عاقل زیاد، دہلی
ان دنوں قومی میڈیا میں سادھوی ساکشی کے اس بیان پر کافی ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے کہ حال ہی میں اس نے حسب معمول مسلمانوں کے خلاف ایک اور نیا بیان دیا ہے کہ’’ بھارت کو مسلم مکت‘‘ بنانا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ سنگھ پریوار ہندوستان کو ہندوؤں کا استھان کہتا رہا ہے اور وشو ہندو پریشد و بجرنگ دل کے اراکین تو کھلے عام ملک کے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہی رہے ہیں۔ بالخصوص پروین توگڑیا تو ذرائع ابلاغ میں ہزاروں بار یہ اعلان کرچکے ہیں کہ اس ملک میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ توگڑیا نے ایک مہم چلا رکھا ہے کہ مسلمانوں کو بڑے شہروں میں ہندو طبقہ کرائے کا مکان تک نہیں دے۔ اس کی وجہ سے اس طرح کی خبریں ممبئی، چنئی، احمدآباد وغیرہ سے آتی رہی ہیں کہ ان شہروں میں مسلمانوں کو کرائے کا مکان حاصل کرنے میں کتنی پریشانیاں ہورہی ہیں۔ دراصل ملک میں یہ ذہنیت اچانک نہیں بنی ہے بلکہ تقریباً دو دہائی سے ملک میں مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کرنے کی شازشیں ہو رہی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کہیں اس کا مظاہرہ اعلانیہ ہوتا ہے اور کہیں پوشیدہ طور پر سنگھ پریوار کے نظریے کو عملی صورت دی جارہی ہے۔ بہار کی ایک معروف یونیورسٹی، للت نارائن متھلا یونیورسٹی، دربھنگہ میں بھی سنگھ پوریوار کے نظریے یعنی ’مسلم مکت‘ یونیورسٹی بنانے کی مہم چل رہی ہے۔ دراصل دو سال قبل یہاں بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ساکیت کشواہا کو وائس چانسلر بنایا گیا۔ اگرچہ انہوں نے جس دن یونیورسٹی میں اپنا عہدہ سنبھالا اسی دن سے وہ متنازع شخصیت بن گئے، کیوں کہ ان کی تقرری پر ہی یہ سوال اٹھنے لگا کہ وہ وائس چانسلر کے عہدے کے قابل نہیں ہیں۔ کیوں کہ یو جی سی نے وائس چانسلر شپ کے لئے دس سال پروفیسر کے عہدے پر کام کرنے کا تجربہ لازمی قرار دیا ہے لیکن ان کے پاس وہ اہلیت نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے اس فرضی اہلیتی اسناد کے خلاف پٹنہ ہائی کورٹ میں مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ مگر ہمارے یہاں عدلیہ نظام کس قدر سست گام ہے اس کا اندازہ تو سب کو ہے کہ دو سال سے ان کی فرضی اہلیت کا معاملہ کورٹ میں ایک بینچ سے دوسرے بینچ میں زیر التوا ہے۔ واضح ہو کہ بہار میں وائس چانسلر شپ کی مدت کار تین سال ہی ہے، غرض کہ جب تک عدلیہ کا فیصلہ آئے گا وہ اپنی مدت کار پوری کرچکے ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پروفیسر ساکیت کشواہا ہندوستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں کبھی لکچرر اور ریڈر نہیں ہوئے بلکہ نائجیریا کی کسی نجی یونیورسٹی کے تجربے کی سند کی بنیاد پر سیدھے بنارس ہندو یونیورسٹی میں بطور پروفیسر بحال ہوگئے۔
