محمد خالد حسین نیموی قاسمی
مدرسہ بدرالاسلام، بیگوسرائے بہار
حکومت ،حکمراں اور طریقہٴ حکمرانی :
آزادی، ا نسان کے لیے ایک قیمتی نعمت اور بیش بہا سرمایہ ہے ، ہر انسان رحمِ مادرسے آزاد پیدا ہوتا ہے؛ اسی لیے آزادی اس کی شرست میں داخل ہے۔آزادی کا احساس انسان کے اندر خودداری وخود اعتمادی اور اپنے آپ کی تکمیل وتعمیر کے جذبات پیدا کر تا ہے ؛ لیکن جب آزادی کا یہ احساس ایک حد سے بڑھ جا تا ہے ،یا اس احساس کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے اور انسان کی آزادی خطرے میں پڑجاتی ہے؛ تو انسان میں بغاوت ،حیوانیت ،خود سری جیسے اوصاف پروان چڑھنے لگتے ہیں اور وہ اپنے دائرہ سے بڑھ کر دوسروں کی آزادی کو پائمال کرنے لگتا ہے ۔پھر جب ایسے انسانوں کی معاشرہ میں کثرت ہوتی ہے؛ تو انتشار ، آپسی ٹکراؤ اور انارکی کے حالات پیدا ہوتے ہیں اور کبھی کُشت وخون کے بھیانک مناظر بھی سامنے آتے ہیں؛ لیکن چوں کہ انسان مدنی الطبع بھی ہے؛ اس لیے ابتدائے آفرینش سے انسان اپنی پیدائشی آزادی کے با وجود ایک نظام کی تابعداری کرکے اور ایک حکم راں کی ما تحتی قبول کر کے زندگی گذارنے کا عادی رہا ہے۔ ایک نظام حکومت سے وابستہ ہوکر وہ دشمنوں سے اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے ۔اور آپس میں بقائے باہم کے اصول پر کاربند ہوکر پرامن زندگی گذارتا ہے، حکم رانی کے الگ الگ طریقے الگ الگ زمانے میں رائج رہے ہیں۔ کبھی شخصی حکومت رہی، تو کبھی خاندانی حکومت۔کبھی استبدادی نظام رہا، تو کبھی عوامی نظام۔ تاریخ کے زیادہ تر مراحل میں ایسی حکومتوں کا غلبہ رہا جن کے حکمراں زمامِ اقتدار سنبھالتے ہی خدائی کا دعویدار بن بیٹھے اور محکوم عوام کو اپنا غلام بنا کر ان سے اپنی بندگی کروانے لگے ۔
خلافت اور اللہ کی حاکمیت:
جب اللہ تعالی نے اپنے آخری پسندیدہ دین کے طور پر شریعت اسلامیہ کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔ تو اسلام نے اپنے ماننے والوں میں یہ بنیادی عقیدہ راسخ کیا کہ سارے انسان پیدائشی طور پر آزاد ہیں ؛ لیکن یہ آزادی لا محدود نہیں ؛جس سے انسان اپنے خالق کا باغی، وحشی اور سرکش ہوجائے؛ بلکہ سارے انسان اللہ وَحْدَہ لَاشَرِیْکَ لَہ کے بندے ہیں ۔ اسلام نے انسانوں کو اپنے ہم مثل کی بندگی سے نکال کر خداوندِ قدوس کی بندگی میں داخل کیا اور انسانوں کی زندگی پر اللہ تعالی کی حکم رانی کے نظریہ کو پختہ ومستحکم کیا ۔جیساکہ اہلِ نجران کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب گرامی میں صراحتا موجود ہے: فَانِّي أدْعُوْکُمْ الٰی عِبَادَةِ اللّٰہِ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ وَأدْعُوْکُمْ الٰی وِلاَیَةِ اللّٰہِ مِنْ وِلاَیَةِ الْعِبَادِ کہ میں تمھیں دعوت دیتا ہوں بندوں کی عبادت چھوڑ کر ایک اللہ کی بندگی کی اور بندوں کی حکمرانی سے نکل کر ایک اللہ کی حکمرانی میںآ نے کی۔ (البدایہ والنہایہ ۵/۶۴)
اور حضرت مغیرہ بن شعبہ نے حاکمِ فارس رستم کے دربار میں اپنے مقصدِ اصلی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایاتھا۔ وَاخْرَاجُ الْعِبَادِ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ الٰی عِبَادَةِ اللّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ کہ میری آمد کا مقصد بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک غلبہ والے اللہ کی بندگی میں داخل کرنا ہے۔ (البدایہ والنہا یة۷/ ۳۶)
خلافتِ اسلامی کا تصور:
اسلام خلافت کے طرز حکومت کو پسند کرتا ہے؛ جس میں اصل حاکمیت اللہ کی ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ألاَ لَہ الْخَلْقُ وَالْأمْرُ۔ (الاعراف ۵۴) ” آگاہ رہو! اسی کے لیے ہے پیدا کرنا اور حکم چلانا “۔ اور امیر، سلطان اور حکم راں اللہ تعالی کے عادلانہ احکام کو نافذ کرنے میں؛ اس کا نائب اور خلیفہ ہوتا ہے ۔یہ مقام بھی اللہ کا عطا کردہ ہے ،ارشاد ہے: وَیَجْعَلَکُمْ خُلَفَاءَ الْأرْضِ (النمل ۲۸ ) ”وہ تمھیں روئے زمیں کا خلیفہ بناتاہے“۔
