مسلمانوں کی سیکولر سیاسی قیادت کا خاتمہ کانگریس کا بنیادی ایجنڈا 

خبر در خبر (603)

شمس تبریز قاسمی 

عام انتخابات 2019 میں کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیاں بی جے پی کو شکست دینے کے بجائے مسلم قیادت والی پارٹیوں کو ختم کرنے کے مشن پر کام کررہی ہیں ۔2014 میں بی جے پی حکومت بننے کے بعد ہر محاذ پر یہ بات ہوتی رہی کہ 2019 کا عام الیکشن تمام سیکولر پارٹیاں متحدہوکر لڑیں گی ۔بی جے پی کی شکست اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تاہم الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہونے کے بعد سیکولر پارٹیوں میں وہ جوش اور جذبہ نظر نہیں آرہا ہے، اس کے باوجود کانگریس نے کچھ ریاستوں میں وہاں کی علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرلیا ہے۔ کچھ ریاستوں میں وہاں کی علاقائی پارٹیوں نے کانگریس کو نظر انداز کرکے اپنا آپسی اتحاد کیا ہے۔ کچھ جگہوں پر اتحاد نہیں ہوسکاہے تو وہاں نرم گوشہ اپنایا جارہا ہے۔ عام انتخابات 2019 میں سیکولر پارٹیوں کے درمیان تشکیل پانے والے اتحاد اور الائنس میں صرف مسلم قیادت والی سیکولر پارٹیوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور یہ کانگریس سمیت سبھی سیکولر پارٹیوں نے مل کر کیا ہے۔

ایس پی، بی ایس پی نے یوپی میں پیس پارٹی کو اتحاد میں شامل نہیں کیا، راشٹریہ علماء کونسل کو کوئی توجہ نہیں دی۔ کرناٹک اور دیگر کئی ریاستوں میں کانگریس نے ایس ڈی پی آئی کو کوئی اہمیت نہیں دی اور اب آسام میں بھی کانگریس یوڈی ایف سے اتحاد نہیں کررہی ہے ۔

آسام میں 35 فیصد مسلم آبادی ہے ۔ شروع سے کانگریس کو وہاں مسلمانوں کی حمایت ملتی رہی۔ کانگریس نے مسلم ووٹ حاصل کرکے حکومت کرنے کے باوجود مسلمانوں کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ ان کے خلاف مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کی۔ غربت، جہالت اور دیگر پسماندگی کو دور کرنے کیلئے کانگریس نے کبھی بھی پہل نہیں کی۔ موجودہ دور میں آسام کی سب سے بڑی پروبلم ’ این آر سی ‘ ایشو ہے جس کی وجہ بھی کانگریس ہی ہے۔ کانگریس کی راجیو گاندھی حکومت نے آسام آکورڈ پر دستخط کرکے اس معاملے کو تقویت بخشی ۔ اس کے بعد کئی مرتبہ حکومت بننے کے باوجود کانگریس نے اسے حل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ شہریت چھن جانے کا خوف دلاکر ان سے ووٹ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرلی۔

بنیادی مسائل سے دوچار آسام کو گذشتہ بیس سالوں کے دوران مولانا بدرالدین اجمل کی قیادت ملی ۔ انہوں نے آسام کے مسلمانوں سے غربت، جہالت اور تعلیمی پسماندگی دور کرنے کیلئے زمینی سطح پر کام کرنا شروع کیا ۔ تعلیمی اداروں ، اسکو ل اور کالجز قائم کئے ۔ یتیم خانے بنوائے ۔بیواؤں ،غریبوں اور معاشی طور پر پسماندہ لوگوں کیلئے وظیفہ جاری کیا۔ مرکز المعارف اور اجمل فاؤنڈیشن کے ذریعہ آسام میں متعدد طرح کے وہ رفاہی اور فلاحی کام کررہے ہیں اور ہندوستان میں اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے۔

