شمالی کوریا کی ہزاروں خواتین چین میں جسم فروشی پر مجبور

لندن سے تعلق رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’فیوچر اینیشی ایٹو‘ کی تازہ رپورٹ کے مطابق،”چین میں ہزاروں شمالی کوریائی خواتین اور لڑکیوں کو زبردستی شادی اور ناجائز جسمانی تعلقات رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔“
شمالی کوریائی خواتین کو چین میں جسم فروشی پر مجبور کرنے کے حوالے سے تیار کی گئی رپورٹ پیر کے روز برطانوی پارلیمان میں پیش کی گئی۔ اس رپورٹ میں حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ شمالی کوریائی خواتین اور لڑکیاں، جن میں بارہ سال تک کی کم سن بچیاں بھی شامل ہوتی ہیں، کو جھانسہ دے کر شمالی کوریا سے چین لا کر جنسی غلام کے طور پر فروخت کر دیا جاتا ہے۔
چین میں عصمت فروشی، سائبرسیکس اور زبردستی کی شادی کی وجوہات پر جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس ملک میں دراصل جسم فروشی کے کاروبار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی کوریائی لڑکیوں اور خواتین کا بھی استحصال کیا جا رہا ہے۔ انسانی اسمگلنگ میں ملوث جرائم پیشہ گروہ چین میں کئی ملین ڈالرز کا جسم فروشی کا غیر قانونی کاروبار چلا رہے ہیں۔
فیوچر انیشی ایٹو نے اپنی یہ رپورٹ چین میں رہنے والے متاثرین اور جنوبی کوریا میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والوں سے طویل ملاقاتوں کے بعد تیار کی ہے۔ لندن سے تعلق رکھنے والی اس این جی او نے کہنا ہے کہ چین میں جنسی تجارت کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جانا چاہیئے۔ ساتھ ہی یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ خواتین کے ساتھ نفرت انگیز رویے کے حوالے سے شمالی کوریائی حکومت سے بھی پوچھ گچھ کی جانا چاہیے۔
شمالی کوریا کی پدرانہ سوچ رکھنے والی حکومت کی وجہ سے اس ملک کی خواتین ظلم وستم، غربت اور جبر کا شکار ہو کر چین میں جنسی کاروبار کا حصہ بننے سے پہلے انسانوں کے تاجروں، دلالوں اور جرائم پیشہ تنظیموں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چین میں جسم فروشی کے دوران مردوں کی جانب سے ان کا اس وقت تک استحصال کیا جاتا ہے، جب تک ان کے جسم میں تباہ و برباد نہیں ہو جاتے۔
چین میں جسم فروشی کے غیر قانونی کاروبار کی خبریں گزشتہ کچھ ماہ سے اخبارات کی شہہ سرخیاں بن چکی ہیں۔ اس حوالے سے پاکستانی پولیس بھی سخت اقدامات کر رہی ہے۔کیونکہ آئے دن چینی مردوں سے پاکستانی لڑکیوں کی شادیوں کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ شادی کے جھانسے میں آنے والی ان پاکستانی لڑکیوں کو چین میں جسم فروشی کے کاروبار میں ملوث بیوپاریوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا ہے۔(بشکریہ ڈی ڈبلیو)