اہلِ اسلام نے حکومتِ الٰہیہ اور خلافتِ راشدہ کاایسا بے نظیر نظام دنیا کے ایک بڑے حصہ پر قائم کیا کہ اس سے بہتر کسی نظام کا مشاہدہ آج تک چشم فلک نے نہیں کیا ہے ؛جس کے حکم راں عدل وانصاف راست گوئی و پاک بازی صفائی قلب اور روشن ضمیری اور خداترسی و رعایا پروری میں اپنی مثال آپ تھے ۔
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں الحمد للہ دنیا صدیوں تک اسلامی نظامِ خلافت اور اس کی رحمت و برکت سے مستفید ہوتی رہی ؛ لیکن جب اپنی بد اعمالیوں اور دشمن کی سازشوں کی وجہ سے نظام خلافت کا بالکلیہ خاتمہ ہوگیا؛ تو دنیا میں ایک ایسے طریقہٴ حکم رانی کو رواج ملا، جسے ” جمہوریت “ کہتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت اپنے اندر خوبیان بھی رکھتی ہیں اور اس میں خرابیاں بھی ہیں ۔ اس کی بعض نمایاں خرابیوں کی طرف اشارہ علامہ اقبالؒ کے ان اشعار میں بھی موجود ہے:
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اور یہ بھی کہ
سلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن آئے نظر اس کو مٹادو
جمہوریت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں اکثریت پرمبنی فیصلے ہوتے ہیں اگرچہ اکثریت اور تعداد پر فیصلہ اسلامی نقطئہ نظرسے بھی ہر جگہ مذموم نہیں ہے ۔بسا اوقات اکثریت ہی میں قوت رائے مضمر ہوتی ہے ۔جیساکہ علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ اکثر فقہاء کا کسی مسئلہ پر متفق ہونا حجتِ شرعی ہے اگرچہ اسے اجماع نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح خلافت کے انعقاد کے لیے بھی پوری امت کا اجماع ضروری نہیں؛ بلکہ اکثر لوگوں کا متفق ہونا کافی ہے ۔اسی لیے فقہاء نے قاعدہ بنایا ” لِلْأکْثَرِ حُکْمُ الْکُل “ (الفقہ الاسلامی وادلتہ۸/۲۶۲)
اپنی خوبی اور خامی سے قطعِ نظرحقیقت یہ ہے کہ جمہوریت انتہائی تیزی کے ساتھ پوری دنیا میں رواج پا چکی ہے اور اس کی مختلف شکلیں تقریبا دنیا بھر میں مروج ہیں،بعض اسلامی اصول سے نسبتاً ہم آہنگ ہیں اور بعض متصادم ۔ اس میں مختلف طرزِ حکومت کو سمو لینے کی گنجائش ہے ۔بعض اسلامی ممالک میں اسلامی جمہوریت کا بھی تجربہ کیا جارہا ہے۔ جمہوری حکومتوں کی بنیاد عوام کے ذریعہ منتخب ہونے والی حکومت پر ہوتی ہے؛ اس لیے الیکشن در حقیقت جمہوری ممالک کے لیے بہت ہی خاص موقع ہوتا ہے؛ چوں کہ الیکشن کے عمل کا سارا دار و مدار ووٹ پر ہوتا ہے؛ اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ووٹ کی شرعی حیثیت کیاہے؟
ووٹ کی شرعی حیثیت :
ووٹ (vote) انگریزی زبان کا لفظ ہے ۔اس کا عر بی متبادل انتخاب اور تصویت ہے۔ جب کہ اس کا اردو متبادل ہے : نمائندہ چننا ،حق رائے دہی کا استعمال کرنا ہے۔ جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ اسمبلی ،کونسل، بلدیہ یا اس جیسے اداروں کے لیے عوام کے ذریعہ نمائندہ چننے کا عمل ووٹ پر منحصر ہوتا ہے؛چوں یہ کہ اصطلاح مستحدث اور نئی ہے۔ حکومت سازی کے لیے انجام دیا جانے والا یہ عمل چوں کہ عہد سلف میں موجود نہیں تھا؛ اس لیے اس کا استعمال قرآن وحدیث میں نہیں ہواہے؛ لیکن معنوی اور اصولی طور پر اس کے لیے ذخیرۂ شریعت میں ہدایتیں موجود ہیں۔
شرعی نقطۂ نظر سے ووٹ کی متعدد حیثیتیں ہوسکتی ہیں ۔
(۱) شہادت: شہادت کا مفہوم ہے عینی مشاہدہ یا بصیرت کی بنیاد پر کسی چیزکے بر حق ہونے کی گواہی دینا ۔ قَوْلٌ صَادِرٌ عَنْ عِلْمٍ حَصَلَ بِمُشَاہَدَةِ بَصَرٍ أوْ بَصِیْرَةٍ (راغب،جرجانی) ایک لحاظ سے ووٹ کی حیثیت عرفی شہادت اور گواہی کی ہے؛ اس لیے کہ ووٹر ووٹنگ یا حق رائے دہی کے استعمال کے وقت یہ سمجھتا ہے کہ فلاں امیدوار اس عہدہ کے لائق ہے ؛ جس کے لیے اس نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے یا پارٹی کی طرف سے اسے امیدوار نام زد کیا گیا ہے۔ اور وہ پوری دیانت داری کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو انجام دے سکتا ہے، وہ اس بات کی گواہی دیتاہے کہ وہ امیدوار اس مقصد کے لیے موزوں اور ” قوی و امین “ ہے۔ چاہے وہ دوسرے کاموں کے لیے موزوں نہ ہو ۔
