اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے

ڈاکٹر مفتی عبید اللہ قاسمی ، نیو دہلی

اب مسلم قوم کو جہاں ممکن ہوسکے وہاں اپنی سیاسی سیکولر قیادت کے بارے میں ایک انقلابی انگڑائی لینی ہوگی۔ بہت ممکن ہے کہ اس راہ میں اپنوں کی طرف سے مزاحمت بھی ہو، مخالف آوازیں اٹھیں، نادانی اور حماقت کہا جائے، مہلک و فرقہ وارانہ ذہنیت گردانا جائے اور کہا جائے کہ گزشتہ ستر سالوں کی طرح آگے بھی سر جھکائے ہمیشہ ان کو ووٹ دیتے چلے جاؤ جنہیں دیتے رہے ہو۔ مگر ان کی طرف سے یہ سب باتیں اس وجہ سے ہونگی کہ وہ اسی طرزِ فکر سے مانوس کردیے گئے ہیں، ان پر خوف کے آسیب مسلط کردیے گئے ہیں، ان کے دماغ کی CD ری رائٹیبل نہیں ہے، فکر کے سوتوں پر نام نہاد حکمت کی منوں مٹی ڈال دی گئی ہے، اس لیے وہ معذور ہیں، وہ شاید اسے ناممکن العمل اور سراب سمجھتے ہیں۔ انہیں قصور وار نہیں ٹھیرایا جاسکتا، ان پر ملامت نہیں بھیجی جاسکتی کیونکہ نیت ان کی غلط نہیں ہے۔ 

