کیا بی جے پی کی واپسی نے ہندوستان کے چہرے سے ’ سیکولرازم کا نقاب ‘ اتار دیا ہے؟

افتخار گیلانی   

توقع کے عین مطابق ہندوستان میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار میں واپس آگئی ہے اور وزارت اعظمیٰ کا تاج ایک بار پھر نریندر مودی کے سر پر بندھ چکا ہے۔ مگر جس طرح کا منڈیٹ بی جے پی کو حاصل ہوا ہے، اس کی توقع کسی کو نہ تھی۔ امید تھی کہ اپوزیشن کانگریس کم از کم مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ جیسے صوبوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی، جہاں پچھلے سال کے اواخر میں ہوئے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں اس نے بی جے پی کو شکست دیکر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ ان انتخابا ت میں کانگریس نے مودی کے گڑھ گجرات میں بھی بی جے پی کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔

اس لئے اکثر تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ بی جے پی کا رتھ 200 سیٹوں کے آس پاس رک جائے گا۔ مگر نہ صرف 543 رکنی ایوان میں بی جے پی کو 303نشستیں حاصل ہوئی، بلکہ 37.4 فیصد ووٹ لیکر ایک ریکارڈ بھی قائم کیا۔ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر یعنی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کو 45 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ اس کے برعکس کانگریس کو محض 19.5 فیصد ووٹ پڑے ہیں۔ جس طرح اس کی سیٹوں کی تعداد 44  سے بڑھ کر صرف 52 ہو گئی ہے، اس سے لگتا کہ اقتدار میں آنے اور بی جے پی کو ٹکر دینے کے لیے پارٹی کو ایک لمبی جدوجہد کرنی پڑے گی اور اپنی حکمت عملی بھی از سر نو ترتیب دینی پڑے گی۔

آخر بی جے پی نے اتنی بڑی جیت کیسے درج کی؟ پارٹی کے ایک سینئر لیڈر کے مطابق پچھلے سال اہم صوبوں کے انتخابات میں ہزیمت کے بعد یہ طے ہوگیا تھا کہ کسان اور بی جے پی کا اپنا اعلیٰ ذات کا ہندو ووٹ بینک اس سے ناراض ہے۔ دوسری طرف سیاسی لحاظ سے اہم اتر پردیش میں مقامی سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد نے بھی گھنٹی بجائی تھی۔ اس لئے ان طبقات کو را م کرنے کے لیے وزیر اعظم مودی اور پارٹی صدر امت شاہ نے پارلیامنٹ سے ایک آئینی ترمیمی بل پاس کروایا، جس کی رو سے اقتصادی طور پر پسماندہ اعلیٰ ذاتوں کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں نشستیں مخصوص کروائی گئیں۔ تاحال یہ سہولیت صرف نچلی ذاتوں کو ہی میسر تھی۔ اس کے علاوہ کسانوں کی ناراضگی دور کرنے کے لیے براہ راست ان کے اکاؤنٹ میں 6000 روپے منتقل کئے گئے۔ زمینی سطح پر چھوٹے  چھوٹے کاروباروں کے لیے بینک لون فراہم کروانے میں تیزی لائی گئی۔

اس اسکیم کے تحت 48.1 ملین افراد کو 240 ٹریلین روپے کی رقوم تقسیم کی گئی۔ مگر پارٹی لیڈر کے بقول وہ جانتے تھے کہ بس تعمیر و ترقی کو لیکرہی ہندوستان میں انتخابات نہیں جیتے جاسکتے ہیں۔ اس کی واضح مثال 2004 میں اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں پچھلی بی جے پی حکومت کی شکست تھی، جبکہ اس وقت ملک کی اقتصادی صورت حال بہت بہتر تھی۔ اس لئے کسی ایسے ایشو کی تلاش تھی کہ جس کو جذباتی طور پر بھنایا جاسکے۔ پارٹی لیڈران پریشان تھے کہ بابری مسجد کی جگہ رام مند کی تعمیر پر کوئی تحریک برپا نہیں ہو رہی ہے۔ معلوم ہو ا کہ یہ ایشو جذباتی افادیت کھو چکا ہے۔ 14 فروری کو کشمیر کے پلواما ضلع میں سیکورٹی دستوں کی کانوائے پر حملے اور اس کے نتیجے میں 40 ہلاکتوں کے خداداد موقع فراہم کروایا۔ اگلے ہی دن فیصلہ ہوا کہ پاکستان کو اس کا کرارا جواب دیکر   اور اس کو لیکر قوم پرستی کا ہوا کھڑا کرکے انتخابی مہم ترتیب دی جائے گی۔ پارٹی کے ایک مقتدر لیڈر سبرامنیم سوامی کے بقول پلواما حملہ سے قبل بی جے پی کی اپنی سروے کے مطابق اس کی جھولی میں صرف 166سیٹیں ہی پڑ رہی تھیں۔ مگر پلواما واقعہ، اس کے بعد کی صورت حال اور اس سے پیدا شدہ جنگی جنون نے انتخابی مہم کا نقشہ ہی بدل دیا۔

