محمد انس عباد صدیقی
مؤمن کتنا خوش نصیب قرار پایاہے اس کے مقدر میں کس قدر سعادتیں آئی ہیں کیسے کیسے انعامات ونوازشات کے لمحے اس کے جھولی میں ڈالے گئے رمضان المبارک کا ایک ایک لمحہ اس کے لئے برکتوں رحمتوں اور مغفرتوں وسعادتوں کا مژدہ لیکر آیا اس کے لئے دن میں روزے مقررکئے گئے تاکہ دن بھر بھوک وپیاس کی شدت کو سمجھے اذکار واوراد سے اپنے ایمانی سرد انگیٹھی کو گرمائے نفس کی تزئین کاری کرے گناہ سے عادی جسم وجان کو خوگر عبادت وبندگی بنائے اور سرشام افطار کرلے وہ بھی مختلف مشروبات وفواکہات سے اپنے ذوق کو تسکین پھنچائے اپنے جان ودل کو نہلائے شکم سیرہولے عشاء بعد تراویح کا حکم ہے کہ تراویح میں قرآن مجید کے انوار وبرکات سے اپنے دل ودماغ کو جلا بخشے راحت فکر ونظر تلاش کرے قرآن مجید کی تلاوتوں کے درمیان موسلادھار رحمتوں کی بارشیں ہوتی ہیں مساجد کا پورا علاقہ نورونکہت کا مرقع بناہوا ہوتا ہے ہرطرف روحانیت وعرفانیت کی لہریں بل کھاتی رہتی ہیں موسم بالکل بندگی کا ہوتاہے زمین آسمان آفتاب وماہتاب ذرات وریگزار نباتات وحیوانات سب کے سب انسانی افتخار کے اس جلوہ گری پہ رشک کناں ہوتے ہیں سحر کا وقت اللہ اللہ کیا برکتوں سے لبریز ہوتا ہے اس وقت کا سماں اس قدر دل آفریں وایمان افروز ہوتاہے کہ اس سماں کے نظافت وطہارت اور مقبولیت ومحبوبیت کا حلف اٹھایا جاسکتاہے بندگان خدا دن کے روزے کے لئے ہلکی پھلکی غذا لیتے ہیں پھر بارگاہ الہی کی طرف رواں دواں ہوجاتے ہیں دعائیں کرتے ہیں اور خدا سے زیادہ سے زیادہ تقرب حاصل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں آنسوؤں ہچکیوں اور بکاؤں کے بیچ فجر اداکر کے اپنی اس سعادت مندی پہ رشک کرتے ہوئے دن کے اجالے میں معاش کے لئے نکل پڑتے ہیں مسلسل ایک ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہتاہے آخری عشرے میں مسجدیں تلاوتوں دعاؤں اور اذکار واوراد سے مرغ زار بنی ہوتی ہیں معتکفین کوئی پل رب سے غافل ہونے کو گناہ سمجھتے ہیں شب قدر کی تلاش بسیار ہوتی ہے مسرتوں اور فرحتوں کا منظر دیکھنے کے قابل ہوتا ہے ہرایک نگاہ جھکی ہوئی ہرایک دل پاک بازی کی طرف مائل جبیں سجدے کی طرف
ماہ مبارک اب رخصت ہونے والا ہے عیدالفطر کی تیاریاں شباب پہ ہے نئے جوڑے سیلائے جارہےہیں سوییاں لی جارہی ہیں ہلال عید بڑے آب وتاب کے ساتھ خوشی ومسرت اور سعادت کی ڈھیرساری مبارک بادیاںوں کے ساتھ آسمان پہ نمودار ہوتا ہے ہرطرف مسرتوں کاپیام ہوتاہے ہرچہرہ دمک رہاہوتاہے خوشیوں کے اس مبارک ساعتوں میں بچے جوان بوڑھے چہک رہے ہوتے ہیں ہرلب پہ اذکار ودرود مچل رہے ہوتے ہیں عید کی شب کو انعام کی رات کہاگیاہے رب کی طرف سے انعامات کی بارشیں ہوتی ہیں۔
آج صبح عید ہے نئے کپڑوں میں معطر ہوکر آنکھوں میں سرمے لگاکر ٹوپیوں سے سر ڈھک کر اپنے خاندان والوں کے ہمراہ بندگان خدا نماز شکر اداکرنےگھر سے عیدگاہ کی طرف نکل پڑے ہیں قطار در قطار مومنوں کی جماعت جارہی ہے فرشتے اس اداؤں پہ حسرت بھری نگاہ سے ٹک ٹکی لگائے دیھ رہے ہیں کہ ان ہوں نے کیاہی قسمت پائی ہے حدیث شریف میں آیا کہ صبح عید اللہ تعالی فرشتوں سے فخرومباہات کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ فرشتو؛ بتاؤ اس مزود کا کیا بدلہ ہوناچاھئے جس نے اپنے مالک کا پورا پورا کام انجام دے دیا ہو فرشتے عرض کرتے ہیں ایسے مزدور کو پورا پورا بدلہ دے دینا چاھئے اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے فرشتو گواہ رہو کہ ہم نے ایمان والوں کو ان کے روزے اور قیام اللیل کے بدلے معاف کردیا ان کےبرائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا اب وہ عیدگاہ سے بخشے بخشائے گھرواپس جائیں گے کس قدرگراں مایہ انعام ہے عید کی مبارک بادیوں کے نغمے ہرلب پہ مچل رہے ہیں امیر وغریب عالم وجاہل سب شاداں ہیں عید گاہ میں ہجوم ہے نماز عید ادا ہوئی ہر گھر خوشیوں کا گہوارہ بناہواہے احباب ورشتے دار آرہےہیں مختلف قسم کے پکوان سے کام ودہن لطف لے رہے ہیں ۔
ہاں یہ خوشی صرف اپنے لئے نہیں بلکہ ہرمؤمن کا اس خوشی میں حق ہونا چاھئے پڑوسیوں کا بھرپور خیال کیا جاناچاھئے ان کی عید کہیں غموں میں تو نہ گزررہی ہے۔
عید آئی ہے پیام مسرت لیکر پیغام محبت کا مژدہ سنانے