(۲) سفارش: ووٹ کی ایک حیثیت سفارش کی بھی ہے ۔گویا کہ ووٹر کسی متعین امیدوار کے سلسلہ میں مجاز اتھارٹی سے یہ سفارش کرتاہے کہ وہ ممبر پارلیمنٹ یا ممبر اسمبلی بننے کے لائق اور اہل ہے اور وہ اس عہدہ کی اور منصب کی ذمہ داریوں کو بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے؛ لہٰذا میں اس کے انتخاب کی سفارش کرتا ہوں۔ سفارش کے بارے میں قرآن کریم کا حکم یہ ہے: مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَکُنْ لَہ نَصِیْبٌ مِنْہَا وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَکُنْ لَہ کِفْلٌ مِنْہَا وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُقِیْتاً (النساء:۸۵) یعنی جو شخص اچھی بات کی سفارش کرے گا اس کے لیے اس کے اجر میں سے ایک حصہ ہوگا اور جو بری بات کی سفارش کرے گا اس کے لیے بھی اس کے گناہ کا کچھ بوجھ ہوگا اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والے ہیں۔
لہٰذا رائے دہندگان اگراچھے امیدوار کا انتخاب کریں گے تو یہ عمل ان کے لیے باعثِ اجر ہوگا اور اگر غلط امیدوار کا انتخاب کریں گے تو باعثِ مواخذہ ہوگا۔
(۳) وکالت: وکالت کا مفہوم ہے کسی مخصوص کام کے لیے کسی انسان کو اپنا نمائندہ اور نائب چننا۔ ووٹ کی ایک حیثیت وکالت کی بھی ہے۔گویا ووٹ دینے والا حقِ رائے دہی کا استعمال کرکے درحقیقت اس حلقہ کے کسی امیدوار کو سیاسی امور، کار ِحکومت کی انجام دہی، یا پارلیمنٹ کی تشکیل اور وزیر کے انتخاب کے لیے اپنا وکیل اور نمائندہ منتخب کرتا ہے؛ اس اعتبار سے اگر ووٹر نے سیاسی امور کی انجام دہی کے لیے کسی نا اہل امیدوار کو کامیاب بنا دیا اور جیتنے کے بعد اس شخص نے قوم و ملت کے حقوق کو پامال کیا اورظلم و زیادتی کو راہ دی؛ تو ووٹربھی اپنے رول کی حد تک اس کے گناہ میں شریک ہوں گے۔ اور اگر اچھے کام کیے؛ تو اس کی نیکیوں میں شریک ہوں گے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ووٹ کے اندر چاروں مفہوم ہونے کے باوجود اس پر شہادت کا مفہوم غالب ہے؛ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ووٹ کی شرعی حیثیت شہادت کی ہے ۔
ووٹ دینے کا شرعی حکم :
ہندوستان کے آئین نے یہاں کے ہر شہری کو ووٹ دینے اور امیدوار بننے اور دیگر انتخابی عمل میں شرکت کا حق دیا ہے۔ (بھارت کا آئین ص۸۰) اب مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان کے ایک شہری کی حیثیت سے انتخابی عمل میں شرکت کا کیا حکم ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ووٹ دینا اور دوسرے انتخابی عمل میں شرکت کرنے کا حکم حالات اور موقع ومحل کے لحاظ مختلف ہے ۔بعض حالات میں انتخابی عمل میں شرکت کرنا اور ووٹ ڈالنا محض جائز ہوتا ہے اور کبھی مستحب اور واجب ہوتا ہے۔ ہندوستان میں موجودہ حالات میں الیکشن میں شرکت کرنا واجب لغیرہ ہے۔ اور دنیا کے جن ممالک کے احوال ہندوستان سے مشابہ ہوں؛ ان ممالک میں بھی الیکشن میں شرکت کرنا واجب لغیرہ ہوگا۔ یعنی فی نفسہ ووٹ دینا واجب نہیں ہے؛ لیکن جن امور کا انجام دینا شریعت نے واجب قرار دیا ہے وہ ووٹ پر موقوف ہی ۔مشہور قاعدہ ہے: مَا لاَ یَتِمُّ الْوَاجِبُ الاَّ بِہ فَہُوَ وَاجِبٌ (الاشباہ والنظائر لابن نجیم ۹۱) یعنی واجب کی تکمیل جس چیز پر موقوف ہو وہ بھی واجب ہوتی ہے ۔
وجوب کے دلائل :
(۱) جیساکہ کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ ووٹ کی حیثیت شہادت کی ہے۔ شہادت ِحق شریعت کا ایک اہم حکم ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں شہادت اور اس کے مشتقات کا استعمال ایک سو ساٹھ سے زیادہ مقامات پر ہوا ہے۔ ان میں سے مقصد کے لحاظ سے واضح چند آیات کو ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَلاَ تَکْتُمُوا الشَّہَادَةَ وَمَنْ یَکْتُمْہَا فَانَّہ آثِمٌ قَلْبُہ (البقرہ ۲۸۳) اور گواہی کو مت چھپاؤ اور جس نے گواہی کو چھپا دیا تو یقیناً اس کا دل گنہ گار ہے ۔
