جنت بے نظیر آج دہکتا ہوا جہنم کیوں بنا ہوا ہے؟

کشمیر: جیل میں بند مسلم نوجوانوں کی ضمانت کے بعد بھی رہائی نہیں 

 عابد انور 

جنت بے نظیر آج دہکتا ہوا جہنم کیوں بنا ہوا ہے؟ خوبصورت وادیوں کے آبشاروں سے جھرنوں کے بجائے خونی جھرنے کیوں گر رہے ہیں؟ بچے سے لے کر جوان، خواتین اور ضعیف تک کیوں مشتعل ہیں اور ہر شخص کے اندر غصہ کیوں ابل رہا ہے؟ وہ کشمیری جو چھری سے سبزیاں کاٹنے کے علاو ہ اس دوسرا استعمال نہیں جانتے تھے وہ اب ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیوں ہوئے؟۔ یہاں بات بات پر تشدد کیوں بھڑک اٹھتا ہے؟اس کے پس پشت کون سے عناصر ہیں؟ پس پردہ کون کھیل رہا ہے اور کس کے نام پر یہ خونی کھیل جاری و ساری ہے؟۔ کشمیری مسلمانوں کے دکھ درد کو دوسری ریاستوں کے عوام کی طرح کیوں نہیں سمجھنے کی کوشش کی جاتی۔ چھوٹے چھوٹے فسانے پر سلامتی دستہ فائرنگ پر آمادہ کیوں نظر آتا ہے؟۔ وہ کشمیری مسلمانوں کی جان کی قیمت آخر کیوں نہیں سمجھتے؟۔ کیا انسانی حقوق کشمیر میں اپنا معنی کھوچکا ہے؟ کیا کشمیری مسلمانوں کے مسائل کا ادراک صحیح معنوں میں کیا گیا؟، مرکزی حکومت آزادی کے بعد سے اب تک ان کے حقیقی مسائل کے تئیں سنجیدہ کیوں نہیں نظر آتی؟۔ ان تمام سوالات کے جوابات جب تک نہیں دئے جاتے اس وقت تک مسئلہ کشمیر کبھی حل نہیں ہوگا۔ یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ کشمیری مسلمان سینڈوچ بن گئے ہیں اور وہ ہندوستان اور پاکستان کی چکی کے دو پاٹ کے بیچ میں پس رہے ہیں۔ ان کے نام سے دکانیں سجائی جارہی ہیں۔اقتدار حاصل کیا جارہا ہے۔ اکثریتی طبقہ کو خوف و ہراس میں مبتلا کیا جارہا ہے۔اس کو روکو ورنہ تم خود پریشانی میں پھنس جاؤگے لیکن کوئی بھی لیڈر یا حکومت کشمیری مسلمانوں کے زخم پر جو اب ناسور بن چکا ہے مرہم رکھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔حصول آزادی کے طویل تر عرصہ گزر جانے کے بعد بھی کشمیری مسلمان اب تک بنیادی سہولتوں سے محروم کیوں ہیں؟۔ وہاں کے سیب کے باغات کو کیوں تباہ کئے  گئے۔ کس کے اشارے پر ناقص بیج اور دیگر خراب زرعی اشیاء سپلائی کی گئیں جس کی وجہ سے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہے جانے والے پھلوں کے باغات تباہ ہوگئے تھے۔ سلامتی دستوں کو خصوصی اختیارات حاصل کیوں ہیں؟۔ ان کے لئے وہاں ہر چیز مباح کیوں ہے؟۔کشمیر دو تین دہائیوں میں ۸۰ ہزار سے زائد مسلمانوں کا قبرستان بن چکا ہے۔ ہزاروں بچے اپنے باپ کے انتظار میں ہیں،ہزاروں خواتین اپنے شوہروں کی واپسی کی راہ تک رہی ہیں۔ کشمیر میں آج تک انتخابات منصفانہ نہیں ہوئے، جب کہ کرفیو مسلسل نافذ رہا تو آخر ووٹ کس نے ڈالا؟۔ مخالفین کی آواز دبانے کے لئے بڑے بڑے لیڈروں کو چن چن کر کیوں قتل کیا گیا؟۔ 

