محمد عرفان ندیم
سوشل سائنسز کی تمام فیکلیٹیز جس میں معاشیات ، سماجیات، نفسیات ، فلسفہ ، تاریخ ، ابلاغیات اور مینجمنٹ شامل ہیں ان سب علوم کی فکری و نظریاتی بنیادیں مغرب سے جا کر ملتی ہیں ۔جب ہمارا طالب علم ان علوم کو پڑھتا ہے تو لامحالہ اس کے اثرات بد جس میں سر دست مذہب سے بیزاری اور اسے اپنی روزمرہ زندگی سے نکالنا شامل ہے ظہور میں آتا ہے ۔ ہماری پوری دو تین نسلیں اسی طرح کے ماحول، علوم اور فضا میں پروان چڑھی ہیں تو ایسے سماج میں دینی اعتقادات سے بے اعتنائی ، دین کے بنیادی تقاضوں سے مفراور نیکی و بدی کے تصورات کا بدل جانا کوئی بعید نہیں اور بد قسمتی سے آج ہم اسی مرض میں مبتلا ہیں ۔ نئی نسل میں اچھائی اور برائی کے معیارات بدل چکے ہیں ، سماج میں گناہ کو گناہ سمجھا ہی نہیں جا رہابلکہ اسے انٹرٹینمنٹ اور ثقافت کہہ کر پروان چڑھایا جا رہا ہے ۔ امت مسلمہ کا تصور نئی نسل کے ذہنوں میں راسخ ہو ہی نہیں رہا کہ انہیں پڑھائے جانے والے علوم، کتابوں ، درسگاہوں اور استاد نے یہ سبق دیا ہی نہیں ۔ ہم عسکری اور سیاسی سطح پر مغلو ب تو ہوئے ہی تھے مگرفکری، تعلیمی ، تہذیبی اور ثقافتی سطح پر مغرب نے جو ہمارے ساتھ کیا وہ عسکری اور سیاسی شکست سے کہیں زیادہ خطرناک تھا ۔ شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کوئی غیر مسلم تہذیب ہمارے لیے اتنی منظم اور مدلل بنا کر پیش کی گئی کہ ہم اسے اپنانے پر فخر محسوس کرنے لگے۔ اس کو ذرا صاف لفظوں میں کہوں توتا ریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کفر اتنا زیادہ مدلل بنا کر پیش کیا گیا اور تمام علوم اس کی تائید میں اکٹھے ہو ئے۔ تو جب تک ہم مغرب کے اس تہذیبی ، ثقافتی اور نفسیاتی غلبے کو زندگی کے ہر میدان سے نکال باہر نہیں کریں گے اور ایک نئے سرے سے علوم و فنون کی شجر کاری نہیں کریں گے تب تک ہمیں اپنی نئی نسل سے شکایت رہے گی ۔محترم احمد جاوید صاحب لکھتے ہیں ’’ مغرب کو ہر اعتبار سے زندگی کی ہر سطح پر ذہن کے ہر پہلو سے خود پر غیرموثر کئے بغیر ہم اپنے ایمان کو شعور کو کا منبع اور مر جع نہیں بنا سکتے ۔مغرب سے لڑنا ہو یا مغرب کے جال میں پھنسنے سے بچنا ہوتو براہ راست ذہنی تصادم کے بغیر بالکل بے نیازی کی حالت میں چیزوں کو نئے سرے سے define کروجس میں definer تمہارا ایمانی شعور ہو۔سماجی علوم کو دین کے تابع رکھنا ضروری ہے اور یہ ابوجہل کو کلمہ پڑھوانے سے کم عمل نہیں ہو گا۔ اگر آپ سماجی علوم کو دین کے تابع رکھنے میں کامیابی حاصل کر لیں تو ان شاء اللہ اس میں اتنا ہی اجر ہے جتنا ابوجہل وغیرہ کو کلمہ پڑھانے میں بلکہ آج کل تو جہل ابوجہل کی استطاعت سے بہت زیادہ ہے ۔‘‘
اس وقت کرنے کا کام یہ ہے کہ سوشل سائنسز کو اسلامائز کرنے کی طرف توجہ دی جائے ، اس کے دو پہلو ہو سکتے ہیں ، سر دست وہ سماجی علوم و فنون جو ہمارے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیز میں پڑھائے جا رہے ہیں ان کی از سر نو تشکیل نو کی جائے جس کی بنیاد اسلامی تہذیب اور ہمارا ایمانی شعور ہو ، ہم سوشل سائنسز میں مغرب کو معیار بنانے کی بجائے قرآن کو معیار بنائیں اورہماری سوشل سائنسز کا منبع اسلامی فکر ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ استاد کی فکری و نظریاتی تربیت بھی ناگزیر ہے ، ہمارا استاد کلاس روم میں سب کچھ پڑھارہا ہے لیکن وہ نئی نسل کی فکری و نظریاتی تربیت نہیں کر رہا،وہ انہیں نہیں بتا رہا کہ تمہارے نیکی و بدی کے تصور کی بنیاد کیا ہونی چاہئے ، تمہارے اخلاق کس سے متاثر ہونے چاہیءں ، تمہارے ہیروز کون ہونے چاہیءں ، تمہیں کس طرح کا لٹریچر پڑھنا چاہئے ۔ وہ انہیں نہیں بتا رہا کہ تمہارا میڈیا تمہیں کیسے گمراہ کر رہا ہے ، تمہیں کس طرح کے ڈرامے اور فلمیں دکھا کر مسمرائز کیا جا رہا ہے ، تمہیں کس طرح فحاشی وعریانی کے سیلاب میں دھکیلا جا رہا ہے اور تمہیں کس طرح اپنے مذہب سے دور کیا جا رہا ۔ وہ انہیں نہیں بتا رہا کہ امت مسلمہ کا تصور کیا ہے اور ہمیں دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے مسلمان کو پہنچنے والی تکلیف پر کیوں مضطرب ہوجانا چاہئے ۔ دوسرے نمبر پر کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم خود آگے بڑھ کر نئی تحقیقات اور دریافتوں کے میدان میں قدم رکھیں ، ہم تسخیر کائنات کے قرآنی حکم کو بنیاد بنا کر نیچرل سائنسز میں اپنی تھیوریز وضع کریں اور اس کی بنیاد پر سوشل سائنسز میں اپنی علمیات خود وضع کریں ۔ احمد جاوید صاحب لکھتے ہیں ’’میری گزارش ہے کہ شعبہ تعلیم کے منتظمین، مربی حضرات، سسٹمز کے مالکان مہربانی فرما کر اپنے نصاب تعلیم میں، اپنے تدریسی عمل میں اس چیز کو بھی شامل کر لیں کہ ایمان کو تمام علوم کا مبداء واحد کیسے بنایا جا سکتا ہے ۔ ایمانی شعور کو شعورکی دیگر تمام faculties کا مربی اور سر پرست کیسے بنایا جا سکتا ہے ۔شعور کی کئی faculties ہیں، مذہبی شعور، اخلاقی شعور ، جمالیاتی شعور، عقلی شعور۔ اس میں ہم سب پہ لازم ہے کہ ہم اپنے ایمانی شعور کو جمالیاتی شعور کا بھی مربی بنائیں، عقلی شعور کا بھی رہبر بنائیں، اخلاقی شعور کا بھی کفیل بنائیں، یہ ہماری ذمہ داری ہے اور اپنے ہر تعلیمی عمل میں اس ذمہ داری کو مقصود کے طور پہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ میرا جمالیاتی شعور بھی اللہ کے حضور سے سیراب ہو اور میرا عقلی شعور بھی اللہ کی حضوری میں رہنے سے مانوس ہو۔جیسا کہ سقراط نے کہا تھا کہ علم کے نتائج اگر اخلاقی نہیں نکلتے تو وہ علم نہیں ہے ۔ یہ بات سقراط سے کہیں زیادہ تیقن اور تحکم سے ہم کہہ سکتے ہیں، ہمیں کہنے کا حق ہے کہ علم کے نتائج اگر اخلاقی نہیں ہیں تو وہ دینی علم نہیں ہے کیونکہ دینی علم اللہ کے خوف سے شروع ہوتا ہے اللہ کے خوف پہ تمام ہوتا ہے ،اس کی محبت کو سمیٹ کراوراس کی معرفت کو سمو کر۔‘‘جب سوشل سائنسز کی بنیاد ہمارے ایمانی اور قرآنی شعور پر ہو گی تو ہماری نوجوان نسل اور ہمار انیا ذہن اپنے دور کے تمام علوم او ر تہذیبی اقدار پر ناقدانہ نظر ڈالنے کے قابل ہو سکے گا ۔پھر ا س کی نیکی و بدی کا تصور مغرب سے نہیں قرآن سے ماخوذ ہو گا ،وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں بسنے والے مسلمان کو امت واحدہ کے تصور سے دیکھ سکے گا ۔ ایسا ذہن جدید مغربی فکر کے لیے چیلنج بن کر کھڑا ہو گا کہ کوئی ہے جو ہمارے قرآنی شعور کی برابری کر کے دکھائے اور عملی سطح پر ہمارے اعمال و اخلاق کا مقابلہ کر کے دکھائے ۔ یہ فکراور شعور قرآن پر ایمان کا بنیادی تقاضا ہے ، اگر آپ مسلمان ہونے کے باجود اس فکر اور شعور سے خالی ہیں تو آپ کا ایمان سو رہا ہے جسے جگانے کی ضروت ہے ۔احمد جاوید صاحب کہتے ہیں ’’کیایہ کام اہل علم کا نہیں ہے کہ آج اخلاق اور ذہن کی تعمیر میں جن علوم کا کردار بلاشک و شبہ صادق ہو چکا ہے اہل علم ان تمام علوم کو ایمان کے تابع کر کے دکھائیں، ان تمام اقدار کو عمل صالح سے مغلوب رکھ کے دکھائیں۔ اس صورتحال کو سمجھو کہ آج تمہارے کسی بھی نظریے، دنیا کے بارے میں علم اور تصور کے بننے کا ساراعمل جو ہے وہ ویسٹ کے مادہ علم سے عمل میںآتا ہے ۔ انسانی وجود اور شعور دونوں کو سیراب کرنے والا پانی مغرب کے چشمہ زہراب سے آتا ہے جس سے تم اپنے شعور کے درختوں اور پودوں کو پانی دے رہے ہو اور اگر اس سے نہ نکلے اور اس سے نکلنے کی بہت منظم کوششیں نہ کی تو پھر شناختی کارڈ والے اسلام کے علاوہ کوئی مسلمان باقی نہیں رہے گی۔‘‘یہ چنداسباب وجوہات اور ان کے ازالے کے راستے ہیں جن پر چل کر ہم اپنے سماج میں وہ احساس اور شعور ڈویلپ کر سکتے ہیں جو اسلامی تہذیب کا خاصہ تھا ۔ جسے اپنا کر ہم نوجوان نسل میں امت کا تصور ڈویلپ کر سکتے ہیں ا ور دوبارہ سے وہ کھویا ہوا مسلمان دریافت کر سکتے ہیں جو آج ہمیں کہیں نظر نہیں آتا ۔