مگر جو لوگ سمجھ سکتے ہوں وہ سمجھ لیں کہ ملک کے اقتدار میں باعزت حصہ داری اور اپنے ووٹرز کے تناسب سے اپنی سیاسی نمائندگی کے فقدانِ پیہم سے ملت کے جسم کے سارے اعضاء چور چور ہوجائینگے اور سرِ راہ بیٹھے مقطوع الرِجلین بھکاری کی طرح محض سانس لیکر ملت زندہ سمجھی جاتی رہے گی۔ اگر اب بھی نہ جاگے، اب بھی اپنے رائے دہی کی قدر نہیں پہچانی، اب بھی ہیرے جیسے ووٹوں کو کوڑیاں سمجھ کر ریوڑیوں کی طرح کبھی اس کو اور کبھی اس کو تقسیم کرتے رہے ، اب بھی اپنا سیاسی خون ان کی رگوں میں چڑھاتے رہے جو تمھیں فقرو فاقہ اور ذلت کے دار پر چڑھاتے رہے اور دور سے تمھارے اوپر مظالم کو دیکھ کر یوں مسکراتے رہے اور تم سمجھتے رہے کہ وہ تمھاری تکلیف پر رورہے ہیں تو پھر یقین کرلو کہ اس زمین پر تم ایک بوجھ ہو اور اپنی نسلوں کو خود سے زیادہ ذلیل اور بے کس بنانا چاہتے ہو۔ آخر تمہیں یہ احساس کیوں نہیں ہورہا ہے کہ تمھارے اوپر مظالم کی انتہاء ہوچکی ہے، تمھارے نوجوان تعلیم اور روزگار سے محروم کردیے گئے ہیں، سچر کمیٹی رپورٹ نے تمھاری زبوں حالی، مفلسی، بے بسی کی کہانیاں دنیا کو بتادی ہے، مسجدیں خطرے میں ڈال دی گئی ہیں، عزت کی خاک اڑادی دی گئی ہے، جانوروں کے نام نہاد ذبیحہ کے بدلے تمھاری لنچنگ کردی گئی ہے۔ آخر سوچو تو سہی کہ یہ سلسلہ کب تک چاہتے ہو، مزید کتنا برداشت کرنا چاہتے ہو۔ صاف صاف سن لو کہ اگر ان مظالم سے نجات چاہتے ہو، انصاف اور مساوات چاہتے ہو، جمہوری حقوق چاہتے ہو، آئین کے مطابق اپنے ساتھ سلوک چاہتے ہو تو پھر اپنے ووٹروں سے اپنی قیادت تیار کرنی ہوگی تاکہ اپنی مظلوم قوم کو انصاف دلا سکو، مساوات قائم کراسکو۔ اس کے لئے جہاں جہاں تمھارے ووٹرز زیادہ ہیں وہاں وہاں اپنی قیادت کھڑی کرنے کی ہمت پیدا کرو اور جہاں تمھاری تعداد کثیر نہیں وہاں کثیر تعدادی سیکولر برادرانِ وطن کو مضبوط کرو۔ دیکھو تو سہی، آخر کیرالا میں اور کشمیر میں اقلیتی قیادت کیسے کامیاب ہے؟ کیا اس نمونہ پر آگے نہیں بڑھ سکتے ہو؟ 80 لوک سبھا سیٹ والے ملک کے اتنے بڑے صوبہِ یوپی سے ایک بھی تمھارا ایم پی نہیں، ایک بھی ایم پی نہیں، ایک بھی ایم پی نہیں۔ یہ کیا ہوگیا اور کیسے ہوگیا؟ سوچو۔ پھر سوچو، اور سوچو۔ اب اگر یہاں تم آٹھ دس سیٹوں پر اپنی قیادت کے لئے کھڑے ہوئے اور فرض کرو کہ خدانخواستہ ہرجگہ سے ناکام بھی ہوگئے تو کیا 80 میں صفر سے بھی زیادہ نقصان میں رہوگے؟ لہذا دانشمندی اسی میں ہے کہ اس طرزِ جمہوریت میں فائدہ اٹھاؤ، آئین نے جو تمھیں طاقت بخشی ہے اس کی قدر کرو، اور اپنی قیادت آسام میں، بنگال میں، اور ملک کے کچھ حلقوں میں پیدا کرو۔مشرق میں دیکھو، بوڑھے مدنی مرحوم مردِ سیاست کے مشورے سے دیوبند مدرسے کا ایک آسامی فرزند تنہا آگے بڑھا اور عزم کرلیا تو اب تک تین ایم پی بناچکا اور ڈیڑھ درجن ایم ایل اے، جن میں دو ایم پی مسلم اور ایک ہندو دلت ہے اور کون نہیں جانتا ہے کہ مسلم اور دلت دونوں اس ملک میں مظلوم ہیں۔ ادھر حیدراباد کو بھی دیکھو، مسلم قیادت کا ایک روشن ستارہ طلوع ہوا ہے کیا تم اس کے ایک امیدوار ستارہِ ایمان اختر الایمان کو بہار میں کشن گنج جیسی اپنی کثیر الآبادی سیٹ سے ووٹ دیکر اپنے بازوؤں کو مضبوط نہیں کرسکتے؟ اگر تم نے یہ انگڑائی لی، تبدیلی کی ٹھانی، کمر باندھی، حوصلوں کو ایڑ لگائی، اندیشوں کو الوداع کہا، حالات سے آنکھیں ملائیں، حسنِ تدبیر سے مزین ہوئے، خدا پر توکل کیا، اس سے رو رو کر دعائیں مانگیں تو ان شاء اللہ کامیابی تمھارا غلام بنے گی۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ تمھیں اپنے برادرانِ وطن سے نفرت کرنی ہے، ان سے انتقام لینا ہے، ان پر ظلم کرنا ہے بلکہ ان سے محبت کرنی ہے، وہ تمھارے ہی ہیں۔ البتہ تمھیں یہ کام اس لئے کرنا ہے کہ تم اپنے اوپر ہورہی نا انصافی اور ظلم سے بچو، خود کی تعلیمی، اقتصادی اور فکری پسماندگی کو دور کرسکو تاکہ ملک تمھاری برابر کی ترقی سے مکمل طور پر ترقی یافتہ بن سکے اور تم ملک کی خدمت کے لائق بن سکو۔ 

امید کہ یہ آواز صحتمند کانوں تک پہنچے گی، بیدار دلوں سے ہم آغوش ہوگی اور دماغوں میں چراغ روشن کرے گی۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں