بی جے پی کے جملے اور انتخابی منشور میں گمراہ کن وعدے 

 چودھری آفتاب احمد
 ملک میں پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلہ کی ووٹنگ ہو چکی ہے، ان کے ساتھ ہی کئی ریاستوں کی اسمبلیوں کے لئے بھی ووٹ ڈالے گئے ہیں، فی الحال ملک کے اقتدار میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی ہے، یہاں حکمرانی کا الفاظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ آئینی اداروں کو اس پارٹی نے یرغمال بنا لیا ہے،ہر کوئی مودی کی مالا جپ رہا ہے، مودی اس ملک کے وزیر اعظم ہیں، پہلے لوگ دیوی دیوتاؤں کے بھکت ہوا کرتے تھے، لیکن اب مودی بھکتوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے، بھکت وہی ہوتا ہے جو اندھوشواسی ہوتا ہے، یعنی آنکھیں بند کر کے یقین کرنے والا، حالانکہ یہ سب کو پتہ ہے، کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم اور رولنگ پارٹی نے 2014کے پارلیمانی انتخابات میں رائے دہندگان سے جو وعدے کئے تھے، وہ ہنوز پورے نہیں ہوئے ہیں، اور اب ان کے پورے ہونے کے امکان بھی معدوم ہو گئے ہیں ، لیکن ہم پھر ان کے اگلے وعدوں پر یقین کر رہے ہیں، کیونکہ ہم اندھوشواسی ہیں۔
 خود بی جے پی کے صدر امت شاہ نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے قبول کیا ہے،کہ ہم نے پچھلے انتخابات میں عوام سے جو وعدے کئے تھے، وہ محض جملے تھے، مودی بھکتوں کو معلوم ہے، کہ پچھلے انتخابات میں کئے گئے وعدے جھوٹے تھے، لیکن پھر بھی مودی کی بھکتی میں ایسے لین ہیں، کہ جھوٹ کو جھوٹ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں، یہ ہماری عوام کی کمزوری ہے، اسی کمزوری کو مودی اور اس کی چانکیہ ٹیم نے کیچ کیا ہے، یہ کچھ نہ کر کے بھی سب کچھ ہونا دکھا رہے ہیں، اور اوپر سے خود کو راشٹر وادی (قوم پرست ) بتا رہے ہیں۔
 بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں جو وعدے کئے ہیں، وہ ڈھلمل( گول مول) ہیں،کسی بھی وعدے کو یقینی طور پر نہیں کہا ہے، کہ ہم اسے صد فیصد پورا کریں گے،بی جے پی کے منشور میں کہیں بھی ایسا نظر نہیں آتا ، کہ یہ پارٹی انھیں پورا کرنے میں سنجیدہ ہے،رام مندر کے ہی معاملہ کو لے لیجئے، یہ ان کا سب سے اہم مدعا ہے، اہم اس لئے ہے، کہ انھوں نے رام مندر وعدے کرنے کے بعد بھی نہیں بنوایا، جبکہ رام مندر نے ان کی حکومتیں کئی بار بنوادیں، انھوں نے رام مندر کے معاملہ کو بھی کوشش پر چھوڑ دیا ہے، حالانکہ لوگ بھی سمجھ گئے ہیں، کہ بی جے پی اس مدعے کو زندہ رکھنا چاہتی ہے،تاکہ اس کے نام پر بھکتوں سے ووٹ کا سوال کر لیا جائے، بی جے پی کو رام مندر میں دلچسپی نہیں ہے، اس کی دلچسپی حکومت کرنے میں ہے۔
 مودی ایک دن میں کم سے کم تین جلسوں کو خطاب کر رہے ہیں، اور ہر جلسہ میں منھ بھر کر جھوٹ بول رہے ہیں، لیکن ہماری معصومیت دیکھئے، کہ ہم جھوٹ کو یقین میں بدل رہے ہیں، اور ہر ہر مودی گھر گھر مودی کر رہے ہیں، یہ ہماری بھکتی کی ہی لینتا ہے، کہ ہم بھکتی کے نشہ میں ڈوب کر اپنے ہوش و حواس ہی کھو بیٹھے ہیں، مودی کے آگے ہمیں اپنے وطن عزیز کی گنگا جمنی تہذیب کی بھی پرواہ نہیں رہی ہے،قوم پرستی کے جھوٹے بیانوں نے قوموں میں فاصلے پیدا کر دئے ہیں، اس سے دنیا بھر میں ملک کی شبیہ مجروح ہو رہی ہے۔