11 اپریل کو پہلے مرحلے کی پولنگ کے دوران میں نے دہلی سے متصل مغربی اتر پردیش کا دورہ کرتے ہو ئے  ایک پولنگ بوتھ کے باہر قطار میں کھڑی ایک خاتون خانہ سے مودی حکومت کے بارے میں جاننا چاہا۔ پہلے تو اس کے مہنگائی و روزگار کا رونا رویا، مگر بعد میں بتایا کہ ووٹ مودی کو ہی دے گی۔ جب وجہ جاننی چاہی، تو اس کا برجستہ جوا ب تھا کہ مودی نے پاکستان کو دھمکا کر ہندوستانی فضائیہ کے پائلٹ ابھی نندن کو واپس لانے میں کامیابی حاصل کی۔ میر ے ایک ساتھی نے جب پوچھا کہ ابھی نندن کی واپسی سے کیا اب مہنگائی اور دیگر ایشوز حل ہوجائیں گے، تو وہ بغلیں جھانکنے لگی، مگر بتایا کہ مودی میں دم تو ہے۔ ایک طرح سے یہ انتخابات اور اس کی مہم تاریخ میں ایک ایسی علامت کے طور پر درج ہوگی کہ کس طرح ایک زر خرید اور گودی میڈیا کے سہارے بنیادی ایشوز سے توجہ ہٹا کر عوامی غیظ و غضب کو مینوفیکچر کرکے ووٹ بٹورے جاسکتے ہیں۔

تاریخی شہر بھوپال سے دہشت گردی میں ملوث پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو سابق وزیر اعلیٰ دگوجے سنگھ کے خلاف میدان میں اتارنا قوم پرستی کے ہوا کو انتہا تک لیجانے کی سوچی سمجھی حکمت عملی تھی۔ جس نے مہاتماگاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کی پذیرائی کرکے حیران و ششد کردیا۔ دگ وجے سنگھ نے جب ایک بھرے جلسے میں مودی کے 2014 کے انتخابی وعدوں  پر طنز کرکے  عوام سے پوچھا کہ جس کو پندرہ لاکھ روپے ملے ہوں وہ ہاتھ اْٹھائے۔ وہ پچھلے انتخاب میں مودی کے اس وعدہ کا ذکر کر رہے تھے، جس میں بتایا گیا تھا کہ بیرون ممالک میں بھارتی امیروں کا کالا دھن واپس لاکر فی کس شہری کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ روپے جمع کئے جائیں گے۔ ایک نوجوان نے ہاتھ اْٹھایا۔ دگوجے نے اسٹیج پر بلاکر جب اس کا اکاونٹ نمبر معلوم کیا تو اْس نے مائیک ہاتھ میں لے کر کہا کہ؛

     مودی نے سرجیکل اسٹرائیک کرکے دہشت گردوں کو سبق سکھایا ہے۔ یہ  پندر ہ لاکھ سے بھی بڑی رقم ہے۔ اور پاکستان کے خلاف جذبہ دیگر نوجوانوں کے دل میں بھی جگایا۔ اس لئے  تمام پریشانیاں اور مودی کے جھوٹ اپنی جگہ، مگر دشمنوں کے لئے مودی ہی ضروری ہے۔

بھوپال کے ایک پوش علاقہ چار املی کے پولنگ بوتھوں پر، جہاں صرف حکومت کے اعلیٰ عہدیدار رہتے ہیں، پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو 448 ووٹ ملے، جبکہ دو مرتبہ وزیر اعلیٰ رہ چکے دگوجے سنگھ صرف 150ووٹ حاصل کر پائے۔ یہ ایسے صوبہ کے دارلحکومت کا حال تھا، جہاں کانگریس اقتدار میں ہے۔معروف تجزیہ کار سعید نقوی کے مطابق موجودہ انتخابی نتائج نے ہندوستان کے چہرے سے نقلی  سیکولرازم کا نقاب اتار دیا ہے۔اس سیکولر ازم کی آڑ میں پچھلی سات دہائیوں سے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، اس کی عکاسی 2005 میں جسٹس راجندر سچر کمیٹی نے کی تھی۔ ان کا کہنا  ہے کہ ایک ڈیکلیرڈ اور دیانت دار ہندو اسٹیٹ ایک کھوکھلی سیکولر اسٹیٹ سے بدرجہا بہتر ہے۔ ان انتخابات میں تو سیکولر جماعتوں نے بھی مسلمانوں سے ووٹ مانگنے سے پرہیز کیا۔ اس کے باوجود  ہندو ووٹروں نے ان کو کوئی پذیرائی نہیں بخشی۔

اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو اور دلتوں کی لیڈر مایاوتی کو پتا ہی نہیں چلا کہ کب ان کا ’ کور ووٹر ‘ دلت اور یادو ان کے دامن سے کھسک گیا، کیونکہ امت شاہ ان کے ووٹروں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ ان کے لیڈران مسلمانوں کی ناز برداری میں لگے ہوئے ہیں جس سے ایک طرف ہندو ذات پات کی حدود کو چھوڑکر اپنے ان لیڈروں کوسبق سکھانے کے لئے بی جے پی کے حق میں متحد ہوگئے۔ یہ ایک انتہائی شاطر چال تھی جو کامیاب ہوکر بی جے پی کے لئے ایک تاریخی مینڈیٹ لائی۔ یہ الیکشن مسلمانوں کے لئے بھی عبرتناک اسباق چھوڑ گیا ہے۔ عام مسلمانوں نے ہر جگہ اْس سیکولرپارٹی کا ساتھ دیا جو فرقہ پرستوں کے مقابلے میں مضبوط نظر آرہی تھی۔ اس کے مقابلے اپنے لیڈروں کو جو میدان میں قسمت آزمائی کر رہے تھے، بی جے پی کا ایجنٹ تک کہہ ڈالا یہ طے ہے کہ مسلمان اپنے بل بوتے پر کامیاب نہیں ہوسکتے۔ وہ غیر مسلم ووٹ بنک رکھنے والی سیکولر پارٹیوں کا ساتھ دیکر انھیں اقتدار میں پہنچانے کا ذریعہ بنتے آتے رہے  ہیں۔

اس انتخاب میں وہ پارٹیاں خود ہی بے حیٹیت ہوکر رہ گئیں اور مسلمانوں کو بھی بے حیثیت بنادیا۔ اْن کا سارا اپنا ووٹ بنک اْن کے پاس سے کھسک گیا، صرف مسلمان  ہی اْن کے ساتھ کھڑے رہ گئے۔ پچھلے پانچ  برسوں میں گئو رکشا، ماب لنچنگ وغیرہ کے ذریعے عام مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کو عام کرکے غیر مسلموں کو یہ پیغام دیا گیا کہ ہماری پارٹی ہی ان کو قابو میں رکھ سکتی ہے۔ معروف صحافی پرشانت جھا کی  کتاب How BJP Wins Elections پر تبصرہ کرتے ہوئے روزنامہ ممبئی اردو  نیوز کے ایڈیٹرشکیل رشید نے  لکھا ہے کہ ،

    مودی کی ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم  آرایس ایس نے ایک ایسے قائد کے طور پر تشہیر کی ہے جو پاکستان کو سبق سکھا سکتا ہے اور اعلیٰ ذات کی خواہشات کی تکمیل بھی کرسکتا تھا۔ قوم پرستی کے جذبے کو اس حد تک پروان چڑھایا گیا کہ نوٹ بندی اور نئے ٹیکس سسٹم جی  ایس ٹی کے بداثرات نظر انداز کرکے لوگوں نے ووٹ بی جے پی کو دئے۔ اس کے علاوہ امت شاہ نے جس طرح بی جے پی کو یوپی اور پھر دوسری ریاستوں میں اپنے قدموں پر کھڑا کیا وہ کانگریس یا کسی دوسری سیکولر پارٹی کا کوئی قائد نہیں کرسکا۔ ضلع اور تعلقہ کی سطح سے بوتھ کی سطح تک بی جے پی کو متحرک کرنا ایک بڑا کام تھا۔ بی جے پی نے پولنگ بوتھ سطح پر ’ادھ پر پنا پرمکھ‘ یعنی ووٹر لسٹ میں درج 50 گھروں کا ایک انچارج بنایا تھا۔ ان کو ہدایت تھی کہ ان گھروں میں افراد خانہ کے یوم پیدائش و دیگر تقاریب و اموات کا خیال رکھیں اور ایسے موقعوں پر ان کے گھر وں پر حاضری دیں۔ اس کے علاوہ روزانہ ان کے حال احوال پوچھنے کے لیے ان کے گھروں پر دستک دیا کریں۔ یہ ایک ایسی حکمت عملی تھی، جس نے بی جے پی کو عام لوگوں کی روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنادیا اور ان لوگوں میں بھی بی جے پی نے جڑیں پکڑلیں جو اس پارٹی اور اس کے نظریہ سے دور تھے۔