اس آیت کے تحت امام قرطبی مالکی فرماتے ہیں کہ: اس آیت میں اللہ تعالی نے شہادت اور گواہی کے چھپانے سے منع فرمایا ہے ۔ متعدد قرائن سے اس ممانعت کو وجوب پر محمول کیا جائے گا۔ ان میں سے ایک قرینہ یہ ہے کہ اس پر گنہ گار ہونے کی وعید آئی ہے۔ انھوں نے بطور استدلال حضرت عبد اللہ بن عباس کا یہ قول پیش فرمایا ہے : عَلٰی الشَّاہِدِ أنْ یَشْہَدَ حَیْثُمَا اسْتُشْہِدَ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی۳/۴۱۵) یعنی گواہ کو جہاں گواہی کے لیے طلب کیا جائے؛ تو اس کے لیے گواہی دینا ضروری ہے ۔
امام طبری نے اس ضمن میں اس کی بھی وضاحت فرمائی کہ گواہی چھپانے کی ممانعت اس شکل میں ہے جب کسی حق کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو (تفسیر الطبری ۶/۹۹)
(۲) اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَلَا یَاْبَ الشُّھَدَاءُ اذَا مَا دُعُوا (البقرہ۲۸۲) اور گواہوں کو جب گواہی کے لیے مدعو کیا جائے تو چاہیے کہ وہ انکا ر نہ کریں۔ علامہ ابن عطیہ فرماتے ہیں کہ جب گواہ کو معلوم ہو کہ گواہی میں اس کی تاخیر کی وجہ سے کسی کا حق تلف ہوجائے گا تو اس پر گواہی کی ادائیگی لا زم ہے۔ (تفسیر ابن عطیہ ۲ /۵۱۳)
امام طبری نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ مذکورہ آیت میں امر استحباب کے لیے ہے؛ لیکن اخیر میں امام ِموصوف اس کی وضاحت بھی فرماتے ہیں ” کہ اگر انسان ایسی جگہ پر ہو؛ جہاں اس کے علاوہ شہادت کے لیے کوئی اور شخص دستیاب نہ ہو؛ تو اس اس کے لیے اداءِ شہادت فرض ہوگا “۔
ہندوستان کا پس منظر:
اس پس منظر میں اگر ہندوستان کی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے؛ تو معلوم ہوگا کہ یہاں حکومت کی بنیاد الیکشن پر ہے اور الیکشن میں فتحیاب افراد سے پارلیمنٹ کی تشکیل ہوتی ہے اور حکومت سازی وہ پارٹی کرتی ہے جسے معمولی اکثریت یعنی کم از کم نصف سے زائد کم از کم ایک ممبرکی تائید حاصل ہو۔ جس طرح امیدواروں کی جیت بسا اوقات چند ووٹوں کے فرق سے ہوتی ہے؛ اسی طرح حکومت کا بننا اور بگڑنا بھی محض ایک ووٹ سے ہوتا ہے۔ اور پارلیمنٹ میں محض ایک ووٹ کا فرق پوری حکومت کی فتح یا شکست کا ذریعہ بن جاتا ہے اور انجام کار کبھی ایسی نا پسندیدہ پارٹی یا افراد مسندِ اقتدار پر فائز ہوجاتے ہیں؛ جو مسلمانوں کے لیے سم ِقاتل کے مانند ہوتے ہیں۔ اور مناسب اور موزوں افراد مقابلہ میں پچھڑ جاتے ہیں۔واقعات گواہ ہیں کہ ہندستان میں متعصب پارٹیوں کی گورنمنٹ محض چند ووٹوں کے فرق سے تختہٴ اقتدار پر فائز ہوگئی اور اس نے ایسے فیصلے کیے جو آج بھی مسلمانوں کے لیے سوہان ِروح ہیں۔ اور یہ حکومت کبھی گیارہ دن میں اور کبھی گیارہ مہینے میں چند ووٹوں کے ذریعہ گربھی گئی۔ لہٰذا جمہوری ممالک میں الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے عمل کومحض مباح نہیں؛ بلکہ واجب سے کم درجہ نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ (۳) یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰی أنْفُسِکُمْ أوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْأقْرَبِیْنَ․ انْ یَکُنْ غَنِیًّا أوْ فَقِیْرًا فَا للّٰہُ أوْلٰی بِہِمَا فَلاَ تَتَّبِعُوا الْہَوَیٰ انْ تَعْدِلُوا وَانْ تَلْوُوْا أوْ تُعْرِضُوْا فَانَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا․(النساء ۱۳۵)
” اے ایمان والو!تم لوگ انصاف قائم کرنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بنو۔ اگرچہ اپنے والدین یا رشتہ داروں کے خلاف کیوں نہ ہو (جس کے خلاف گواہی دے رہے ہو) وہ مال دار ہو یا غریب؛ کیوں کہ اللہ ہی ان دونوں کا زیادہ خیر خواہ ہے؛ پس تم خواہش نفسانی کی پیروی مت کرو کہ انصاف سے ہٹ جاؤ اور اگر سخن سازی اور پہلوتہی کروگے تو اللہ تمہارے کاموں سے خوب باخبر ہیں “۔
اس آیت کریمہ میں ہر حال میں عدل و انصاف کو قائم کرنے اور صرف اللہ کے لیے گواہی کا حکم دیا گیا ہے اور اس بات پر متنبہ کیا گیا ہے کہ انسان کبھی بھی شہادت کے عمل کے دوران اپنے رشتہ دار اور دوست ودشمن میں تفریق نہ کرے؛ بلکہ عدل کو معیار بنائے۔ اور ان احکامات کی عدم پابندی کو کجروی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(۴) یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنْآنُ قَوْمٍ عَلٰی أنْ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ أقْرَبُ لِلتَّقْویٰ وَاتَّقُوا اللّٰہَ انَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (المائدة۸)