 پانچ سال پہلے بی جے پی کی کامیابی کے بعد مودی کے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں ایک نفرت کی لہر دوڑ پڑی تھی، مسلمانوں پر ظلم ستم کے پہاڑ توڑے گئے، انھیں لو جہاد کی آڑ لے کر ان کی بہو بیٹیوں پر نظر ڈالی گئی، انھیں گھر واپسی کے نام پر ہندوں بنانے کی کوشش کی گئی، انھیں بیف خور بتاکر ان کے ساتھ مآب لنچنگ کی گئی،کہیں داڑھی نوچی گئی کہیں داڈھی کاٹی گئی، کہیں منظم حملے کئے گئے، کہیں ذبیح پر پابندی لگائی گئی،غرضکہ اس قوم کا ہر طرف سے محاصرہ کیا گیا،ایسا کیوں ہو رہا تھا؟ یہ وہ سوال ہے، جس کا عام طور پر سب کو علم ہے، لیکن جو مودی کی بھکتی میں لین ہیں، انہیں بس اتنا علم ہے، کہ مسلمانوں کو اس ملک سے باہر نکالنا ہے، کیونکہ ایک ہزار سال تک حکومت کرنے کے بعد بھی وہ درانداز ہیں، اس ملک کے آبائی باشندے نہیں ہیں،ایسی سوچ بنائی گئی ہے اکثریتی فرقہ کی ،تاکہ ہندوں راشٹر کے نام پر ان اندھوشواسیوں سے ووٹ لے لی جائے، جو مودی کی بھکتی بھی لین ہیں، انھیں اس قوم کے لئے جذباتی کیا جائے، ابھی حال ہی میں برسراقتدار پارٹی کے صدر امت شاہ نے کہا ہے، کہ دوبارہ اقتدار میں آنے پر ہندوں، بودھ، جین اور سکھ کو چھوڑ کر باقی دراندازوں کو ملک سے باہر نکالیں گے۔
 بہت ہی حیرت میں ڈالنے اور افسوس کرنے والا بیان ہے، کہ ایک برسر اقتدار پارٹی کا صدر جسے ملک کی پوری قوم کا رہبر ہونا چاہئے تھا، ایسی بیان بازی کر کے اندھ بھکتوں کی وہ ووٹ تو لے لیں گے،لیکن ملک میں جو انارکی پھیلے گی، اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ یہ غیر ذمہ داری کے بیان کئی گھروں کو اجاڑ دیتے ہیں، اس سے ملک کے حالات کشیدہ ہو جاتے ہیں، اور دنیا میں ملک کی شبیہ پر داغ لگتا ہے، لیکن کیا انھیں احساس ہے؟ کہ ووٹ کی خاطر اس طرح کی بیان بازیوں سے نفرت کی کاشت پیدا ہوتی ہے، جسے اندھ بھکت کاٹتے ہیں، تو دور تک اجاڑ ہو جاتا ہے۔
 سوال پیدا ہوتا ہے، کہ بی جے پی نے مسلمانوں کو اس ملک سے باہر کرنے کا وعدہ پانچ سال قبل بھی کیا تھا، لیکن اپنے اقتدار کے دوران وہ ایسا کر نہیں سکی،کر اس لئے نہیں سکی ، کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا،اور بی جے پی ایسا کر بھی نہیں سکتی تھی،سوائے مسلمانوں کو پریشان اور زدوکوب کرنے کے علاوہ، مسلمانوں کی پریشانی اور زدوکوبی میں بی جے پی کی کامیابی جو مضمر ہے۔
 پانچ سال بعد وہی انتخابی سیزن میں پھر مسلمانوں کو نشانہ پر لیا جا رہا ہے،اور کئی مسلم رہنماؤں کو محض اس لئے پریشان کیا جا رہا ہے،تاکہ اکثریت کی ووٹ انھیں مل جائے،ان میں کچھ تو مودی بھکت ہیں، جو کسی بھی صورت بی جے پی کو جانے ہی ہیں،اور اکثریت کے کچھ ووٹ ایسی سوچ کے بھی ہیں،جو مسلمانوں سے فطرتاً دوری بناکر رکھتے ہیں، انھیں امید ہے،کہ مودی مسلمانوں کو ایک نہ ایک دن اس ملک سے باہر نکال کر ہی رہے گا، امید اس لئے ہے، کہ گجرات میں مودی کے اقتدار میں مسلمانوں کے ساتھ قتل عام ہوا تھا،اس لئے مسلم محالفین مودی سے یہ امید رکھتے ہیں، کہ ملک میں وہی ایک ایسا لیڈر ہے، جو مسلمانوں کو ملک سے نکال کر اسے ہندوں راشٹر بنا سکتا ہے، ہندوں راشٹر بنا نے کا بی جے پی بار بار اشارہ دیتی ہے، یہی اشارے شدت پسندوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہمارا ملک ایک دن ہندوں راشٹر بنے گا۔
 حال ہی میں جو بی جے پی صدر امت شاہ کا بیان آیا ہے، کہ دراندازوں کو اس ملک سے باہر نکالیں گے، کیرل کرشچین فورم نے سحت نوٹس لیتے ہوئے اعتراض جتایا ہے، اور مانگ کی ہے، کہ امت شاہ اپنے اس بیان پر معافی مانگیں، کیونکہ ان کے اس بیان سے اقلیتی فرقہ کی تزلیل ہوئی ہے، بہرحا ل بی جے پی کچھ بھی حربے کھیل لے، کوئی بھی کارڈ چل لے، عوام کی اکثریت سمجھ گئی ہے، کہ حکومت کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے، 23مئی کو نتیجے آجائیں گے،اب نہیں تو تب پتہ چل جائے گا،کہ عوام نے ملک کا اقتدار کس منصف کے ہاتھ میں سونپا ہے۔
(مضمون نگار کانگریس کے سینئر لیڈر اور ہریانہ کے سابق وزیر ہیں)