دیا تھا تمھیں؟
ڈیڈی آج دوستوں کے ساتھ نائٹ پارٹی میں جانا ہے۔
اوہ۔ اچھا اب چلو کھانا کھا لو۔ سومناتھ نے کہا تو شیوانی کھانے کے ٹیبل پر جا بیٹھیں روپئے پاکر شیوانی کے چہرے کی مسکراہٹ واپس لوٹ آئی تھی ،بیٹی کو خوش دیکھ کر سومناتھ ملہوتراخو ش تھے پر رجنی ملہوترا مسلسل اپنی بیٹی کو تاک رہی تھی ، اسکے چہرے پر اب بھی اداسی قائم تھی ، وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی بیٹی رات کو گھر سے باہر نکلے ، اسکے چہرے پر عجیب کیفیت برپا تھی اور ذہن میں کئی طرح کے سوالات اٹھ رہے تھے پر وہ خموش تھی ۔
شوانی جلدی جلدی آدھا ادھورا کھا کر واپس اپنے کمرے میں چلی گئی آج وہ بہت خوش تھی
رجنی ۔ کیا سوچ رہی ہو تم ؟ یہی ناکہ رات میں اسے پارٹی میں نہیں بھیجنا چاہئے ؟
ارے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ جارہی ہے اکیلے تو نہیں جارہی ہے؟ اور پھر اسی شہر میں تو ہے، اور رجنی اب وہ بڑی ہوگئی ہے ، بچی نہیں رہی کہ ہم اسکی ہر کام میں روک لگائیں ۔ اب وہ سمجھدار ہوگئی ہے اسے اچھے برے اور صحیح غلط کی تمیز ہوگئی ہے وہ ایک پڑھی لکھی لڑکی ہے اس حق ہے اپنی مرضی کے مطابق زندگی جینے کا ہم بھلا کیسے اسکی آزادی چھین سکتے ہیں؟
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ہم اسکی آزادی بالکل نہیں چھین سکتے اور نہ ہی اسے قید کر کے رکھ سکتے ہیں پر وہ بیٹی ہے ہماری مجھے تو سمجھ میں نہیں آرہاہے آپ نے اسے کیوں اور کیسے اجازت دے دی ۔
میں بالکل متفق نہیں ہوں آپ کے اس فیصلے سے ایسے بھی شہر کا ماحول بہت خراب ہے ہر روز عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی حادثات پیش آتے رہتے ہیں، اور پھر جہاں دن میں بھی لوگ محفوظ نہیں ہیں وہاں بھلا رات میں کوئی کیسے محفوظ رہ سکتا ہے ؟ اور کیسے کوئی حفاظت کی ذمہ داری لے سکتا ہے ؟
رجنی نے اپنے بات مکمل کرتے ہوئے کھانے کی ٹیبل پر پڑے برتن کو اٹھا کر کچن میں رکھ آئی ، سومناتھ رجنی کی باتیں سن کر خاموش رہے، اور واپس صوفے پر آکر اخبار پڑھنے میں مصروف ہوگئے کچھ دیر بعد رجنی بھی کچن سے واپس آکر سوفے پر بیٹھ گئی، وہ اب بھی اداس تھی اسے رہ رہ کر اپنی بیٹی کی فکر ستا رہی تھی اسکے من میں طرح طرح کے خیالات امڑ رہے تھے اور ایک ماں ہونے کے ناطے رجنی کی یہ فکر بھی جائز تھی اسکا پریشان حال ہونا بھی لازمی تھا
گھڑی کی سوئی شام کے سات بجے کا وقت بتارہی تھی ،تبھی شیوانی سیڑھیوں سے اترتی نظر آئی وہ نہایت خوبصورت لگ رہی تھی اس نے مغربی تہذیب والی شارٹ اور چست کپڑے پہنے تھے جس میں اسکے جسم کی بناوٹ صاف نظر آرہی تھی ،کاندھے میں پرس ،کھلے بال اور پیروں میں ہائی ہیل اسکے حسن میں چار چاند لگا رہے تھے ۔
اپنی بیٹی کو مغربی کلچر میں ملبوس دیکھ کر رجنی کی آنکھیں لال ہوگئی پر وہ خاموش رہی اور اپنا سارا غصہ پی گئی ۔
رجنی جیسے آج خود پر ہی شرمندہ تھی کہ کیوں اسکی ایک ہی اولاد ہے جسکی وجہ سے وہ اپنی اولاد کے آگے مجبور ہے ۔
رجنی مزید فکر میں مبتلا ہوگئی وہ ایک ذہنی پریشانی سے گذر رہی تھی ۔ شیوانی اپنے والد کے قریب آکر بولی : ۔ جاؤں پاپا ؟ ہاں بیٹا جاؤ ۔
اور سنو ! بیٹی گھر جلدی واپس آجانا اور اپنا فون آن رکھنا، اوکے ؟اوکے ڈیڈی ۔ بائی مما بائی ڈیڈی بولتے ہوئے شیوانی گھر سے باہر نکل گئی
رات کے ۹ بج چکے تھے ۔ رجنی اپنے بیڈ پر محض اپنے لخت جگر کے بارے میں سوچ رہی تھی نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی اس نے سومناتھ ملہوترا کو جگایا اور شیوانی کو فون کر جلدی گھر بلانے کیلئے کہا ۔
سومناتھ نے بغیر کسی تاخیر کے بیٹی کو فون ملا یا ۔
ہیلو ۔ بیٹا شیوانی ؟
ہاں پاپا ۔ میں ایک گھنٹہ میں آجاو ¿نگی پاپا اوکے کہتے ہوئے شیوانی نے فون کاٹ دیا اپنی بیٹی سے تسلی بخش بات نہیں کر پانے کی وجہ سے سومناتھ بھی پریشان ہوگئے رات کے ۱۱ بج چکے تھے ، شیوانی اب بھی واپس نہیں آئی تھی اور اب اسکا فون بھی بند آرہاتھا ۔ رجنی اور سومناتھ ملہوترا مزید ذہنی پریشانی کا شکار ہورہے تھے ہر لمحہ انکی بے چینی بڑھتی جارہی تھی ؛
انہوں نے شیوانی کی ڈائری نکال کر اسکے مختلف دوستوں کو فون کیا پر سب نے اپنے اپنے گھر میں ہونے کی بات کہی، انہوں نے شہر کے اپنے کئی جاننے والوں کو بھی فون کیا پر کہیں سے شیوانی کی خبر نہ ملی صبح ہوتے ہی سومناتھ نزدیکی پولس اسٹیشن پہنچے اور بیٹی کے گمشدہ ہونے کی خبر پولیس کو دی ۔ادھر رجنی کا رات سے ہی رو رو کر برا حال تھ وہ ان تمام کیلئے اپنے شوہر سومناتھ کو ہی ذمہ دار ٹھہرا رہی تھی ،اسکی آنکھوں سے آنسو ںرکنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔
سومناتھ اسے بار بار چپ کرارہاتھا اور شیوانی کو کچھ نہ ہونے اور محفوظ گھر لوٹنے کا دلاسابھی دے رہاتھا پر رجنی پر انکی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہورہاتھا ،شام کے سات بچ چکے تھے اور شیوانی کو گھر سے نکلے اب چوبیس گھنٹے بیت چکے تھے پر ابھی تک انکے والدین کو کوئی سراغ حاصل نہیں ہوپایا تھا ۔سومناتھ نے دن بھر میں چار بار پولیس اسٹیشن کا چکر بھی لگایا پر ہر بار انہوں نے تفتیش جاری ہے کہہ کر اسے واپس بھیج دیا
رجنی اب بھی رو رہی تھی اور اپنی بیٹی کے لئے سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی ، اچانک رات کے گیارہ بجے گھر کے موبائل کی گھنٹی بجی تو سومناتھ نے فورا ہی فون کو کان سے لگاتے ہوئے پوچھا کون ؟
سومناتھ ملہوترا بات کر رہے ہیں ؟
ادھر سے کسی نے سوال کیا تو اسنے ہاں میں جواب دیا آپ فورا ً (۰۰۰۰۲) بیس لاکھ لیکر کانپور شہر کے باہر پرانی کالی مندر کے پاس جو کھنڈر ہے وہی چلے آئیں اور ہاں کانوں کان بھی اس بات کی خبر کسی کو ہوئی تو آپ اپنی اکلوتی اولاد سے بھی ہاتھ دھو بیٹھنگے ۔۔۔ یہ سن کر فون انکی ہاتھ سے نیچے گرا اور آنکھوں میں بے ساختہ آنسوؤں کا سیلاب امڑا پڑا۔
(٭ اسسٹنٹ ٹیچر 2+ہائی اسکول ہنوارہ گڈا)
رابطہ : 8210994074