” اے ایمان والو!اللہ کا حق ادا کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنے رہو۔ کسی قوم کی دشمنی تم کو ناانصافی پر آمادہ نہ کرے یہی تقوی سے قریب تر ہے اوراللہ سے ڈرتے رہو یقینا وہ تمہارے اعمال سے باخبر ہیں۔“
امام طبری فرماتے ہیں کہ” یہ آیت کریمہ یہودیوں کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی؛ جب یہودیوں نے نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا نا پاک ارادہ کیا تھا! اس کے ذریعہ تمام اہلِ ایمان کو حکم دیا گیا کہ ان کے مجرم ہونے اور مسلمانوں کے سخت دشمن ہونے کے باوجود ان کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کیا جائے ۔“ اس سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ کہ الیکشن میں امیدوار اگر ان لوگوں میں سے ہو، جن سے ہماری ذاتی دشمنی چل رہی ہو؛ لیکن وہ ملک و قوم کے لیے زیادہ موزوں ہو، تو ایسے مواقع پر خاص طور پر عدل کے تقاضوں کو بروئے کار لانا اور اللہ سے ڈرنا ضروری ہے۔ جب بھی ووٹ دیا جائے تو اہل اور مناسب و موزوں امیدوار یا نسبتاً بہتر امیدوار کا انتخاب کیا جائے؛ اس لیے کہ غلط امیدوار کا انتخاب جھوٹی گواہی ہے اور جھوٹی گواہی گناہِ کبیرہ ہے۔
(۵) اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَاجْتَنِبُو ا قَوْلَ الزُّوْرِ (الحج ۳۰) اور تم جھوٹی باتوں سے بچتے رہو ۔
(۶) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :کیا میں تم کو اکبرُالکبائر (سب سے بڑے گناہ) کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ صحابہٴ کرام نے فرمایا کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ کے ساتھ شریک کرنا، والدین کی نا فرمانی کرنا ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھیک سے بیٹھ گئے؛ حالاں کہ آپ پہلے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور فرمایا سنو! جھوٹی گواہی دینا۔ اس آخری جملہ کو آپ برابر دہراتے رہے؛ یہاں تک کہ ہم لوگوں کو خیال ہوا کاش آپ خاموش ہوجاتے ! (بخاری، ماقیل فی شہادة الزور ۱/۳۶۲)
لہٰذا نا اہل کو ووٹ نہ دینا اور اچھے امیدواروں کو ووٹ دینا واجب ہے ۔
ووٹ دینا اضافہٴ قوت کی ایک شکل :
جمہوری ممالک میں افرادی قوت کی بڑی اہمیت ہے۔ اور اقلیتوں کے لیے ووٹ بہت بڑی طاقت ہے ،جس کے ذریعہ کوئی بھی قوم اقلیت میں ہونے کے باوجود بادشادنہیں؛ تو بادشاہ گر بننے کی صلاحیت ضرور رکھتی ہے۔ مسلمان بہت سے ممالک میں مضبوط اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور اپنے ووٹ کی قوت کے ذریعہ اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتے ہیں؛ لہٰذا ایسے حالات میں ووٹ سے کنارہ کشی اختیار کرنا در حقیقت اپنی سیاسی قوت کو کم زور کرنا ہے ۔
الیکشن میں اپنے آپ کو بہ حیثیت امیدوار پیش کرنے کا حکم :
الیکشن میں اپنے کو امیدوار کے طور پر پیش کرنا چند شرطوں کے ساتھ جائز ہے۔ اول یہ کہ کوئی دوسرآدمی عوامی نمائندہ بننے کے لیے دستیاب نہیں ہو۔ یا دستیاب تو ہو؛ لیکن وہ اس کام کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو۔ یا متعدد افراد امیدوار بننے کے لیے تیار ہیں؛ لیکن وہ افراداس عہدہ کے لیے غیرمناسب یا غیر موزوں ہیں اور اپنے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ اس کا م کے لیے فراہم افراد میں سب سے بہتر اور لائق ترین ہے اور وہ اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کو ادا کرکے ملک و قوم کی بہتر خدمت انجام دے سکتا ہے ۔ اور ان امور کو انجام دیتے وقت اسے اپنے عقیدہ اور ایمان کی حفاظت کا پورا یقین ہو ۔ اور اس کام کے لیے آمادگی کا سبب حبِّ مال اور حب جاہ نہ ہو؛ بلکہ خلق اللہ کی صحیح خدمت اور انصاف کے ساتھ ان کے حقوق کو ادا کرنا مقصود ہو ۔ تو ایسے افراد کے لیے اپنے آپ کو عہدہ کے لیے پیش کرنا صرف جائز ہی نہیں ؛ بلکہ بہتر ہوگا ۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ بیان کیا کہ خشک سالی اور اس کے بعد پیش آنے والے حالات سے نمٹنے اور لوگوں کو بھوک مری سے بچانے کے لیے انھوں نے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے فرمایا: قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰی خَزَائِنِ الْأرْضِ انِّي حَفِیْظٌ عَلِیْم (یوسف ۵۵) کہ ” یوسف علیہ السلام نے کہا کہ مجھے ملکی خزانوں پر مامور کردیجیے میں نگہبان ہوں اور خوب واقف کار بھی “۔