اس دوران انہوں نے سیاست میں بھی قدم رکھا ۔2005 میں آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے نام سے سیاسی پارٹی تشکیل دی۔ 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں 16 فیصد ووٹ حاصل کرکے انہوں نے شاندار کار کردگی کا مظاہرہ کیا ۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں انہوں نے 14 فیصد ووٹ حاصل کرکے تین لوک سبھا سیٹوں پر جیت حاصل کی ۔ اسمبلی انتخابات میں بھی یو ڈی ایف کا ووٹ فیصد قابل ذکر ہے ۔ کانگریس اور بی جے پی آسام کی تمام سیٹوں پر اپنا امیدوار اتارتی ہے، لیکن یو ڈی ایف صرف 15 فیصد سیٹوں پر اپنا امیدوار اتارتی ہے اور اس میں وہ 13 سے 16 فیصد ووٹ حاصل کرلیتی ہے۔2011 اور 2016 کے اسمبلی انتخابات میں آسام کی 126 سیٹ والی اسمبلی میں یو ڈی ایف صرف 50 امیدواروں کو اتار کرکے 16 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ 2016 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے 121 سیٹوں پر صرف 30 فیصد ووٹ حاصل کیا جبکہ یو ڈی ایف نے 50 سیٹوں پر 14 فیصد ووٹ حاصل کیا۔ بی جے پی نے 40 فیصد ووٹ حاصل کرکے حکومت سازی کی۔ مطلب واضح ہے کہ اگر کانگریس یوڈی ایف کے ساتھ اتحاد کرلیتی تو آج آسام میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہوتی ۔

آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی یو ڈی ایف اپنا وجود اور شناخت بناچکی ہے۔ 16 فیصد ووٹ پر ان کا قبضہ مسلسل برقرار ہے ۔ اس لئے اب یو ڈی ایف کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے۔ کانگریس اسے نظر انداز کرکے بی جے پی کو فائدہ پہونچاسکتی ہے لیکن وہ خود حکومت نہیں بناسکتی ہے ۔ کانگریس کی قیادت خود اس بات کا اندازہ کرچکی ہے اس لئے اس اس کی پوری کوشش یو ڈی ایف کے وجود ختم کرنے پر مرکوز ہوگئی ہے ۔ آسام میں کانگریس اب جیتنے کے بجائے یو ڈی ایف کے وجود کو ختم کرنے کے مشن پر کام کررہی ہے ۔ چناں چہ 2016 کے اسمبلی انتخابات میں یو ڈی ایف نے اتحاد کی پوری کوشش کی لیکن کانگریس نے کوئی توجہ نہیں دی ۔ نتیجہ آنے کے بعد ترون گگوئی نے کہا ہمیں بی جے پی کی جیت پر افسوس نہیں ہے، نہ کانگریس کی شکست کا غم ہے، ہاں ! خوشی ہے کہ یو ڈی ایف کنگ میکر کا رول ادا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ۔ 2019 کے عام انتخابات میں بھی کانگریس اسی ایجنڈا پر کام کررہی ہے ۔ بہار ، یوپی اور کرناٹک سمیت کئی ریاستوں میں کانگریس نئی تشکیل شدہ پارٹیوں کو اپنے اتحاد میں شامل کررہی ہے لیکن یوڈی ایف کے ساتھ وہ آسام میں اتحاد کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ترون گگوئی اپنا پرانا ڈائیلاگ دہرانے لگے ہیں ” ہو از اجمل ؟ “ اجمل کون ہیں ۔

