کانگریس کے انتخابی منشور میں مسلمان اور عیسائی لفظ سے گریز ۔رسم اجراءتقریب میں بھی پارٹی کے کسی بھی مسلم چہرے کو شامل نہیں کیاگیا

کانگریس سمیت کئی سیکولر پارٹیوں نے باشرع مسلمانوں اور ٹوپی پہنننے والوں کو اپنے دفتر میں آنے سے منع کردیاہے اور کہاگیاہے کہ وہ دفتر میں نہ آئیں کیوں کہ اس سے ہندوووٹ منشر ہوسکتاہے
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
کانگریس نے اپنا انتخابی منشور جاری کردیاہے جس میں عوام سے کئی سارے وعدے کئے گئے ہیں ۔اس منشور میں کسانوں ،غریبوں اور نوجوانوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے تاہم اقلیتوں اور مسلمانوں کو اس میں کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی ہے ۔ 55 پیج کے انتخابی منشور میں صرف ایک سیکشن ایک صفحہ پر مشتمل مذہبی اور لسانی اقلیتوںکیلئے ہے جس میں مسلمان اور عیسائی لکھنے سے گریز کیاگیا ہے ۔ 55 صفحات کے انتخابی منشور میں صرف ایک جگہ لفظ مسلم آیاہے اور وہ بھی علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے ضمن میں کیوں کہ منشور میں کہاگیاہے کہ کانگریس کی حکومت علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی اسٹیٹس کو برقرار رکھے گی ۔ انتخابی منشورمیں عیسائی لفظ کا سرے سے کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔
معروف صحافی او ر حقوق انسانی کارکن جون دیا ل نے کانگریس کے اس رویہ پر سخت حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مودی اپنے مشن میں کامیاب ہوچکے ہیں اور راہل گاندھی ان کے سامنے مجبور ہیں کیوں کہ نریندر مودی نے ملک کو ہندتوا کے راستے پر گامزن کردیاہے اور اب راہل گاندھی اور ان کی پارٹی کانگریس اس کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلمانوں اور عیسائیوں کا نام لینے سے گریز کرنے لگی ہے کہ کہیں ہندو ووٹ اس سے منتشر نہ ہوجائے ۔ آل انڈیا ملی کونسل کی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جون دیا ل نے کہاکہ ہم عیسائی ملک میں تین کڑرو ہیں لیکن کانگریس نے ایک جگہ بھی نام نہیں لیا۔ لفظ مسلم کا تذکرہ بھی اے ایم یو کی وجہ سے آیا کیوں کہ وہ اس کے نام کا حصہ ہے ۔
یہ بات بھی بعض حلقوں میں زیر بحث ہے کہ 2اپریل کو انتخابی منشور کی ریلیز تقریب میں کانگریس کے سکھ اور عیسائی چہرے شامل تھے تاہم احمد پٹیل اور غلام نبی آزاد جیسے چہروں کو دور رکھاگیاتاکہ یہ پیغام جائے کہ کانگریس مکمل طور پر ہندتوا کے ایجنڈے پر ہے اور مسلمانوں سے اس نے دوری بنالی ہے ۔
ا س دوران صحافی حلقوں میں یہ خبر بھی گردش کررہی ہے کہ کانگریس سمیت کئی سیکولر پارٹیوں نے باشرع مسلمانوں اور ٹوپی پہنننے والوں کو اپنے دفتر میں آنے سے منع کردیاہے اور کہاگیاہے کہ وہ دفتر میں نہ آئیں کیوں کہ اس سے ہندوووٹ منشر ہوسکتاہے ۔