کشور مصطفیٰ
نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے اپنے عملی رویے سے یہ ثابت کر دیا کہ دنیا کو ایک مثبت سمت دکھانے اور غم و اندوہ میں ڈوبے انسانوں کو زندگی کی طرف واپس لانے کا اہم ترین کام ایک عورت ہی سر انجام دے سکتی ہے۔
کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد بین الاقوامی سطح پر ہر کسی کو حیرت میں ڈال دینے والی نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کو دنیا بھر میں بہت سے لوگ جانتے بھی نہیں تھے اور جو جانتے تھے وہ صرف وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی سیاسی حیثیت کی وجہ سے۔ عالمی سیاسی منظر نامے پر جیسنڈا آرڈرن نے ابھی گزشتہ برس ہی قدم رکھا تھا۔ نیوزی لینڈ کی تاریخ میں گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے والی یہ سب سے کم سن لیڈر ہیں۔
ایک ترقی پسند رہنما کی حیثیت سے جیسنڈا آرڈرن ایک علامت بن کر اُبھری ہیں۔ 2017 ء میں جب یہ وزیر اعظم بنیں، تو اُس وقت ان کی عمر 37 برس تھی۔ جیسنڈا دنیا کی ایسی دوسری وزیراعظم ہیں، جنہوں نے اپنے دور منصب کے دوران ایک نئی زندگی کو جنم دیا یعنی وہ ماں بنیں۔ پچھلے تیس برسوں کی تاریخ میں ان کے علاوہ اب تک صرف ایک اور خاتون وزیر اعظم نے اپنے دور منصب کے دوران بچے کو جنم دیا اور وہ پاکستان کی مقتول وزیراعظم بینظیر بھٹو تھیں، جن کے ہاں 1990ء میں بختاور پیدائش ہوئی۔
یہی نہیں بلکہ 1988ء میں جب وہ انتخابی مہم چلا رہی تھیں تو وہ حاملہ تھیں اور اُن کٹھن لمحات کے دوران محترمہ بینظیر بھٹو کے ہاں اُن کے بیٹے بلاول بھٹو کی پیدائش ہوئی۔ اُس وقت انہوں نے چند بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اُنہوں نے حاملہ ہوتے ہوئے بھی الیکشن لڑنے اور انتخابی مہم کو بھرپور طریقے سے چلانے کا عزم کر رکھا تھا جس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ وہ آمر حکمران جنرل ضیاءالحق کے اس مفروضے اور اندازے کو غلط ثابت کر دینا چاہتی تھیں۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتی تھیں کہ خواتین حاملہ ہونے کو اپنی جسمانی اور نفسیاتی کمزوری سمجھ کر سیاسی میدان چھوڑ دینے کی بجائے مردوں کی اجارہ داری والے اس معاشرے میں اپنا سیاسی کردار بھرپور طریقے سے انجام دینے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔
معاشرے کی حمایت اور جیسنڈا جیسی لیڈر
پاکستانی معاشرے کے برعکس نیوزی لینڈ میں حاملہ ہونے کو ترقی پسندی کی علامت سمجھا جاتا ہے جبکہ ترقی پذیر معاشروں میں اب تک ایسا نہیں ہے۔ نفسیات اور سماجی رویوں کے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ ’ملٹی پل ٹاسکنگ‘ یعنی ایک وقت میں متعدد طریقے کے کاموں کو نمٹانے کی صلاحیت جتنی عورت میں ہوتی ہے اتنی مردوں میں نہیں اور یہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں سرگرم خواتین نے ثابت بھی کر دیا ہے۔
جیسنڈا آرڈرن کو نیوزی لینڈ کی نیشنلسٹ پارٹی اور بائیں بازو کی اعتدال پسند پارٹی پر مشتمل مخلوط حکومت کی سربراہی کرتے ہوئے ابھی سولہ ماہ ہی ہیں۔ وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالتے ہوئے شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ بہت جلد ہی انہیں ایسی صورتحال کا سامنا ہوگا، جس سے ملتی جلتی صورتحال کا سامنا کرنے والے طاقتور مرد رہنماؤں اور حکمرانوں نے کبھی جیسنڈا جیسی مثال نہیں چھوڑی۔ ماضی بعید کو تو چھوڑ دیجیے محض نائن الیون کے بعد بین الاقوامی سیاسی منظر نامے پر ایک نظر ڈالیے تو آپ کو دنیا کے مختلف خطوں میں بحرانوں، سیاسی ہلچل، عسکریت پسندی اور دہشت گردی کا جو نا ختم ہونے والا سلسلہ نظر آئے گا اُس میں آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ آخر بڑے بڑے عالمی اداروں اور اپنی ظاہری، جسمانی اور سیاسی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرنے والے قدآور سیاسی لیڈروں نے ان مسائل کے حل کے لیے کیا کیا؟
