سہیل انجم
امت شاہ مسلمانوں کو درانداز اور دیمک قرار دیتے ہیں اور ہندوؤں کو دور رہنے کی اپیل کرتے ہیں۔ یعنی بی جے پی مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتی ہہیں اور عملاً بنا بھی دینا چاہتی ہے۔
2014 کے پارلیمانی انتخابات کے دوران مسلم ووٹوں کو غیر اہم بنانے کی جو سازش نریندر مودی اور امت شاہ نے شروع کی تھی وہ اب بھی جاری ہے۔ حالانکہ گزشتہ الیکشن میں وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب ہو گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی بار مسلم ووٹ اثر انداز نہیں ہو سکے تھے اور پہلی بار سب سے کم مسلم ممبران منتخب ہو کر لوک سبھا میں پہنچے تھے۔ لیکن جب اس بار یہ محسوس ہونے لگا کہ مسلم ووٹ متعدد سیٹوں پر فیصلہ کن رول ادا کر سکتے ہیں تو مذکورہ سازش کا دائرہ وسیع کر دیا گیا اور نہ صرف انتخابی موسم میں بلکہ عام دنوں میں بھی مسلمانوں کو غیر اہم بنانے کا سلسلہ تیز ہو گیا۔
اس مہم کی قیادت خود وزیر اعظم نریندر مودی کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے اصل سیاسی حریف کانگریس کے صدر راہل گاندھی کو جب دیکھا کہ وہ کیرالہ کے وائناڈ سے بھی پرچہ داخل کر چکے ہیں تو انھیں مسلمانوں کو سیاسی اچھوت بنانے کا سنہری موقع مل گیا۔ انھوں نے ایک تیر سے دو نشانے لگائے۔ راہل گاندھی کو برا بھلا کہا اور مسلمانوں کو بھی۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ تین نشانے لگائے گئے۔ یعنی ہندوؤں کو راہل کے خلاف ورغلانے کی کوشش کی گئی۔
انھوں نے یہ کہتے ہوئے کہ راہل گاندھی ہندوؤں کے انتقام سے ڈر گئے ہیں لہٰذا وائناڈ بھاگ گئے ہیں، ہندوؤں کو راہل کا دشمن بنانا چاہا۔ وائناڈ کے بارے میں انھوں نے کہا کہ وہاں اکثریت اقلیت میں ہے۔ یعنی ہندو اقلیت میں ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں ہندو 48 فیصد سے زائد ہیں۔ باقی مسلمان اور عیسائی ہیں۔ لیکن انھوں نے یہ گمراہ کن بات کہہ کر کہ وہاں اکثریت اقلیت میں ہے ایک تو ہندوؤں کے دل میں راہل گاندھی کے خلاف نفرت ڈالنے کی کوشش کی اور دوسرے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندوؤں کے بالمقابل کھڑا کر دیا۔ اسی کے ساتھ انھوں نے کانگریس کو ہندو مخالف اور اقلیت حامی پارٹی ثابت کرنے کی بھی کوشش کی۔
اس بیان میں ایک بہت خطرناک پہلو بھی پوشیدہ ہے۔ یعنی راہل گاندھی اگر جیتیں گے تو ہندوؤں کے ووٹ سے نہیں بلکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے ووٹ سے جیتیں گے۔ گویا وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوسرے درجے کا ووٹر اور ہندوؤں کو اول درجے کا ووٹر ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔ جبکہ ہندوستان کے پارلیمانی نظام میں ہر شخص کا ووٹ برابر ہے۔ کوئی امبانی اور اڈانی ہو یا کوئی رکشہ چلانے والا یا کھیت میں مزدوری کرنے والا۔
اسی طرح ایک اونچی ذات کے فرد کے ووٹ کی جو اہمیت ہے وہی اہمیت ایک نچلی ذات کے شہری کی بھی ہے۔ جو وزن ایک مذہب کے پیروکار کے ووٹ کا ہے وہی وزن دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کا بھی ہے۔ لیکن مودی یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہندوؤں کے ووٹ کی اہمیت مسلمانوں اور عیسائیوں کے ووٹوں سے کہیں زیادہ ہے۔