کشمیر میں ہزاروں جرم بے گناہی کی پاداش میں ہزاروں کشمیری نوجوانوں کی زندگی برباد کرنے کی ایک سازش کے تحت جیل میں رکھا جارہا ہے۔ کشمیر میں زانی، قاتل، انسانی حقوق کے بدترین ارتکاب کرنے والے پولیس اور فوجی اہلکاروں کو تمغے سے نوازا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جھوٹے مقدمات پھنساکر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ کشمیر میں کتنے نوجوان ہیں جن کی جوانی جیل میں رہائی کی آس میں بیت گئی۔ ان میں ہی ایک نوجوان پیرزادہ محمد اشرف ہیں جو رہائی میں آس میں گزشتہ پندرہ برسوں سے جیل کی صعوبت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پیرزادہ اشرف کی رہائی کے لئے ریاستی گورنر کو عرضی دی گئی جس میں ساری تفصیلات بتائی گئی لیکن اس وقت تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔گورنر مکتوب عرضداشت میں کہا گیا ہے کہ عدالت سے ضمانت ملنے کے باوجود انہیں رہا نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ جس معاملے میں انہیں قید زنداں میں ڈال دیا گیا ہے اس میں زخمی اس وقت کے ترقیاتی کمشنر اصغر سامون اور نورآباد کے ایم ایل اے اور کانگریس کے لیڈر عبدالمجید پڈر اور 20 دیگر چشم دیدوں نے پیرزادہ محمد اشرف کے حق میں گواہی دی اور انہیں بے قصور بتایا، تاہم اس کے بعد بھی رہائی عمل میں نہیں آئی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ پیر زادہ محمد اشرف پر 13بار پی ایس اے لگایا گیا اور عدالت و عدالت عالیہ اسے منسوخ قرار دیا اور رہائی کے احکامات صادر کئے لیکن 15سال سے وہ سلاخوں کے پیچھے ہے۔ ان پندرہ برسوں کے دوران ان کی زمین جائداد، گھرکے زیورات ان کی رہائی کی کوشش میں فروخت ہوچکے ہیں۔ بیٹے کی جدائی کے غم میں ماں کا انتقال ہوگیا۔ ان کے والد پیرزادو غلام نبی جو اس علاقے کی جامع مسجد میں گزشتہ پچاس برس سے زائد امام تھے اپنے بیٹے کی جدائی میں روتے روتے پہلے تو ان کی آنکھ کی روشنی چلی اور اسی غم میں ان کا انتقال ہوگیا۔ انتقال سے پہلے ان کی آرزو کی تھی ان کے جنازے کو پیر زادہ اشرف کاندھے لگائے اور لیکن پولیس کی بے رحمی اور سنگ دلی دیکھیں کہ جنازے میں شرکت کے لئے پیرول پر بھی رہا کرنے سے انکار کردیا۔ دنیا میں شاید ہی کہیں ایسا ہوتا ہو مرنے والے کی آرزو پوری نہیں کی جاتی ہو، انتظامیہ کی بے حسی اور غیر انسانی رویہ اس نے پیرزادہ محمد اشرف کو والد کے جنازے میں شامل ہونے کے لئے پیرول پر رہا کرنے سے انکار کردیا۔ مقدمہ لڑتے ہو ئے پورا خاندان تباہ ہوچکا ہے۔ پیرزادہ اشرف کی بہن نے کہاکہ میرا بھائی جرم بے گناہی کی پاداش میں جیل میں اپنی زندگی گزار رہا ہے اور کئی بار ان پر سیفٹی ایکٹ نافذ کیا گیا ہے۔ عدالت نے کئی بار رہائی کے احکامات جاری کئے ہیں تاہم حکام نے عدالتی احکامات کو نظر ا نداز کرکے ان پر سیفٹی ایکٹ نافذ کرتی رہی جس کی وجہ سے میرا بھائی جیل میں ہے۔ پیرزادہ اشرف محکمہ تعمیرات عامہ میں بطور ڈیلی ویجر کام کرتا تھا۔ انہیں کپرن میں ہونے والے دھماکے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ پروگرام کانگریس کے اس وقت کے ریاستی صدر  غلام حسین میر کی تھی جس میں اس وقت کے نائب وزیر اعلی منگت رام شرما، اراکین اسمبلی شریف نیازی، تاج محی الدین اور دیگر رکن اسمبلی کے ساتھ کئی اہم شخص پروگرام میں شامل تھے۔ ان میں سے غلام احمد میر، نائب وزیر اعلی منگت رام شرما، ڈویژنل کشنر اسفر ساموں اور دیگر زخمی ہوگئے تھے۔ اس کیس میں ملزم اول سید مرتضی کو ضمانت مل چکی ہے جب کہ پیرزادہ محمد اشرف ملزم دوم ہے اور اسے 13 مئی 2013کو ضمانت دینے کے ساتھ نچلی عدالت  تمام کیسوں میں ضمانت دے چکی ہے۔خاندان کے مطابق عدالت نے انہیں بے قصور قرار دے دیا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے جیل میں رہتے ہوئے ان پر 13 مقدمات درج کئے گئے۔ عدالت نے تمام کیسوں میں اس کو ضمانت دی ہے لیکن پولیس کسی قیمت پر اسے رہا کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ 