بہرکیف، وہ گزشتہ ڈھائی سال سے للت نارائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں اور وہ کس قدر سیاسی رسوخ والے ہیں اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی بدعنوانی کے خلاف ہزاروں عرض داشتیں گورنر بہار اور وزیر اعلی بہار کو دی جاچکی ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے یونیورسٹی کو نہ صرف بدعنوانیوں کی آماجگاہ بنا رکھا ہے بلکہ جرائم پیشوں کا مسکن بھی بنا رکھا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یونیورسٹی میں تعلیم وتعلم کا ماحول ہی ختم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ مار پیٹ اور کیس مقدمے کی روایت چلی پڑی ہے۔ اب جبکہ پانی سر سے اوپر ہوچکا ہے تو حکومت بہار کے موجودہ وزیر تعلیم ڈاکٹر اشوک چودھری نے ان کے خلاف ایک اعلی سطحی جانچ کمیٹی بنائی ہے اور ان کی تنخواہ پر بھی روک لگا دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کمیٹی بھی کہیں کاغذی تو نہیں ثابت ہوتی ہے۔ واضح ہوکہ اپنی بدعنوانیوں کی پردہ پوشی کے لئے وائس چانسلر موصوف نے ایک نیا نسخہ بنا رکھا ہے ۔ انہوں نے رہت کمار نام کے ایک مبینہ آر ٹی آئی کارکن کو یونیورسٹی کا سپر اسٹار بنا رکھا ہے۔ جب کبھی کوئی پروفیسر یا پرنسپل پروفیسر کشواہا کی بدعنوانی اور انانیت پسندی کے خلاف زبان کھولتے ہیں تو ان کے خلاف اپنے اسی مبینہ آر ٹی آئی کارکن سے درخواست لے کر فوراً ایک نام نہاد جانچ کمیٹی تشکیل دے دیتے ہیں اور اس میں اپنے چند حواریوں کو ممبر بناکر من چاہی رپورٹ تیار کر بدعنوانی کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو طرح طرح سے پریشان کرتے ہیں اب تک انہوں نے تقریباً سو سے زیادہ جانج کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی بنانے کا بھی ان کا ایک الگ تجربہ ہے۔ کمیٹی کے نام پر خوفزدہ لوگوں سے بڑی رقم بھی وصولنے کی بات عام ہے کیوں کہ اساتذہ اور ملازمین اپنے ٹرانسفر تو کبھی معطلی سے پریشان ہیں۔ اب تک دو درجن اساتذہ کو ادھر سے ادھرکیا جاچکا ہے اور کئیوں کو وہ معطل بھی کرچکے ہیں۔ متاثرہ افراد بھی قانونی چارہ جوئی کے لئے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ واضح ہوکہ رہت کمار ایک جرائم پیشہ شخص ہے ، اس کے خلاف یونیورسٹی تھانہ دربھنگہ میں ہی دو مقدمے درج ہیں۔ اول مقدمہ نمبر 101/2014، جس میں دفعہ 353 ، 384،506 اور 507 شامل ہے، جبکہ دوسرا مقدمہ 04/12 درج ہے جس میں307،23،341 اور 507 جیسے دفعات لگے ہوئے ہیں اور حال ہی میں 12 دنوں تک وہ جیل کی ہوا کھا چکا ہے۔ مگر مبینہ آر ٹی آئی کارکن جو واقعتاً ایک جرائم پیشہ ہے، وائس چانسلر کشواہا کا محبوب نظر ہے اور اب تو یونیورسٹی کی کئی نوٹیفیکیشن میں اس کا نام بطور آر ٹی آئی کارکن لکھا جاتا ہے۔ مبینہ آر ٹی آئی کارکن یونیورسٹی احاطے میں کس قدر خوف وہراس کا ماحول پیدا کرتا ہے اس کی ایک جھلک اس تصویر میں دیکھ جاسکتی ہے کہ وہ کس طرح یونیورسٹی انتظامیہ کی موجودگی میں کسی بے قصور طالب علم کو لاٹھیوں سے پیٹ رہا ہے۔ محض اس لئے کہ طالب علم نے اپنے مطالبے کو لے کر وائس چانسلر کے دفتر تک پہنچ گیا ہے۔ یونیورسٹی کی پولس بھی پروفیسر کشواہا کے اس چہیتے ڈان سے کس قدر خوفزدہ ہے کہ وہ بھی تماشائی بنی ہوئی ہے۔