مسلم ووٹوں پر کانگریس اپنا قبضہ سمجھتی ہے ۔ مسلم ووٹوں پر کانگریس مسلم قیادت کو جیتنے نہیں دینا چاہتی ہے ۔ مسلم لیڈر شپ کے وجود کو کانگریس ابھر نے نہیں دینا چاہتی ہے ۔کانگریس آزادی کے بعد سے ہی مسلمانوں کو اپنے ماتحت رکھنے کی کوشش کی ہے اور جس نے بھی کانگریس کی اس پالیسی کے خلاف اپنی شناخت قائم کرنے کی جدوجہد کی ہے، کانگریس نے اسے بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنٹ ثابت کرکے خود مسلمانوں کو ان سے بدظن کرنے کی مہم چلائی ہے ۔ مسلمانوں کے درمیان ان کے خلاف لابی کھڑی کی ہے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد سے لیکر غلام نبی آزاد تک دسیوں مسلم رہنما کی فہرست ہے جو کانگریس کی استحصالی سیاست کے شکار ہوچکے ہیں۔ پارٹی ٹائم لائن کی اتباع اور ایسی کئی مجبوریاں تھی جس نے انہیں لب کشائی نہیں کرنے دی ۔ چند ماہ قبل کانگریس کے قدآور رہنما غلام نبی آزاد نے اپنا درد بیان کیا تھا اب ہمیں ریلیوں میں کانگریسی امیدوار نہیں بلا رہے ہیں۔ بہر حال کانگریس کا حصہ بننے کے بجائے اپنا علاحدہ پلیٹ فارم تشکیل دیکر مولانا بدرالدین اجمل ، اسد الدین اویسی اور اس طرح کے کئی لوگ سیاسی میدان میں اپنی شبیہ بنانا چاہتے ہیں۔ کانگریس کا حصہ بننے کے بجائے ایک سیکولر پارٹی بناکر سیاست میں مسلمانوں کی نمائندگی کرانا چاہتے ہیں تو کانگریس اسے پہلی فرصت میں ختم کرنا چاہ رہی ہے ۔ اس مہم اور مشن کے تحت کانگریس ایسی پارٹیوں کو بی جے پی کا ایجنٹ قرار دیتی ہے ۔ انہیں ووٹ کاٹنے والی پارٹی بتاتی ہے ، انہیں بی جے پی کی بی ٹیم تک قرار دیتی ہے ۔ مسلمانوں کو بی جے پی ، بجرنگ دل اور آر ایس ایس کا خوف دلاکر یہ کہتی ہے کہ اگر مرکز میں ہماری حکومت نہیں رہے گی تو مسلمانوں کا وجود ہندوستان سے مٹ جائے گا۔ کچھ تنظیموں اور ملی رہنما کو کانگریس اس مشن کی تکمیل پر لگادیتی ہے جو مسلم قیادت والی سیکولر پارٹیوں سے مسلمانوں کو بد ظن کرکے کانگریس کی حمایت میں مہم چلاتے ہیں اور انہیں ووٹ کٹوا کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ مسلمانوں سے ہمدردانہ اپیل کرتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تحفظ ، ان کی بقا اور وجود کیلئے ووٹوں کی تقسیم سے بچنا اور کانگریس کو مرکز میں پہونچانا ضروری ہے ورنہ ہندوستان اندلس بن جائے گا ۔

آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی یو ڈی ایف کی حیثیت کانگریس کے برابر ہے ۔ فی الحال لوک سبھا میں دونوں پارٹی سے تین تین ایم پی ہیں ۔ مولانا اجمل نے اول دن سے اتحاد کرنے کی کوشش کی ۔ آسام کے مشن 14 کو پورا کرنے کیلئے انہوں نے کانگریس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔ 14 میں سے صرف چا رسیٹوں پر اپنا امیدوار اتارنا چاہا ۔ 10 سیٹیں کانگریس کیلئے چھوڑی دی لیکن کانگریس نے اتحاد کے منصوبہ پر کوئی توجہ نہیں دی اور اب تقریباً اتحاد کی تمام امیدیں معدوم ہوچکی ہے ۔ حالاں کہ کانگریس سے اتحاد مولانا بدرالدین اجمل کی کوئی مجبوری نہیں ہے ۔ 2014 اور دیگر تمام انتخابات میں تنہا انہوں نے کامیابی حاصل کی ہے ۔ ان کی پارٹی سے تین ایم پی ہیں ۔ایک سروے کے مطابق 2019 میں بھی تقریباً پانچ سیٹوں پر ان کی کامیابی یقینی ہے ۔ ہاں اگر اتحاد ہوجاتا تو تقریبا 14 میں سے 12 سیٹوں پر سیکولر اتحاد کی کامیابی یقینی ہوجاتی لیکن اب ایسا نہیں ہوگا ۔بی جے پی اور اے جی پی تقریبا 7 سے 8 سیٹوں پر جیت حاصل کرلے گی ۔ یو ڈی ایف بھی پانچ پر جیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ کانگریس کا ووٹ فیصد کم ہوگا ۔ دو سیٹوں سے زیادہ پر اس کی جیت بھی مشکل ہے ۔ کانگریسی لیڈروں کی زبان میں آسام لوک سبھا انتخابات میں کانگریس ایک ووٹ کٹوا پارٹی کا کردار نبھائے گی ۔

stqasmi@gmail.com