رہے وہ افراد جو ان اوصاف سے عاری ہوں؛ ان کے لیے عہدہ طلبی اور الیکشن میں امیدوار بننا جائز نہیں ہے ۔
علامہ ماوردی نے الاحکام السلطانیہ میں نقل کیاہے کہ بعض حضرات نے حضرت یوسف علیہ السلام کے مذکورہ عمل کی بنا پر کا فر اور ظالم حکم رانوں کا عہدہ قبول کرنا اس شرط کے ساتھ جائزرکھا ہے کہ خود اس کو کوئی کا م خلاف شرع نہ کرنا پڑے؛کیوں کہ انھوں نے اپنے زمانہ کے فرعون کے عہدہ کو قبول کیا تھا۔ اور بعض حضرات نے اس کو بھی جائز نہیں رکھا ہے؛ مگر جمہور علماء اور فقہاء نے جواز کے قول کو ہی اختیار فرمایا ہے۔ (الاحکام السلطانیہ ۱/۱۳۰ تفسیر قرطبی)
نظامِ طاغوت میں شرکت کا اعتراض:
اس ضمن میں بعض حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ الیکشن میں شرکت کا مطلب ہے لادینی نظام میں شرکت اور امیدواروں کے فسق اور بعض اوقات ان کے کفر سے راضی ہونا ۔ اور یہ شرعا ممنوع ہے؛ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ نظامِ باطل کے بعض اجزاء کا اختیار کرنا جو کسی مسلمان یا پوری مسلم قوم کے لیے نفع بخش ہوبالکلیہ ممنوع نہیں ہے، بلکہ بعض حالات میں اس کی اجازت ہے؛ بلکہ اگر کوئی مضبوط مسلم امیدوار نہ ہو تو غیر مسلم امیدوار کا انتخاب بھی صحیح ہوگا؛ جب کہ اس امیدوار یا پارٹی کے انتخاب سے اندرون ملک یا بیرون ملک مسلمانوں کے عمومی مصالح وابستہ ہوں کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرے گا یا ان کے حق کی آواز بلند کرے گا یا علی الاقل وہ ہمارے دشمنوں کی مدد نہیں کرے گا۔اور اگر اس حلقہ میں کوئی مضبوط مسلم امیدوار موجود ہو؛ تو اس کے حق میں ووٹ دینا لازمی ہوگا ۔ جہاں تک سرے سے ووٹ نہ دینے یا الیکشن سے بائیکاٹ کرنے کا نظریہ ہے؛ تو اس میں مسلمانوں کیے لیے کوئی مصلحت نہیں ہے؛ بلکہ بسا اوقاات انتخابی عمل سے مسلمانوں کے الگ تھلگ رہنے کی صورت میں بعض ایسے متعصب افراد کے منتخب ہونے کا امکان ہوتا ہے جوموقع ملنے پرمسلم دشمنی میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتے۔ جو یقیناً مسلمانوں کے لیے نقصان دِہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے مسلمانوں کے لیے جلبِ منفعت اور دفع مضرت اور حرج اور تنگی کو دور کرنا مقاصد دین میں سے ہے ۔
کیا دستور سے وفاداری کا حلف اٹھانا درست ہے ؟
پارلیمنٹ اور اس جیسے دوسرے اداروں میں حلف برداری کے وقت الگ الگ الفاظ اور الگ الگ جملوں کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور عام طور پر صدق دل سے یہ اقرار کرتا ہوں یا یہ عزم کرتا ہوں یا یہ عہد کرتا ہوجیسے جملے استعمال کیے جاتے ہیں اور اس میں اللہ کا نام نہیں لیا جاتا ہے۔ اور کبھی کبھار اللہ کا نام لیا بھی جاتا ہے۔کیا اللہ کے نام کے بغیر محض اقرار یا عزم کو شرعا حلف کہا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ چوں کہ اللہ کے نام یا اس کی صفات میں سے کسی ایک کا ذکر کرنا حلف اور قسم کے لیے رکن ہے؛ لہٰذ علماء کی ایک جماعت جن میں امام زفرؒ شامل ہیں، ایسے الفاظ کو شرعا قسم نہیں قرار دیتی اور اس پر قسم کے احکام بھی جاری نہیں کرتی ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ محض وعدہ ہے۔ قسم شرعی نہیں۔ (ہدایہ ۲/۴۸۰)
دوسرے حضرات جن میں ہمارے ائمہ ثلثہ شامل ہیں، اللہ کے نام یا صفات کے ذکر کو ضروری تو قرار دیتے ہیں؛ لیکن اگر کسی جملہ میں اللہ کا نام یا ان کی صفت لفظاً مذکور نہیں ہے تو وہاں وہ معنوی یا مجازی طور پراسے مذکور مان لیتے ہیں۔
