ترکی کی امریکی طیاروں پر روسی میزائلوں کو ترجیح

 ڈاکٹر فرقان حمید 

ترکی اس وقت عالمِ اسلام کا واحد ملک ہے جو امریکی اتحاد نیٹو میں شامل ہے۔ اس سے قبل کسی دور میں پاکستان اور ایران بھی امریکی اتحاد ” سینٹو ” میں شامل رہ چکے ہیں۔ ترکی نیٹو میں اپنی فوجی قوت کے لحاظ سے امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر رہتے ہوئے دیگر یورپی اتحادی ممالک پر اپنی برتری قائم کیے ہوئے ہے لیکن اس کے باوجود دیگر یورپی اتحادی ممالک کے برعکس اسے امریکہ کی جانب سےکئی بار پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ خاص طور پر 1974ء میں قبرص کی جنگ کے موقع پر امریکہ نے طویل عرصے تک ترکی پر اسلحے کی پابندیاں عائد کیے رکھیں اور پھر ترکی کی دہشت گرد تنظیم ” پی کے کے ” کے خلاف نیٹو کے اسلحے کو استعمال کیے جانے کی وجہ سے بھی اسلحے کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا جس پر ترکی کو دہشت گرد تنظیم ” پی کے کے ” کے خلاف اپنی کاروائی جاری رکھنے کے لیے اپنے برادر اور واحد قابلِ بھروسہ ملک پاکستان سے بھاری مقدار میں اسلحہ حاصل کرنا پڑا ۔

نیٹو نے ہمیشہ ہی مشکلات میں ترکی کی فوجی قوت کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب ترکی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو نیٹو مختلف حیلوں بہانوں سے ترکی کی مدد کو کتراتا رہا ہے۔ قبرص اور دہشت گرد تنظیم ” پی کے کے ” کے معاملے میں ہم پہلے ہی نیٹو کے اتحادی ممالک کا ترکی سے متعلق رویہ دیکھ چکے ہیں لیکن ترکی کو اس وقت بھی نیٹو نے کوئی قابلِ ذکر مدد نہ کی جب ترکی پر شامی سرحدوں کی جانب سے مسلسل گولہ باری کی جا رہی تھی اور ترکی اس گولہ باری اور بمباری سےبچنے کے لیے نیٹو سے پیٹریاٹ میزائل فراہم کرنے کا مطالبہ کررہا تھا لیکن امریکہ نے ترکی کو براہ راست پیٹریاٹ میزائل فراہم کرنے کی بجائے عبوری عرصے کے لیے جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں موجود پیٹریاٹ میزائلوں کو نصب کردیا حالانکہ ترکی کو اس وقت شام کی جانب سے مسلسل بمباری اور گولہ باری کا سامنا کرنا پڑہا رہا تھا۔ ترکی نے اس سلسلے میں امریکہ پر اپنے دباو کا سلسلہ جاری رکھا لیکن امریکہ کسی بھی صورت ترکی کو پیٹریاٹ میزائل فراہم کرنے پر کچھ عرصہ قبل تک راضی نہ ہوا اور صرف اس وقت اس سلسلے میں نرمی دکھانا شروع کیا جب ترکی نے روس کے ساتھ ایس- 400 دفاعی نظام خریدنے کےسمجھوتے پر دستخط کیے۔

