کیا مجلس اتحاد المسلمین مسلمانوں كے لئے ايك متبادل نہیں؟

ذاکر اعظمی – ریاض

2019 کے پارلیمانی انتخابات کا بگل بجتے ہى سياسى گلياروں ميں ہلچل تيز ہوتى جارہى ہے، گٹهہ جوڑکا بازار اپنے عروج پر ہے، سارى سياسى جماعتيں اپنى اپنى سياسى قوت کا مظاہرہ کرہى ہے ہيں، نئے نئے اتحاد تشکيل پارہے ہيں اور مفادات کا جادو ايسا سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ شام کو سيکولرزم يا نيشنلزم کے نام پر محاذ وجود ميں آتا ہے تو دوسرے دن صبح کا سورج طلوع ہوتے ہى سارے اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہيں اور ذاتى مفاد ات غالب آجاتے ہيں. دلچسب بات يہ ہےکہ وہ گرانڈ الائنس جو مسلمانوں کى آواز ہونے کا دعوى کرتے نہيں تهکتا، مسلمانوں کے ووٹوں پر ابپا حق تو جتاتا ہے ليکن پارٹى ميں مسلمانوں کى نمائند گى کا دور دور تک کوئى پتہ نہي، البتہ بھگوا پارٹی کے وہ لیڈران جو کل تک فرقہ پرست اور فاشسٹ نظریات کے پرچارک تھے مگر سیکولر اتحاد میں انٹری کرتے ہی ٹکٹ مل جاتا ہے، گویا ان سیکولرزم کی فیکٹریوں کے پاس کوئی ایسا کیمیکل ہے جس سے فرقہ پرستی کے پاپ منٹوں میں دھل جاتے ہیں اور پاپی پوتر ہوجاتا ہے۔

تيزى سے بدلتے ايسے حوصلہ شکن حالات ميں مسلم ووٹر تردد کا شکار ہے کہ وہ کسے ووٹ دے؟ کيا يہ حقيقت نہيں کہ ايک طويل مدت تک مسلمان سيکولرزم کے نام پر کانگريس اور خود ساختہ سيکولر پارٹيوں کا ساتهہ ديتا رہا اور بدلے ميں مايوسى، فرقہ وارانہ فسادات، اقتصادى بد حالى، تعليمى پساماندگى، عدم تحفظ، بابرى مسجد کى شہادات، بے گناہ مسلم نوجوانوں کى حراست کے علاوہ کچهہ ہاتهہ نہيں آيا۔

ايسے ميں سوال پيدا ہوتا ہے کہ کب تک مسلمانوں کے ووٹوں کا سودا ہوتا رہے گا؟ کيا ہميں آبادى کے تناسب سے سياسى اداروں ميں نمائندکى نہيں ملنى چاہيے؟ ہم کو کب تک ترقى کے مواقع سے محروم کيا جاتا رہے گا؟ کيا وقت نہيں آکيا ہے کہ اب غيروں پر تکيہ کے بجائے ہم اپنى ملى قيادت کو مضبوط کريں؟ کيا ہميں بہار کے کشن گنج پارلیمانی حلقہ سے اختر الایمان، اورنگ آباد سے امتیاز جلیل، ممبئی سے وارث پٹھان جیسے مجلس اتحاد المسلمين کے بے باک نمائندوں کا خير مقدم نہيں کرنا چاہیئے ؟

عام طور سے خود ساختہ مسلم انٹيليكچول يہ رائے رکهتے ہيں کہ ميم کے حیدرآباد سے باہر الیکشن میں حصہ لینے سے سيکولر طاقتوں کو نقصان پہونچے گا اور فرقہ پرست قوتوں کى کاميابى يقينى ہوجائے گى، ليکن سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ گذشتہ پارليمانى انتخابات ميں يوپى ميں ايک نئى تاريخ رقم ہوئى يعنى ايک بهى مسلم اميدوار پارليمنٹ تک نہيں پہنچ سکا حتى کہ محمد اديب جيسے قد آور قائد کى مسلم اکثريتى علاقے بجنور سے ضمانت ضبط ہوگئى، جب کہ ميم کا يوپى کے سياسى افق پر وجود بھى نہيں تھا، تو فرقہ پرستوں کى اس واضح جيت کا ذمہ دار کس کو مانا جائے؟  