 اس کے علاوہ ہندومسلم تناؤ کو بھی بی جے پی نے انتخابی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ پرشانت جھا لکھتے ہیں کہ؛

     اپنے اس مقصد کیلیے بی جے پی ’ پروپیگنڈے ‘ اور ’ جھوٹ ‘ کا سہارا لیتی چلی آئی ہے۔ جھوٹے ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے تھے اور بی جے پی کو یہ سب کرنے میں کسی طرح کی شرم نہیں محسوس ہوتی ہے۔ بی جے پی کا یہ پروپیگنڈہ خوب کام آیا کہ اس ملک میں وہ سیاسی پارٹیاں جو خود کو سیکولر کہتی ہیں مسلمانوں کی منہ بھرائی کرتی چلی آرہی ہیں اور ہندوؤں کو نظر انداز کرتی ہیں۔ یہ وہ پروپیگنڈہ تھا جس نے بہت سارے ہندوؤں، کو مسلمانوں کے خلاف اْکسایا۔ ایک پروپیگنڈہ ہندوؤں کے غیر محفوظ ہونے کا بھی تھا۔ یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ مسلمانوں کے ظلم سے تنگ آکر مغربی یوپی کے مسلم اکثریتی قصبہ کیرانہ سے ہندو منتقل ہو رہے ہیں۔

شمال مشرقی صوبوں کے عیسائی علاقوں میں بھی  بی جے پی نے  کانگریس  سے ناراض دیگر علاقائی سیاسی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔  بی جے پی کے لیڈروں نے چانکیہ نیتی کے تحت سام (چاپلوسی) دام (رشوت)، ڈھنڈ (سزا) اور بھید (خوف) کا استعمال کرکے کم وبیش 40 چھوٹی اور بڑی جماعتوں کے ساتھ اتحاد تشکیل دے کر بازی مار لی۔ شیو سینا کی گالیاں کھانے کے باوجود، جس نے بارہا نریندر مودی کو نشانہ بنایا، پارٹی صدر امت شاہ نے ممبئی جاکر سینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے کی چوکھٹ پر نہ صرف ماتھا رگڑا، بلکہ پانچ سیٹوں کی قربانی بھی دی۔ اسی طرح بہار میں بھی اس نے موجودہ کئی اراکین پارلیامان کی قربانی دیکر جنتادل (یونائیٹڈ) کے ساتھ اتحاد تشکیل دیکر فتح کے لیے راہ ہموار کر دی۔ دوسری طرف کانگریس، کرناٹک، بہار، مہاراشٹرہ اور تامل ناڈو کے علاوہ کسی بھی دیگر صوبہ میں کوئی قابل ذکر اتحاد تشکیل دینے میں  کامیاب نہیں ہوئی، جس کی بڑی حد تک وہ خود ذمہ دار ہے۔ دہلی میں  بی ایس پی کوششوں اور درخواستوں کے باوجود عام آدمی پارٹی (عآپ) کے ساتھ اتحاد کرنے سے انکار کردیا۔

اسی طرح سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں بھی مقامی سیکولر پارٹیوں اور ان کے اتحاد کو مضبوط کرنے کے بجائے کانگریس نے اکیلے ہی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ پرینکا گاندھی کو میدان میں اتار کر سہ رخی مقابلے کی فضا تیارکی۔ آسام میں بدرالدین اجمل کی یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ سے اتحاد کی دعوت کو حقارت سے ٹھکرایا۔ مہاراشٹر میں اسدالدین اویسی اور دلت لیڈر پرکاش امبیڈکر کے اتحاد کے ساتھ انتخابی مفاہمت سے انکار کیا۔ خیر مودی کے سر پر اب وزارت اعظمیٰ کا تاج سج گیا ہے۔ ان کی کامیابی کی ضمانت اسی پر منحصر ہے کہ ملک کا کوئی بھی شہری خود کو غیر محفوظ نہ سمجھے۔ اقلیتی طبقے ذہنی تناؤ سے آزادی دلا دے۔ مزید تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے روابط اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی اشد ضرورت کو سمجھے، تاکہ ملک میں اندرونی اور بیرونی سطح پر سازگار ماحول پیدا ہو۔ توقع ہے کہ نئے وزیر اعظم اب صرف اپنی پارٹی یا مذہب کے ہی نہ رہیں گے بلکہ پورے خطے کو امن کا پیغام دے کر ایک سیاستدان کے بجائے اسٹیٹس مین کے طورپر تاریخ میں اپنا نام رقم کرواکر اس خطے میں کشیدگی کی جڑ کے سیاسی حل تلاش کریں گے۔