سہیل انجم
اگر بی جے پی نے پرگیہ کے بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہوتا، یا کوئی کارروائی کی ہوتی یا اس کو امیدواری سے ہٹایا ہوتا تب یہ بات سمجھ میں آتی کہ وہ شہیدوں کا احترام کرتی ہے۔ لیکن اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔
لیجیے جناب بی جے پی کی بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ اس نے مالیگاؤں بم دھماکوں کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بھوپال سے اپناامیدوار بنایا اور پورے ملک میں دھماکہ ہو گیا۔ لیکن شاید اس خبر نے اتنا دھماکہ نہیں کیا تھا جتنا پرگیہ کے بیان نے کر دیا۔ اس نے مہاراشٹر اے ٹی ایس کے چیف آنجہانی ہیمنت کرکرے کے بارے جو نازیبا بیان بازی کی اور پھر جس طرح بی جے پی نے پرگیہ کا دفاع کیا اس نے بی جے پی کے اصل چہرے کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا۔
حالانکہ بی جے پی نے اس کے بیان سے خود کو الگ رکھ کر اس کی سنگینی کو ہلکا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن بی جے پی لیڈروں کی ہر کوشش اس سنگینی کو اور بڑھا گئی۔ بالآخر جب بی جے پی نے دیکھا کہ معاملہ ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے تو پرگیہ سے بیان دلوایا گیا جس میں اس نے یہ کہہ کر اپنا بیان واپس لینے کا اعلا ن کیا کہ وہ نہیں چاہتی کہ اس کے بیان سے اس کے دشمنوں کو خوشی ہو۔ اب اس نے یہ واضح نہیں کیا کہ دشمن کون ہے۔ سیاسی دشمنوں کی طرف اشارہ ہے یا ملکی دشمنوں کی طرف۔ بہر حال اس نے بادل ناخواستہ معافی بھی مانگ لی۔
لیکن تب تک دریائے گنگا و جمنا سے بہت سارا پانی بہہ گیا۔ پرگیہ نے عدم صحت کی بنیاد پر جیل سے باہر آنے کے بعد یہ نہیں سوچا ہوگا کہ اس کی قسمت ایسے پلٹنے والی ہے۔ انتخابات میں بی جے پی کی ابتر صورت حال نے اس کی قسمت کا تالہ کھول دیا۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ بلی کی قسمت سے چھینکا ٹوٹتا ہے۔ لیکن ابھی تالا پوری طرح کھلا بھی نہیں تھا کہ اس نے اچھلنا کودنا شروع کر دیا اور یہ سمجھ کر کہ وہ اب تو ایک نیتا ہو گئی ہے ایسا بیان دے دیا جس نے اس کی قسمت کے تالے کو پھر بند کر دیا۔
اب تک بی جے پی کو جو نقصان ہوا وہ کیا کم تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس کے دفاع میں کود پڑے۔ انھوں نے اسے امیدوار بنائے جانے کی حمایت کرتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ کانگریس کو ایک علامتی جواب ہے۔ کانگریس کو کیوں؟ اس لیے کہ ان کے مطابق کانگریس نے ہندو دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کرکے ہندووں کی ہزاروں برسوں کی تہذیب کو داغ لگا دیا۔ وہ پرگیہ کی ضمانت اور سوامی اسیمانند کی رہائی کو ہندووں کے حق میں فیصلہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ان کے مطابق کانگریس نے ہندو دہشت گردی کا الزام لگایا تھا مگر عدالت نے اس الزام کو دھو دیا۔
لیکن وہ یا ان کی پارٹی کا کوئی لیڈر یہ نہیں بتاتا کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ معاملے میں جج صاحب نے ملزموں کو رہا کرنے کے بارے میں کیا کہا ہے۔ انھوں نے بڑی دلسوزی کے ساتھ کہا تھا کہ وہ انتہائی رنج و غم کے ساتھ یہ فیصلہ لکھ رہے ہیں اور انھیں اس کا بہت افسوس ہے کہ ایسی سنگین دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے بغیر سزا کے چھوٹے جا رہے ہیں۔ لیکن نہ تو مودی اور نہ ہی ان کا کوئی ساتھی جج صاحب کے اس درد کو بیان کرتا ہے۔