لیکن جمہوری ممالک میں جہاں آزمائشوں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسلم ممبران پارلیمنٹ کے ان الفاط کو اس وقت تک قسم نہ قرار دیا جائے جب تک وہ صراحتاً اللہ کے نام یا صفات کیساتھ قسم نہ کھائیں۔محض اقرار یا عزم کے الفاظ کو وعدہ قرار دیا جائے۔ اور شریعت میں وعدہ کی پاس داری کے احکاما ت بھی دیئے گئے ہیں؛ مگرناجائز امور کے وعدہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے؛ لہٰذا دستور کے اس حصہ کے متعلق ان کا وعدہ واجب الوفا ہوگا جو شریعت سے متصادم نہیں ہے۔ اور اگر اللہ کے نام کے ساتھ قسم کھایا گیا ہے؛ توقسم تو منعقد ہوگی؛ مگر شریعت سے متصادم حصوں کے سلسلہ میں ان کا قسم قابلِ نفاذ نہ ہوگا؛ بلکہ ان کی ذمہ داری ہوگی کہ قسم کو توڑ کر اس کا کفارہ ادا کریں۔
سیکولر پارٹی میں شرکت اورر اس کا امیدوار بننا :
سیکولر پاٹی میں شمولیت اور اس کی طرف سے پارلیمنٹ، اسمبلی یا بلدیہ کے انتخابات میں ممبر بننے کی مشروط اجازت ہے۔ اور شرائط وہی ہیں؛ جن کا تفصیل کے ساتھ گزشتہ سطور میں تذکرہ ہوچکا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اپنے ایمان اور عقیدہ کے تحفظ کا یقین ہو۔محض نمائش مقصود نہ ہو؛ بلکہ قوم وملت اور ملک ووطن کی خدمت کا جذبہ ہو۔اگر ان کے اختیار میں ہو تو پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے مسلمانوں کے لیے الگ دفعات وضع کروائے جائیں۔ ممکن نہ ہو تو اس پارٹی میں تو شمولیت اختیار کی جائے اور اس کے اسلام مخالف دفعات سے براء ت ظاہر کی جائے اور ان میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے۔ پارٹی کی وفاداری سے زیادہ قوم کی وفاداری اس کو عزیز ہو۔ اور قوم کی خدمت کا جذبہ ہر جذبہ پر غالب ہو بہتر ہے کہ اس طرح کی سیکولر سیاسی پارٹیوں میں شرکت باضابطہ تحریری طور پر معاہدہ کے ذریعہ عمل میں آئے۔ جیساکہ میثاقِ مدینہ میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے اور آس پاس کے یہود اور مشرک قبائل سے معاہدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں صاحب تقوی اور بابصیرت اہل علم نے آزادی کے بعد سیکولر پارٹیوں میں شرکت بھی کی ہے خود ممبر بنے ہیں اور دوسروں کو بھی ممبر بنایا ہے اور ان پارٹیوں کی طرف سے الیکشن کے لیے امیدوار بھی بنتے رہے ہیں۔ اور پارلیمنٹ کے ممبر کے طور پر مسلم مسائل کو اٹھاتے رہے ہیں،مثلاً اسیرِ مالٹا شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، ملک کے پہلے وزیر تعلیم امام الہندمولانا ابوالکلام آزادؒ اور مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ (سابق ایم پی ) ، امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی ، (سابق ممبر اسمبلی بہار) فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنی ، (سابق ایم پی) مولاناسید احمد ہاشمیؒ (سابق ایم پی ) اور مولانا اسحق سنبھلیؒ سابق ایم پی ) وغیرہ، اس سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ حضرات علمی اور شرعی طور پر بھی اس عمل کو صحیح سمجھتے تھے۔ مولانا آزاد کی اس سلسلہ میں کئی معرکۃ الآراء تحریریں موجود ہیں ۔
مسلم دشمن پارٹیوں میں شرکت:
جو سیاسی پارٹیاں کھلے طور پر مسلم دشمن ہیں اور ان کے منشور میں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت ہے ۔کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کے ایسی پارٹی میں شامل ہو یا ان پارٹیوں کی طرف سے الیکشن کے موقعہ پر امیدوار بنے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: لاَ تَرْکُنُوا الٰی الَّذِیْنَ ظَلَمُوا فَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مشنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ أوْلِیَاءَ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْن (ھود ۱۱۳) یعنی اور ان لوگوں کی طرف مت جھکو جو ظالم ہیں ورنہ تمھیں بھی جہنم کی آگ پکڑلے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی کار ساز نہ ہوگا اور تمہاری مدد بھی نہیں کی جائے گی۔ اورسورۂ ممتحنہ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّکُمْ أوْلِیَاءَ (الممتحنہ۱ ) اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ!