 پیرزاد محمد اشرف کو 19جولائی 2004 کو اننت ناگ ضلع میں ہونے والے گرینیڈ دھماکہ کے الزام میں 2006 میں گرفتار کیا گیا تھا۔19 جولاہی کے دن ایک سیاسی تقریب تھی کپرن ویریناگ میں اس تقریب میں مہمان خصوصی تھے نائب وزیر منگت رام شرما اور مقامی ایم ایل اے غلام احمد میر جو ریاستی کانگریس صدر بھی ہیں جو اس کیس کا ایک چشم دید گواہ بھی ہیں کورٹ میں اور وہ ابھی تک کوٹ میں حاضر نہیں ہوئے اور ایم ایل اے تاج محی الدین اور ایم ایل اے شریف نیاز اور ایم ایل اے غلام حسن میر اور ایم ایل اے عبدل مجید پڈر اور ڈیوژنل کمشنر کشمیر اصغر ساموں اور ڈی آئی جی اور ایس ایس پی اننت بھی تھے یہ سارے کپرن میں تھے ان پر ملٹنٹوں نے حملہ کیا اور اس حملے میں بی اے اینڈ آرکے چیپ انجینر جان بحق ہوئے۔موقع پر ہی اور کچھ کانگریس ورکر بھی اور پولیس کے آدمی بھی جان بحق ہوئے، اور اس حملے ڈیوجنل کمشنر اصغر ساموں اور مجید پڈر بھی خطرناک زخمی ہوگیا اوراس وقت کے نائب وزیر اعلی اور مقامی ایم ایل اے غلام احمد میر بھی بال بال بچ گئے، اس میں تقریباً 30 کانگریسی ورکرزخمی ہوگئے۔ مسعود احمد بیگ اور باقی ایجنسیوں نے اس مسئلے کی تحقیقات شروع کردی تو ابتداہی تحقیقات میں ایس یس پی نے قصور وار کا نام سعید مرتضی بتایا اس کو بھی اپنے ہی گھر سے گرفتار کیا ہے وہ بھی ایک سول ہی تھا۔ ڈپٹی چیپ منسٹر اور مقامی ایم ایل اے غلام احمد میر کی منشا پر اس کی مکمل تحقیقات ہوئی، شاید اس کا پالی گراف ٹیسٹ بھی کیا گیا ہے اور اس ایک سال کے لئے جیل بھیج دیا اور ایک سال کے بعد یہ رہا ہو۔ اس کے علاوہ اس واقعہ میں غلام احمد میر بھی زخی ہوئے تھے۔ بٹہ گنڈو ویرناگ، کے ایم ایل اے غلام احمد میر، اس معاملے میں وہ چشم دید گواہ بھی ہیں لیکن اب تک ان کی عدالت میں حاضری نہیں ہوئی ہے۔ اسی کے ساتھ منگت رام شرما کے علاوہ کئی دیگر لیڈر اس میں گواہ ہیں جو اب تک عدالت میں حاضر بھی نہیں ہوئے ہیں۔ عبدالرشید انجیئررکن اسمبلی کے بھی علم لایا گیا ہے وہ صورت حال معلوم کرنے کے لئے متاثرین کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کی تھی اور اس معاملے میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور پولیس والے رہا کرنے کے لئے قطعی تیار نہیں ہیں۔ پیرزادہ محمد اشرف کے اہل خانہ نے جموں و کشمیر میں بی جے پی کے لیڈروں سے بھی ملاقات کی تھی ان سے بھی گزارش کی تھی کہ وہ ان کے بیٹے کی رہائی کے لئے مدد کریں۔ جموں و کشمیر کے سیاسی لیدڑ مسٹر صوفی نے اس سلسلے میں بتایا کہ صرف وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی مداخلت سے بھی رہائی ممکن ہوسکتی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے راج ناتھ سنگھ کو ایک خط لکھا ہے۔ تاہم اس کے بارے میں کیا پیش رفت ہوئی اور راج ناتھ سنگھ نے کیا کارروائی کی ہے یا کیا جواب دیا ہے اس سلسلے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار تنظیمیں اور افراد اشرف کی رہائی کے لئے کوشش کریں اور حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ ضمانت کے باوجود وہ جیل میں کیوں ہے؟