ہميں چاہيے کہ موہوم خدشات سے باہر نکلنے کى کوشش کريں اور اپنى قيادت کو پروان چڑهائيں اور ملى اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورے دم خم سے ملک کی سياسى بساط بر اثر انداز ہونے کى کوشش کريں. يہاں يہ حقيقت بهى واضح کرنا ضرورى ہے کہ جنوبى ہند کے مسلمان اگر چہ عدد کے لحاظ سے شمالى ہندوستان کے مسلمانوں سےكم ہيں، انکے یہاں ہر گلی کوچے میں اردو میں لچھے دار تقریریں کرنے والے قائدین کی بہتات بھی نہیں، ليکن انکے اندر سياسى شعور کسى حد تک پختہ ہوچكا ہے. يہى سياسى شعور ہے کہ کيرلا کى 140 اسمبلى کى نشستوں ميں 17- 18 مسلم اميدوار مسلم ليگ کے ٹکٹ پر کامياب ہوتے ہيں جسکا تناسب مجموعى نشستوں کا 12.5 في صد ہوتا ہے ليکن اسکے باوجود اپنے مطالبات منوانے ميں کامياب ہوتے ہيں، اور اسى سياسى شعور کى بدولت اقتصادى اور تعليمى ميدان ميں خاطر خواہ کاميابى سے ہمکنار ہوتے رہے ہيں، اور گذشتہ يوپى. اے. حکومت ميں اى – احمد صاحب مسلم ليگ کى نمائندگى کرتے ہوئے وزير مملکت برائے خارجہ امور بنائے گئے. کيا يہ تاريخى حقيقت نہيں کہ جب اندرا گاندهى کوکو سنڈيکيٹ کانگريس کے خلاف مدد کى ضرورت پڑى تو مسلم ليگ کے دو ممبران پارليمٹنٹ کى مدد کے لئے پکارا گيا؟ تاریخ کے یہ چشم کشا نظیریں چیخ چیخ کر ہمیں اپنی قیادت کے فروغ کا مطالبہ کررہی ہیں مگر ہم ہیں کہ اپنی سیاسی اہمیت کو پہچاننے کے لئے کسی طور تیار نہیں۔ 

جہان تک ميم کى اہميت وافاديت کى بات ہے تو ہميں 1985 کى تاريخ کو مد نظر رکهنا ہوگا جب ميم کے 5 ممبران اسمبلى نے ان. ٹى. رارما راؤ کو حکومت سے بےدخل کرنے ميں کليدى کردار ادا کيا اور ننڈيلا بهاسکر راؤ کى مدد کر بہت سے ملى کامو کو آگے بڑهايا جس ميں مختلف ميڈيکل اور انجينيرنگ کالجوں کى تاسيس بيں ثبوت ہے، اور اس سے بڑھ كر انہيں 5 ممبران اسمبلى کى بدولت سالار ملت مرحوم سلطان صلاح الديں اويسى کو آندهرا پرديس اسمبلى کا عبورى اسپيكر منتخب کيا گيا.

ميم کے صدر نقيب ملت جناب اسد الديں اويسى صاحب کی دانشمندی قابل ستائش ہے کہ فرقہ پرستوں کی رتھ کو روکنے کے لئے میم صرف چند مخصوص حلقوں سے ہی اپنے امیدوار کھڑے کررہی ہے تاکہ کہ باقى جگہوں پرفرقہ پرست طاقتوں کوہرايا جاسکے. آخر اس فیصلہ میں کہاں فرقہ پرستى کى جهلک دکهہ رہى ہے کہ اویسی صاحب کی جماعت کو ہمارا مذہبی طبقہ بھی فرقہ پرستی کا طعنہ دے رہا ہے؟ ہميں چاہئے کہ کيرلا کى مسلم ليگ اور آندهرا کى ميم کے تجربات سے فائدہ اٹهاتے ہوئے اس بار کے انتخابات ميں اپنے مثالى ملى اتحاد اور سياسى شعور کا مظاہرہ کريں اور اپنى ملى قيادت کو مضبوط کريں، يہى زندہ قوموں کا شعار رہا ہے۔ ميم کى خوش نصيبى ہے کہ بہار ميں اسے ايک ايسا زمينى ليڈر اختر الایمان کی شکل میں ملا ہے جس کے دل ميں سيمانچل کے عوام کى پسا ماندگى کا درد ہے، جو بہار کے مسلمانوں کى آواز بڑے دم خم سے اسمبلى ميں اٹهاتا رہا ہے ، 3 بار ممبر اسمبلى رہا اور بہت سے ترقياتى منصوبوں پر عمل درآمد کرايا ليکن اس کا دامن ہر طرح کے مالى كرپشن سے پاک رہا۔