خیر میں عرض کر رہا تھا کہ پرگیہ کے بیان سے بی جے پی کو کیا کم نقصان ہوا تھا کہ مودی بھی کود پڑے۔ مودی جی نے یہ سمجھا ہوگا کہ وہ اس بیان سے اب تک ہونے والے نقصان کی تلافی کر دیں گے۔ لیکن انھیں شاید اس کا احساس نہیں ہے کہ انھوں نے اس نقصان کو اور بڑھا دیا اس میں اور اضافہ کر دیا۔ لیکن جب ’’بدھی بھرشٹ ‘‘ ہوتی ہے تو ایسے ہی فیصلے کیے جاتے ہیں۔
یہاں یہ ذکر بھی برمحل ہوگا کہ پرگیہ کو بیماری کی وجہ سے ضمانت ملی ہے نہ کہ جرم کی کمی کی وجہ سے۔ اس نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ وہ اتنی بیمار ہے کہ چل پھر نہیں سکتی۔ اس کے جسم کا نچلا حصہ لقوہ زدہ ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا عدالت نے رحم کھا کر ضمات دے دی۔ لیکن اب وہی بیمار سادھوی دندناتی پھر رہی ہے اور اس شدید گرمی میں الیکشن لڑنے جا رہی ہے۔ یعنی اب وہ بیمار نہیں ہے۔
بی جے پی خود کو جوانوں کا بڑا ہمدرد بتانے اور جتانے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی لیے اس نے آپریشن بالاکوٹ کے حوالے سے فوج کے کندھے پر بندوق رکھ دی اور دنادن کرنے لگی۔ وہ یہ جتانے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ فوجی جوانوں، ان کی شہادتوں اور پولس کی بہادری کی بڑی قدر کرتی ہے۔ لیکن پرگیہ ٹھاکر نے ہیمنت کرکرے کے خلاف اپنے بیان سے اور بی جے پی نے اس بیان کے دفاع سے یہ بتا دیا کہ وہ فوجی جوانوں اور پولس کے بہادروں کی کتنی خیر خواہ ہے۔
کیا آج تک کسی نے دہشت گردوں سے لڑتے لڑتے شہید ہو جانے والے کسی فوجی یا پولس افسر کو دیش دروہی کہا، اسے اَدھرمِی یعنی غیر مذہبی یا مذہب دشمن کہا۔ کسی نے نہیں۔ یہاں تک کہ مذہب میں یقین نہ رکھنے والے کمیونسٹوں نے بھی نہیں کہا۔ لیکن کہا کس نے بی جے پی کے ایک نمائندے نے۔ اور وہ بھی ایک سادھوی نے۔ اگر چہ وہ صرف نام کی سادھوی ہے۔ لیکن خود کو سادھوی ہی کہلاتی ہے۔ اگر وہ حقیقی سادھوی ہوتی تو جیو ہتیا کو پاپ سمجھتی۔ چہ جائیکہ کہ مالیگاؤں میں بم دھماکہ کرکے متعدد انسانوں کو ہلاک کروا دینا۔ خیال رہے کہ مالیگاؤں بم دھماکہ کی جگہ سے پرگیہ کی موٹر سائیکل ملی تھی اور اس نے فون پر بات کرتے ہوئے اپنے لوگوں سے چند افراد کی ہلاکت پر اظہار افسوس کیا تھا اور کہا تھا کہ اور لوگ مرنے چاہیے تھے۔
یاد رہے کہ پرگیہ ٹھاکر پر اب بھی ایک سخت قانون یو اے پی اے نافذ ہے۔ اگر چہ مہاراشٹر کے مکوکا قانون سے اسے بری کر دیا گیا ہے لیکن یو اے پی اے قانون کے تحت الزامات اب بھی نافذ ہیں۔ اور اگر مکوکا ہٹ گیا تو کیوں ہٹا۔ ذرا یاد کیجیے سابق ایڈیشنل سولیسیٹر جنرل روہنی سالیان کا وہ بیان جس میں انھوں نے کہا تھا کہ این ڈی اے حکومت کا ان پر زبردست دباؤ ہے کہ وہ مالیگاؤں کیس میں تیزی نہ دکھائیں اور معاملے کو ہلکا کر دیں۔
لہٰذا این آئی اے کورٹ نے اگر مکوکا ہٹا دیا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ این آئی اے کا کردار کیسا ہے اس کو سمجھوتہ ایکسپریس معاملے میں دیکھ لیجیے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے خود جج صاحب کہہ رہے ہیں۔ انھوں نے اظہار افسوس کیا کہ این آئی اے نے وہ اہم ثبوت پیش ہی نہیں کیے جس کی بنیاد پر ملزموں کو سزا ہو سکتی تھی۔
اگر بی جے پی نے پرگیہ کے بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہوتا، اس کے خلاف کوئی کارروائی کی ہوتی یا اس کو امیدواری سے ہٹا لیا ہوتا تب یہ بات سمجھ میں آجاتی کہ ہاں بی جے پی شہیدوں کا بڑا احترام کرتی ہے۔ لیکن اس نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ بلکہ اس کے برعکس سادھوی کی حمایت ہی کی۔ ایسے میں اس کا یہ دعویٰ کہ وہ فوجی جوانوں کا بہت احترام کرتی ہے اور شہیدوں کا سمّان کرتی ہے بالکل جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