اردو سیرت نگاری کے تابندہ نقوش کے موضوع پر دسویں قاضی مجاہد الاسلام میموریل لیکچر کا انعقاد
نئی دہلی، 30؍ مارچ 2019: ’’ انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچنے کے دو ہی ذرائع ہیں۔ اللہ کا کلام اور انبیا و رسل کی سیرتیں۔ اِن دونوں چیزوں کو ہمیشہ لازم و ملزوم کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ان میں سے کسی ایک سے بے نیازی انسان کو اسلام کے صحیح فہم سے یکسر محروم کردے گی۔ وہ ہدایت الٰہی سے بہت دور ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ اور ہر دور میں صحیح سمجھ بوجھ رکھنے والوں نے اِنھی دونوں چیزوں کو اپنے لیے مشعلِ راہ سمجھا، اِنھی کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنایا اور اسی میں انھوں نے اپنی دونوں جہاں کی فلاح و کام یابی سمجھی۔‘‘ ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیراہتمام منعقد ہونے والے دسویں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی میموریل لیکچر میں ڈاکٹر تابش مہدی نے کیا۔
ڈاکٹر تابش مہدی نے سیرت نبوی اور سیرت نگاری کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’سیرت محض کسی شخص یا شخصیت کی سوانح عمری کا نام نہیں ہے کہ اِسے محض تسکین ذوق کے لیے لکھا یا پڑھا جائے۔ یہ موضوع اپنی پاکیزگی وطہارت میں سمندر کی اتھاہ گہرائی بھی رکھتا ہے۔ اس گہرائی تک پہنچنے کے لیے غیرمعمولی ذہنی و فکری پاکیزگی کی بھی ضرورت ہے اور سنجیدہ علم، مطالعے اور ذوقِ سلیم کی بھی۔ سیرت رسول ﷺ ایک خوش بو دار تہذیب ، بصارت و بصیرت افروز تمدن ایک قوم و ملت کے روشن فروغ اور الٰہی پیغام کے آغاز و ارتقا کی اہم، دل چسپ اور سدا بہار داستان کا نام ہے۔ ایسی داستان جس میں ہر قوم وملّت، ہر مذہب ومسلک، ہر رنگ و نسل اور ہر خطے اور علاقے کے لیے امن وسکون کا لوازمہ موجود ہے۔ ہر شخص اپنی توفیق واستطاعت کے مطابق اِس سے کچھ نہ کچھ حاصل کرسکتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر تابش مہدی نے علامہ شبلی نعمانی، علامہ سید سلیمان ندوی، قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری، مولانا عبدالرؤوف داناپوری، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا ماہر القادری، ڈاکٹر محمد حمید اللہ، مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی، مولانا نعیم صدیقی، مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی اور مولانا صفی الرحمن مبارک پوری کی سیرت نگاری کا جامع تذکرہ کیا اور اردو زبان میں سیرت نگاری کی مضبوط اور معتبر روایت پر خوب صورت انداز میں روشنی ڈالی۔
لیکچر سے پہلے آئی او ایس کی معاون جنرل سکریٹری پروفیسر حسینہ حاشیہ نے قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور ان کی یاد میں ہونے والے آئی او ایس لیکچر کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی تمام علوم اسلامی پر وسیع وعمیق نظر تھی، مختلف عصری علوم سے بھی وہ کافی شغف رکھتے تھے۔ صحیح معنوں میں وہ قدیم وجدید کے حسین سنگم تھے۔ حضرت قاضی صاحب فقیہ النفس عالم تھے۔ فقہ کے تمام پہلوؤں پر ان کی گہری نظر تھی، عصر حاضر کے فقہی مسائل کو انھوں نے خاص طور پر اپنی توجہ کا مرکز بنایا تھا۔قاضی صاحب علیہ الرحمہ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے، جس کا ادراک کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نے 2002 میں قاضی صاحب کی رحلت کے بعد ہی قاضی مجاہدالاسلام قاسمی میموریل لیکچر کی داغ بیل ڈالی، تاکہ سال بہ سال کسی ایک پہلو پر لیکچر کا خصوصی اہتمام ہو اور اس سے متعلق پہلوؤں پر پوری طرح بحث ہو۔ اس سلسلے میں 2003 سے 2018 تک 9؍لیکچرز کا انعقاد ہو چکا ہے۔‘‘
لیکچر کے بعد آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے جنرل سکریٹری مولانا عبدالحمید نعمانی نے لیکچر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ڈاکٹر تابش مہدی نے اپنے پُرمغز خطبے میں جن پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ بہت اہم ہیں۔ سیرت کے موضوع پر اور بھی بہت سی اہم کتابیں لکھی گئیں ہیں، جن کا مفصل جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔‘‘
آئی او ایس کے سکریٹری جنرل پروفیسر زیڈ ایم خان نے ڈاکٹر تابش مہدی کو ان کے عالمانہ خطبے پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’سیرت نبوی انسانیت کے لیے تاقیامت ایک رہ نما اور گائیڈ ہے۔ انسانیت کو کام یابی سے ہم کنار کرنے کے لیے ہمیں ریاستِ مدینہ کی طرف دیکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ تقلید کا نعرہ لگانے کی بجائے کامل اتباع ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں آئی او ایس اپنی حتی الوسع کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ آج کا یہ خطبہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم سب نے اس اہم خطبے سے فائدہ اٹھایا ہو گا۔‘‘
صدارتی خطاب پیش کرتے ہوئے پروفیسر اقتدار محمد خان (سابق صدر شعبۂ اسلامیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے کہا کہ ’’ڈاکٹر تابش مہدی نے بہت کم وقت میں بہت عالمانہ خطبہ پیش کیا۔ میں آئی او ایس کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ وہ مسلسل اپنی علمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور اسی کی وجہ سے ہمیں آج یہ اہم خطبہ سننے کا موقع ملا۔‘‘ انھوں نے ہندستان میں سیرت نگاری کی تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’تقریباً محمود غزنوی کے دور سے یہاں سیرت لکھی جارہی ہے۔ نثر، نظم اور تراجم تینوں میدانوں میں بڑا کام ہوا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں یاتو غزوات نبوی کا تذکرہ ہوتا ہے یا شمائلِ نبوی کا۔ حالاں کہ سیرت نبوی کا سب سے رہ نما اور نمایاں پہلو اخلاق وکردار کی تشکیل ہے۔‘‘
جلسہ کی نظامت ڈاکٹر نکہت حسین ندوی نے انجام دی۔ انھوں نے تمام مہمانوں اور خاص طور پر موضوع کا خوش اسلوبی کے ساتھ تعارف بھی پیش کیا، جب کہ محمد اطہر حسین کی تلاوت سے جلسہ کا آغاز ہوا۔ لیکچر میں سامعین کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جن میں جناب شہاب الدین انصاری، سید ظفر علی، ڈاکٹر محمد اکرم، ڈاکٹر محمد خالد، بسمل عارفی، اقبال حسین کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