ترکی کے نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے روس کے ساتھ کبھی بھی امریکہ جیسے قریبی تعلقات قائم نہیں رہے ہیں بلکہ امریکہ ہمیشہ ہی ترکی کو روس کے خلاف مختلف طریقوں سے استعمال کرتا رہا ہے لیکن امریکہ کا قریبی حلیف ہونے کے باوجود امریکہ کی جانب سے ترکی کی دہشت گرد تنظیم ” پی کے کے” کی شام میں ذیلی شاخ ” وائی پی جی ” اور ” پی وائی ڈی ” کی پشت پناہی کیے جانے پر ترکی نے کئی بار امریکہ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی لیکن امریکہ نے کوئی کان نہ دھرے جس پر دونوں ممالک کے تعلقات منفی طور پر متاثر ہونا شروع ہوگئے لیکن نومبر 2015ء میں ترکی کے ایف 16طیاروں کے شام اور ترکی کی سرحد کے قریب ایک روسی ” سخوئی – 24 ” جنگی طیارے کو نشانہ بنائے جانے کے بعد ترکی اور امریکہ تو ایک دوسرے کے قریب آگئے لیکن روس اور ترکی کے تعلقات جو کچھ حد تک بہتری کی جانب گامزن تھے متاثر ہوئے تاہم روس اور ترکی کے درمیان یہ سرد مہری زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکی بلکہ صدر ٹرمپ کی ترکی کے بارے میں اپنائی جانے والی منفی پالیسی کی بدولت روس اور ترکی ایک بار پھر ایک دوسرے کے قریب آگئے اور اسی دوران ترکی نے اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لیے روس سے ایس 400 میزائیل خریدنے کے سمجھوتے پر دستخط کرتے ہوئے امریکہ میں تھرتھیلی ڈال دی اور امریکہ جو ترکی کو کسی بھی صورت پیٹریاٹ میزائل دینے کے تیار نہ تھا نے نرم پالیسی اختیار کرتے ہوئے ترکی کو پیٹریاٹ میزائلوں کی فروخت کے بارے میں نئی آفر دینے کے ساتھ ساتھ روس سے ایس- 400 میزائلوں کی خریداری کے سمجھوتے کو منسوخ کرنےکےلیے دباو ڈالنا شروع کردیالیکن صدر ایردوان کئی بار برملا کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک ایس-400 میزائل نظام کے حصول کے معاہدے کی مکمل طور پر پابندی کرے گا اور ان میزائلوں کوحاصل کرکے ہی دم لے گا۔ روس کا یہ میزائل نظام 400 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ایک ہی وقت میں تقریباً 80 اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور یہ میزائل نظام فضا میں نچلی سطح پر پرواز کرنے والے ڈرونز سمیت مختلف بلندیوں پر پرواز کرنے والے جہازوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ دور تک مار کرنے والے میزائلوں کو بھی نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ روس سے ایس – 400 دفاعی نظام حاصل کرنے سے ترکی کی دفاعی صلاحیتوں میں بہتری پیدا ہوگی لیکن امریکہ کسی بھی صورت اپنے اتحادی ملک ترکی اور روس کے درمیان طے پانے والے اس سمجھوتے پر عمل درآمد کرنے کے حق میں نہیں ہے اس لیے اس نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ترکی کو خبردارکیا ہے کہ اگر اس ڈیل کو حتمی شکل دی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ امریکی انتظامیہ کا موقف ہے کہ روسی ساخت کے اس میزائل دفاعی نظام سے روس مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کی جاسوسی کر سکے گا اور تمام متعلقہ معلومات حاصل کرسکے گا۔ اسی لیے امریکہ نے ترکی کو جولائی کے آخر تک کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ترکی سے ایف 35 جنگی جہاز خریدنے یا روس سے طیارہ شکن میزائل سسٹم خریدنے کے بارے میں فیصلہ کرے۔ اس سلسلے امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع پیٹرک شانہان نے ترکی کے وزیر دفاع حلوصی آقار کو دہمکی آمیز خط لکھتے ہوئے حکومتِ امریکہ کے فیصلے سے آگاہ کردیا ہے۔انہوں نے اپنے خط میں واضح طور پر لکھا ہے کہ روس کا دفاعی میزائل سسٹم نیٹو کے دفاعی نظام سے مطابقت نہیں رکھتا اور یہ عالمی سلامتی کو بہت بڑا خطرہ ہے انہوں نے اس سلسلے میں روس سے اس دفاعی نظام کو خریدنے سے باز آنے اور امریکی پیٹریاٹ طیارہ شکن میزائل خریدنے کا فیصلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اس بات کا کئی بار برملا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت روس کے ساتھ طے پانے والے میزائلوں کی خریداری کے سمجھوتے پرعمل درآمد کرنے سے باز نہیں آئیں گے، ترکی ایک آزاد ملک ہے اور وہ اپنے دفاع اور مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ ترکی امریکہ کے ساتھ 100 امریکی ایف – 35 لڑاکا طیارے خریدنے کے معاہدے پر ان میزائلوں کی خریداری کے سمجھوتے سے قبل ہی دستخط کرچکا ہے اور طے پانے والے سمجھوتے کی رو سے ترکی نے ایف- 35 طیارے کے پرزے بنانے کے لیے 937 ترکی کمپنیاں پہلے ہی سرمایہ کاری کرچکی ہیں۔

امريکی محکمہ دفاع کی ايک سينیئر اہلکار ايلن لارڈ نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر ترکی نے مقررہ مدت تک روسی ايس- 400 طرز کے ميزائل دفاعی نظام کی خريداری سے متعلق ڈيل کو منسوخ نہيں کيا، تو امريکا ميں ترک پائلٹس کی تربيت کا عمل روک ديا جائے گا۔ ترک پائلٹس ان دنوں امريکا ميں ہيں اور F-35 اڑانے کی تربيت حاصل کر رہے ہيں۔ علاوہ ازيں امريکی ايف-35 جنگی طیاروں کی تياری کے ليے ترک کمپنيوں سے طے شدہ معاہدے بھی ختم کر ديے جائيں گے۔

امریکہ اور نيٹو کے دباو کے باوجود ترک صدر ایردوان نے کہا ہے کہ ترکی ایس – 400 دفاعی میزائل حال کرنے کے ساتھ ساتھ اب روس کے ساتھ ايس – 500 جديد ميزائل دفاعی نظام مشترکہ طور پر تيار کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے اور اس سلسلے میں روس کے ساتھ مذاکرات میں بڑی حد تک پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔

ترکی کے اس رویے اور عزم سے یہ بات عیاں ہے کہ ترکی روس سے لازمی طور پر ایس – 400 دفاعی نظام نہ صرف حاصل کرے گا بلکہ وہ روس کے ساتھ آئندہ مشترکہ طور پر ایس- 500 دفاعی نظام کو تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کرچکا ہے چاہے اسے امریکہ سے ایف – 35 ایک سو عدد جنگی طیارے حاصل ہوں نہ ہوں ۔

Mob:+90 535 870 06 75

furqan61hameed@hotmail.com