مدارس کے نظام تعلیم پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ایسے مذہبی اداروں میں سارا دن بچوں کو قرآن زبانی یاد کرانے کی تعلیم دی جاتی ہے لیکن ایسے بچے جدید دنیا میں روزگار کے مواقع تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
اسلام آباد(ایم این این )
پاکستان ملک کے تیس ہزار مدارس کے نیٹ ورک کو ریاستی کنٹرول میں لانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق اس کا مقصد مدارس کی تعلیم کو جدید اور ان مذہبی اداروں کو ’مرکزی دھارے‘ کا حصہ بنانا ہے۔
پاکستان میں مدارس کے تعلیمی نظام کو جدید بنانے اور انہیں حکومتی کنٹرول میں لانے کا مسئلہ انتہائی حساس قرار دیا جاتا ہے۔ ناقدین کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان مدارس میں بچوں کو انتہاپسندی کی تعلیم دی جاتی ہے لیکن دوسری طرف ملک کے لاکھوں غریب بچوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا یہ واحد راستہ ہے۔
پاکستان کی نئی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر بھی شدید دباو¿ کا سامنا ہے۔ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں موجود عسکری گروہ ہمسایہ ممالک افغانستان اور بھارت میں ہونے والے حملوں میں ملوث ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے نئے وزیراعظم عمران خان نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ ملک میں ایسے عسکری گروپوں کو برداشت نہیں کریں گے، جو پاکستانی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔
مدارس کے نظام تعلیم پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ایسے مذہبی اداروں میں سارا دن بچوں کو قرآن زبانی یاد کرانے کی تعلیم دی جاتی ہے لیکن ایسے بچے جدید دنیا میں روزگار کے مواقع تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
انتیس اپریل کو پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”حکومت پاکستان نے مدارس کو مرکزی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔“ آصف غفور کا مزید کہنا تھا، ”اسلامی تعلیم کا سلسلہ جاری رہے گا لیکن نفرت انگیز مواد نہیں ہوگا۔“ ان کا کہنا تھا کہ ان مدارس کو وزارت تعلیم کے تحت لایا جائے گا اور سلیبس میں کئی نئے مضامین بھی شامل کیے جائیں گے۔
آصف غفور کا کہنا تھا کہ ان مدارس کے لیے رقوم انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے مختص فنڈز سے مہیا کی جائیں گی کیوں کہ گزشتہ چند برسوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں کمی آئی ہے اور اب ایسے آپریشنز کی زیادہ ضرورت نہیں رہی۔
گزشتہ ماہ بھارت نے بھی اپنے ملک میں ہونے والے ایک حملے کا الزام پاکستان کی تنظیم جیش محمد پر عائد کیا تھا۔ جس کے بعد حکومت پاکستان نے اس تنظیم سے وابستہ ایک سو بیاسی مذہبی اسکولوں کو اپنے کنٹرول میں لیتے ہوئے ایک سو سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔
آصف غفور کا مزید کہنا تھا، ”اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جب بچے بڑے ہو کر ان اداروں سے نکلیں گے تو ان کے لیے ویسے ہی مواقع دستیاب ہوں گے، جیسے نجی اسکولوں سے پڑھ کر نکلنے والے بچوں کے لیے ہوتے ہیں۔“ انہوں نے مزید بتایا، ”ہم پاکستان میں پرتشدد انتہاپسندی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور یہ اسی صورت میں ہو گا، جب بچوں کا نظام تعلیم یکساں ہوگا اور انہیں یکساں مواقع ملیں گے۔“
ان کا کہنا تھا سلیبس، اساتذہ کی تقرری اور فنڈز کی فراہمی کو حتمی شکل دینے کے بعد مدرسہ اصلاحات جلد ہی پارلیمان میں پیش کی جائیں گی۔