کشمیر میں ہندوستانی حکومت کے مظالم کو دیکھیں تو رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دنیا کاکوئی ملک یا ملک کی کوئی ایسی ریاست نہیں ہوگی جہاں اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو جیل رکھا جاتا ہو۔ جس طرح کشمیر میں رکھا گیا ہے۔ کشمیر میں ہزاروں بچوں کو پولیس تھانوں میں طلبی اور عدالتوں میں حاضری کا سامنا ہے۔ ان بچوں کو ۲۰۱۰؁ء اور ۲۰۱۱؁ء کے دوران مظاہروں اور فورسز پر پتھراؤ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بیس ہزار لڑکوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے بیشتر کمسن ہیں۔ انہیں ضمانت پر رہا تو کیا گیا ہے لیکن ان کی زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے کیوں کہ ہر جمعہ کو ان بچوں کو مقامی پولیس تھانوں میں طلب کیا جاتا ہے اور اگر ہڑتال کا دن ہو تو انہیں سارا دن تھانے میں ہی گزارنا پڑتا ہے کچھ بچے تو اسکول سے راست تھانے پہنچتے ہیں۔ حالانکہ حکومت سے حق معلومات کے قانون کے تحت گرفتاریوں اور عام معافی کے بارے میں جانکاری طلب کی تھی۔ اس کے جواب میں حکومت نے جو تحریری جواب دیا ہے اس کے مطابق جون ۲۰۱۰؁ء سے ۲۰؍ مارچ ۲۰۱۲؁ء تک کل پانچ ہزار پانچ سو تین افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے پانچ ہزار چار سو اڑسٹھ کو ضمانت پر رہا کیا جاچکا تھا۔ اس وقت کے ریاست کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے بھی معافی کا اعلان کیا تھا جو متاثرین کا مذاق اڑانے سے کم نہیں تھا کیوں کہ اس کے باوجود ان لوگوں کو تھانے میں بچوں کے ساتھ حاضری دینی پڑتی ہے اور مقدمات اب تک ختم نہیں کئے گئے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں کمسن بچوں کی گرفتاری اور اس کے بعد تھانے میں حاضری کیا حکومت ان بچوں کو ریاست بیزار کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے۔ کشمیر میں سرگرم انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ کمسن بچوں کو مختلف مقدمات میں الجھانا یا انہیں گرفتار کرنا ان میں انتقامی جذبات پیدا کرسکتا ہے۔ 

اس کے علاوہ کشمیر میں دس ہزار سے زائد نوجوان لاپتہ ہیں۔ ان نوجوانوں کو فوج نے حراست میں لیا تھا یا پولیس اٹھاکر لے گئی تھی یا دیگر مقامات سے نامعلوم افراد کے ذریعہ اٹھایا گیا تھا لیکن اتنے طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ان لوگوں کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ وہ لوگ کس حال میں زندہ یا ماردئے گئے۔ گزشتہ دنوں نامعلوم قبروں کے دریافت ہونے پر ہنگامہ کھڑا ہوا تھا۔ کشمیر میں چپے چپے پر فوج ہے اس لئے کسی مقدمے یا کیس کا آزادانہ تفتیش جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لاپتہ نوجوانوں کی تعداد پر فکرمندی اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے امدادی تنظیم ’ہیومن رائٹس والنٹری فنڈز فار وِکٹِمز آف ٹارچر‘ نے کشمیر میں پچھلے بیس سال کے دوران گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈِس اپیئرڈ پرسنز‘ (اے پی ڈی پی)۵۲ ہزار ڈالر کی امدد دی تھی۔ متاثرہ کنبوں کی بحالی کے لئے دس ہزار ڈالر کی امداد اس کے علاوہ تھی۔ تاکہ اے پی ڈی پی لاپتہ افراد کے بارے میں سروے کرسکے۔ پچھلی دو دہائیوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ حراستی گمشدگیوں کے معاملہ میں اقوام متحدہ نے کسی مقامی گروپ کو اس طرح کوئی مالی امداد دی ہو۔ کشمیری نوجوانوں کا ناطقہ بند کرنے کے لئے کشمیر میں سلواجوڈوم جیسے گروپ تشکیل کی گئی تھی۔ جیسے جیسے جموں کشمیر میں شدت پسند تشدد میں کمی ہو رہی ہے، ویسے ویسے گاؤں تحفظ کمیٹی (وی ڈی سی) کی طرف سے ہتھیاروں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ اس کا قیام ۱۹۹۵؁ء میں ہوا تھا اور بیشتر یہ کمیٹی وہاں قائم کی گئی تھی جہاں مسلمانوں کی آبادی بہت کم تھی اور غیر مسلموں کا غلبہ تھا۔ ریاست کے سابق پولیس سربراہ کلدیپ کھوڈا نے اس کی ابتدا کی تھی۔ جموں میں تقریبا پانچ ہزار وی ڈی سی ہیں، جن میں تقریباً ۹۲ ہزار ورکرس ہیں جو زیادہ تر اقلیتی ہندو برادری کے ہیں۔ انہیں حکومت کی جانب سے ہتھیار اور انہیں چلانے کی تربیت دی گئی ہیں۔ شدت پسندوں کے ساتھ لڑتے ہوئے اب تک تقریباً 150 وی ڈی سی کارکن مارے بھی جا چکے ہیں۔ وی ڈی سی کے قیام کے کچھ ہی دیر بعد ان کے ہتھیار اور اختیار کے غلط استعمال کی رپورٹ آنے لگی تھیں۔ وہ عام لوگوں کو لوٹنے، ڈرانے، دھمکانے اور دیگر غیر قانونی کام زیادہ کرنے لگے ہیں۔ 