مختصر یہ کہ ایک طرف پروفیسر کشواہا کی انانیت اور بدعنوانی شباب پر ہے تو دوسری طرف ان کا سنگھی ذہن بھی بام عروج پر ہے۔ وہ ان دنوں سادھوی ساکشی کے ایجنڈے کو پورا کرنے میں لگے ہیں۔ غرض کہ ایل این متھلا یونیورسٹی دربھنگہ ہیڈ کوارٹر اور کالج سے مسلم اساتذہ کو دور دراز کے دہی کالجوں میں منتقل کر ’یونیورسٹی ہیڈ کوارٹر کو مسلم مکت ‘ بنانے کی مہم میں لگے ہوئے ہیں۔ان کا نظریہ ہے کہ اردو اور فارسی کے علاوہ دیگر شعبے میں مسلم اساتذہ کا رہنا مضر ہے، لہٰذا شعبہ پی جی شوسولوجی کے پروفیسر خواجہ غلام اشرف، کمیسٹری کے پروفیسر صمد انصاری، سی ایم سائنس کالج کے پروفیسر رضی احمد، سی ایم کالج کے ڈاکٹر ضیا حیدر اور ڈاکٹر اسداللہ کو ہیڈ کوراٹر سے دہی علاقے میں پوسٹ کرچکے ہیں جبکہ یہ تمام سینئر اساتذہ ہیں اور ان کی جگہ پر جونےئر اساتذہ جو ان کے نظریے کے حامی ہیں، انہیں ہیڈ کوارٹر میں بٹھایا جارہا ہے۔اتنا ہی نہیں، یونیورسٹی میں ایک واحد سی ایم لا کالج ہے اور وہاں کے پرنسپل ڈاکٹر بدرعالم خان پر مبینہ طور پر غلط الزام لگا کر انہیں اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، جبکہ لا فیکلٹی میں وہ سب سے سینئر ہیں۔ اسی طرح دوسرے مسلم اساتذہ کو بھی طرح طرح کے الزامات میں ملوث کرنے کی سازش کررہے ہیں تاکہ انہیں بھی ہیڈ کوارٹر سے باہر کیا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے پروفیسر خواجہ غلام اشرف، پروفیسر صمد انصاری اور ڈاکٹر بدر عالم خاں انصاف کے لئے در بدر ہو رہے ہیں لیکن کوئی مسلم رہنما بھی ان کی پرشش کرنے والا نہیں ہے۔ ان لوگوں نے بھی عدلیہ کا سہارا لیا ہے، دراصل پروفیسر کشواہا اپنے ہندوتو پسندی کا مظاہرہ محض اس لئے کررہے ہیں تاکہ انہیں مقامی سطح پر سنگھ پوریوار کے لوگوں کی حمایت مل سکے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ان دنوں یونیورسٹی میں سنگھی نظریہ کا بول بالا ہے۔ وہ اپنی شاطرانہ چال میں کچھ ایسے مسلم چہرے کو شامل کیے ہوئے ہیں جن کا تعلق درس وتدریس سے نہیں ہے، مگر ان کے ذریعہ اپنی قصیدہ خوانی کراتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نسخہ تو آر ایس ایس کا آزمودہ ہے کہ نام نہاد مسلم چہروں کو اپنی حمایت میں ہمیشہ کھڑا رکھنا چاہیے۔ کہنے کو تو بہار میں نتیش کمار اور لالو پرساد کے سماجی انصاف اتحاد کی حکومت ہے مگر ایل این متھلا یونیورسٹی دربھنگہ ہیڈ کوارٹر کو ’مسلم مکت‘ بنانے کی پروفیسر کشواہا کی مہم روز بہ روز اپنا دائرہ پھیلاتی جارہی ہے اور حکومت بھی خاموش ہے کہ بیشتر متاثرہ مسلم اساتذہ نے حکمراں جماعت کے لوگوں کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کا اگلا شکار کون ہوتا ہے۔ ویسے اب جبکہ حکومت نے ایک ہائی لیول کمیٹی تشکیل دے دی ہے تو علاقے کے چند مسلم دانشوروں نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ جس دن کمیٹی یہاں آئے گی اسی دن دربھنگہ کمشنر دفتر کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا کہ پروفیسر کشواہا کی فرقہ وارانہ ذہنیت کی وجہ سے متھلانچل کی قومی ہم آہنگی متاثر ہورہی ہے۔ انصاف پسند سیکولر ذہن کے اساتذہ بھی پروفیسر کشواہا کے مسلم مخالف رویے کی مخالفت کررہے ہیں۔ ان میں کانگریس کے ممبر قانون ساز کونسل ڈاکٹر دلپ کمار چودھری قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے حکومت کو پروفیسر کشواہا کی بدعنوانیوں اور مسلم مخالف رویے کی حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاستی سطح پر مسلمانوں کے خلاف ایک تعلیمی ادارے میں عصبیت کا زہر پھیلانے والے پروفیسر کشواہا کے خلاف آواز بلند ہونی چاہیے۔ کیوں کہ اس سے نہ صرف متھلا یونیورسٹی بلکہ متھلانچل میں جو مثالی قومی ہم آہنگی ہے اسے خطرہ لاحق ہے۔ (ملت ٹائمز)