بات یہیں نہیں رکتی ہے بلکہ بی جے پی صدر امت شاہ اسے اور آگے لے جاتے ہیں۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ این آر سی یعنی نیشنل رجسٹر سٹیزنس کو پورے ملک میں لے جائیں گے۔ ابھی اسے آسام میں نافذ کیا گیا ہے اور چالیس لاکھ شہریوں کو بے وطن بنا دیا گیا ہے۔ وہ کسی بھی ملک کے شہری نہیں رہ گئے ہیں۔ امت شاہ نے ان لوگوں کو دیمک قرار دیا اور کہا کہ یہ لوگ پورے ملک کو چاٹ جائیں گے۔ لہٰذا اسے ملک کے دوسرے حصوں میں بھی نافذ کیا جائے گا۔ گویا دوسری ریاستوں کے وہ مسلمان جو شہریت کا ثبوت نہیں دے سکیں گے یا جن کے نام این آر سی میں شامل نہیں ہو پائیں گے وہ غیر ملکی ہو جائیں گے۔
بی جے پی حکومت نے دوسرے ملکوں سے آنے والے ہندوؤں، سکھوں اور بودھوں کو شہریت تفویض کرنے کا قانون تو بنایا لیکن مسلم اور عیسائی پناہ گزینوں کو شہریت سے الگ رکھ کر ان دونوں فرقوں کو غیر ملکی قرار دینے کی کوشش کی۔ امت شاہ مسلمانوں کو درانداز اور دیمک قرار دیتے ہیں اور ہندوؤں سے ان سے دور رہنے کی اپیل کرتے ہیں۔ یہ قدم مسلمانوں کو عام دنوں میں بھی بے وزن بنا دینے کی ایک سازش ہے اور کچھ نہیں۔ یعنی بی جے پی مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتی ہے اور وہی عملاً بنا بھی دینا چاہتی ہے۔
یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اس نفرت انگیز مہم کو اور آگے تک لے جاتے ہیں اور مسلمانوں کو ’’ہرا وائرس‘‘ قرار دیتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ’’ان‘‘ کے علی اور ’’ہمارے‘‘ بجرنگ بلی کہہ کر وہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین ایک خلیج قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس خلیج کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ہندو مسلمانوں سے برتر ہیں۔ انھوں نے پہلے ہی ایک ہندو سینا بنا رکھی ہے۔ اس ملک کی سینا کی موجودگی میں ایک مذہب کی سینا قائم کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے، بہت واضح ہے۔
2014 میں جو مہم شروع کی گئی تھی وہ گزشتہ پانچ برسوں میں بڑی شد و مد کے ساتھ جاری رہی ہے۔ نفرت انگیز تقریریں اور مذہبی شناخت کی بنیاد پر مسلمانوں پر حملے اسی لیے کروائے جا رہے تھے تاکہ الیکشن تک ایک ماحول بنا رہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یو پی اے حکومت کے مقابلے میں این ڈی اے حکومت میں نفرت انگیز تقریروں میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے اور قابل غور بات یہ ہے کہ 88 فیصد نفرت انگیز تقریریں بی جے پی لیڈروں کے ذریعے کی گئی ہیں۔ 2010 سے 2017 کے درمیان گائے سے متعلق تشدد مودی حکومت میں 97 فیصد ہوا۔ ان تشدد آمیز وارداتوں میں 86 فیصد مسلمان مارے گئے۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہندوتوا وادی ملزموں کو رہا کرانے کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ سب سے پہلے یعنی مودی حکومت آتے ہی گجرات حکومت کی سابق وزیر مایا کودنانی کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ حالانکہ وہ 2002 کے گجرات فسادات میں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو بھڑکانے اور مسلمانوں کی ہلاکت کی مجرم ثابت ہو چکی ہیں۔ اسی طرح امت شاہ بھی قتل کے الزام سے بری ہو گئے۔ جسٹس لویا کی مشکوک موت کا معاملہ بھی ٹھنڈا ہو گیا۔
ادھر مکہ مسجد بم دھماکوں کے ملزموں کو رہا کیا گیا۔ اس کے بعد سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ معاملے کے ملزم بھی چھوٹ گئے۔ اور اب تازہ بہ تازہ معاملہ مالیگاؤں بم دھماکوں کی ملزم سادھوی پرگیہ کو ضمانت ملنا اور پھر بی جے پی کی جانب سے الیکشن لڑوانا ہے۔ گویا مودی حکومت ہندوستان کو کسی بھی طرح ایک خاص مکتب فکر کے ہندوؤں کے لیے بنانا چاہتی ہے۔ جو ہندو ان کی اس سازش کا حصہ نہیں بننا چاہتے ان کو ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