مسلمان جب کشمیر میں زیادتیوں کی بات کرتا ہے تو اسے ملک کا باغی تصور کیا جاتا ہے۔ کشمیر کے حقائق کو اجاگر کرنے والوں کو طرح طرح سے پریشان کیا جاتا رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق رہنما اور معروف قانون دان رام جیٹھ ملانی نے حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ایک بہت کڑوی اور سچی بات کہی اگر یہ بات کسی مسلم لیڈر نے کہی ہوتی تو وہ اب تک جیل میں ہوتا۔ انہوں نے دورہ کشمیر کے دوران کہا تھا کہ کشمیر میں لوگوں کے ساتھ نازی طرز کا ظلم ہورہا ہے اور ناانصافیوں کا سلسلہ جاری رہا تو لوگ انصاف کے حصول کے لیے ’متبادل راستے‘ تلاش کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ رام جیٹھ ملانی غیر سرکاری کشمیر کمیٹی کے تین رْکنی وفد کی سربراہی کر رہے تھے۔ رام جیٹھ ملانی نے سابق مسلح رہنما عبدالعزیز ڈار عرف جنرل موسیٰ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ شخص کو بنا کسی عدالتی سماعت کے اٹھارہ سال تک جموں و کشمیر کی جیلوں میں قید رکھا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی صورتحال نازی جرمنی میں بھی دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ جموں کشمیر میں غیر ضروری طور پر احتیاطی گرفتاری کے قوانین نافذ ہیں اور ان قوانین کا ناجائز استعمال کیا جا رہا ہے۔ ناانصافیوں، ظلم اور انتظامی غفلت کا یہی حال رہا تو حالات دوبارہ بگڑ سکتے ہیں۔ کشمیرمیں قتل کرنا کوئی گناہ نہیں رہ گیا ہے۔ فوجی کسی بھی بے گناہ کو دہشت گرد بتاکر قتل کردیتے تھے تاکہ انہیں انعام و اکرام سے نوازا جائے۔ مئی ۲۰۱۰؁ء میں ہندوستانی فوجیوں نے تین عام شہریوں کو ملازمت کا لالچ دے کر پہلے اغوا کیا اور پھر ایک جعلی تصادم میں ہلاک کردیا۔ اس قتل کا مقصد یہ تھا کہ اس کارروائی کو دہشت گردانہ کارروائی دکھاکر انعام حاصل کیا جائے۔ صرف ۲۰۱۰؁ء میں سو سے زائد کشمیریوں کو فوجی اور نیم فوجی دستوں نے بلاسبب فا ئرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کشمیر میں بیواؤں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے بہت وہ خواتین شامل ہیں جنہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے اس کا شوہر زندہ ہیں یا نہیں۔ کشمیر ایسی خواتین کو ’ہاف ویڈو‘ کا نام دیا گیاہے۔ اس طرح کے حالات اور مظالم کی وجہ سے کشمیر کی خواتین نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہوگئی ہیں۔ بچے دہشت زدہ رہتے ہیں۔ مختلف فوٹیج اور ویڈیو کلپنگ میں فوجی اور نیم فوجی دستوں کے مظالم کا سامنے آتا ہے۔ 

9810372335 

abidanwaruni@gmail.com