سچ تو یہ ہے کہ روس ہو یا امریکا، بھارت ہو یا اسرائیل، افغانستان ہو یا پاکستان، ترکی ہو یا سعودی عرب ہر کسی ملک کے حکمران نے اب تک اپنے ملکی اور علاقائی مسائل کے حل کے لیے اقدامات کیے۔ کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی کسی ایک موقع پر بھی عملی طور پر یہ دکھایا کہ انہیں عالمی مسائل کے حل کے لیے مثبت طریقے پیش کرنے میں دلچسپی ہے۔ اسلحے کے بیوپاری اپنی دکانداری چمکا رہے ہیں، ان کے لیے انسانی جانوں اور عوامی بہبود کیا معنی رکھتی ہے۔ پوٹن ہوں یا ڈونلڈ ٹرمپ، مودی ہوں یا عمران خان، نیتن یاہو ہوں یا پرنس سلمان، ایردوان ہوں یا اوربان ہر طرف مرد شاونزم اور طاقت کی ظاہری نمائش جاری ہے۔
ایک خاتون نے اپنا سکہ منوا لیا
جنون، انتہا پسندی، دہشت گردی، نسل پرستی اور غیر انسانی رویے کے نتیجے میں رونما ہونے والے کرائسٹ چرچ واقعات کے بعد دنیا نے دیکھا کہ اُن اکاون انسانوں، جن کی جانیں ضائع ہوئیں، کے لواحقین پر طاری صدمے کا عکس ملکی خاتون وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن پر جس طرح نظر آ رہا ہے، اُس کی مثال نہیں ملتی۔ کیا اس سے پہلے کبھی کسی ملک میں اس طرح کے دہشت گردانہ واقعات میں ہلاک ہونے والوں کے دکھوں اور صدمات کو اُس ملک کے وزیراعظم یا صدر نے اس طرح اپنا دکھ سمجھا؟ تعزیتی پیغام دے دینا اور لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کر کے وزرائے اعظم اور صدور اپنا فرض پورا کر دیتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی ایک نازک سی سادہ طبعیت وزیراعظم 15 مارچ کو کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کے بعد سے جیسے اپنے آپ کو بھول گئی ہیں۔ سیاہ لباس، سر پر دوپٹہ یہ سب کچھ ظاہری سوگ کا اظہار مان بھی لیا جائے تو اس امر کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ جیسنڈا کے چہرے پر جو اُداسی اور صدمہ عیاں ہے، وہ اُن کے اندر کے سچے انسان اور حساس عورت کا عکاس ہے۔ جیسنڈا نے نیوزی لینڈ کی مسلم برادری کے ساتھ جس خلوص، محبت، احترام اور رواداری کا عملی ثبوت پیش کیا ہے اُس کا مقابلہ دنیا کی سُپر پاور کہلانے والے ممالک کے سربراہان مملکت میں سے کسی ایک نے بھی آج تک نہیں کیا۔
جیسنڈا آرڈرن اپنے ملک، اپنے شہریوں اور اپنی ساکھ کی پرواہ کرتی ہیں۔ نیوزی لینڈ ایک خوشحال ملک ہی، جو اپنے سبزہ زاروں، قدرتی مناظر، صاف ستھری آب و ہوا اور اپنے کثیرالثقافتی رنگ کی وجہ سے دنیا کا ایک انوکھا ملک مانا جاتا ہے۔ یہاں گرجوں کی گھنٹی ہو یا مساجد کے مینار، ہر کسی کا احترام کیا جاتا ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے کرائسٹ چرچ کے دہشت گردانہ واقعات کے بعد متعدد ایسے اقدامات کیے ہیں، جن سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سدباب چاہتی ہیں۔ ’گن لابینگ‘ کرنے والوں سے نمٹنے اور عسکری نوعیت کے نیم خود کار ہتھیاروں پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے تمام دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ کثیرالثقافتی اور کثیرالمذہبی معاشرے کو خوشحال اور پھلتا پھولتا دیکھنے کے لیے ممکنہ اقدامات اور ان پر عملدرآمد کر کے دکھائیں گی۔
کرائسٹ چرچ کے واقعات کے بعد دنیا کے ’طاقتور ترین‘ لیڈر یا حکمران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو میں جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ اُن کے لیے ثقافتی تنوع سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے لیے ہمدردی اور محبت کو وہ ہمیشہ مقدم رکھیں گی۔ جیسنڈا کا یہ پیغام ڈونلڈ ٹرمپ اور دنیا کے دیگر مرد حکمرانوں تک پہنچے یا نا پہنچے انہوں نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے دل میں گھر کر لیا ہے۔