مذکورہ آیات میں اسلام کے دشمنوں کے ساتھ دوستی قائم کرنے کو سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے؛ لہٰذا وہ سیاسی پارٹیاں جو اسلام اور مسلم دشمنی کو اپنا شعار بنائے ہوئی ہیں، منظم فسادات بھڑکا کر مسلمانوں کی جان مال اورعزت و آبرو سے کھلواڑ کرتی ہیں؛ ان کے مقدس مقامات کو تباہ کرتی ہیں اور اس پر خوش بھی ہوتی ہیں؛ ایسی پارٹیوں میں مسلمانوں کی شمولیت احکام الٰہی کی صریح خلاف ووزی ہے ۔
الیکشن اور خواتین :
بعض پیدائشی اور فطری اسباب کی بنیاد پر اللہ تعالی نے مردوں اور عورتوں کے درمیان تقسیم کار کا اصول قائم کیا ہے ۔اور اسی کے پیشِ نظر مردوں کو عورتوں پر قوّامیت عطا کی گئی ہے اور اسے شرم وحیا کا مجسم پیکر قرار دے کر ہر اس چیز کی ممانعت کی گئی ہے جو ان کی فطری حیا اور پیدائشی اوصاف سے متصادم ہو۔ باہر نکلنے، غیر محرموں کے سامنے جانے اورپردہ کرنے کے سلسلہ میں عورتوں کے خصوصی مسائل ہیں۔ ان کے بارے میں قرآنِ کریم اور احادیث شریفہ میں خاص احکامات بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عََٰی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْض (النساء۳۴) کہ مرد نگہبان ہیں عورتوں کے؛ اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔سورئہ احزاب میں اللہ کا ارشاد ہے: وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأوْلٰی (۳۳) اور تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور پچھلی جاہلیت کی طرح بناوٴ سنگار کرکے مت نکلا کرو۔ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ اہلِ فارس نے کسری کی بیٹی کو اپنا سربراہ بنا لیاہے؛ تو آپ نے فرمایا: لَنْ یَّفْلَحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أمْرَہُمْ امْرَأةً (بخاری رقم ۴۱۶۳) وہ قوم کبھی کام یا ب نہیں ہوسکتی جو کسی عورت کو اپنا سربراہ بنا لے ۔
ان نصوص کے پیش نظر علما ئے امت نے یہ مسئلہ اخذ کیا کہ عورت سربراہ مملکت نہیں بن سکتی؛ لیکن وہ پردہ اور دیگر شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے وہ تما م گھریلو اور سماجی امور انجام دے سکتی ہے ۔ جن امورمیں اجنبی مرد و عورت کے اختلاط کا امکان ہو ان امور کی ان کے لیے اجازت نہیں ہے ۔ عورت حدود و قصاص کے علاوہ دیگر معاملات کو فیصل کرنے کے لیے امام ابوحنیفہؒ کی رائے میں قاضی بھی بن سکتی ہے ۔ (المرأة بین الفقہ والقانون ۳۹) وہ پردہ میں رہ کر ووٹ بھی دے سکتی ہے اور حکومت کے اعلی امور میں مشورہ بھی دے سکتی ہے ۔
اگر خواتین کے لیے مردوں سے علاحدہ نشست کا انتظام ہو اور وہ مکمل پردے میں ایوان کی کاروائی اور دیگرسیاسی وسماجی سرگرمیوں میں شرکت کرسکیں ودیگر شرعی حدود کی رعایت کرسکیں تواس صورت میں ان کے لیے امیدوار بننا درست ہوگا اور اگر وہ ان حدودِ شرعیہ کی رعایت نہ کرسکیں؛ تو ان کے لیے سیاسی سرگرمیوں میں شرکت درست نہیں ہے۔ وَاللّٰہُ أعْلَمُ بِالصَّوَابِ․
اللّٰہُمَّ أرِنَا الْحَقَّ حَقًا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَہ وَأرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَأرْزُقْنَا اجْتِنَابَہ․
***