مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
بعض تاریخی روایت کے مطابق عہد فاروقی ہی میں مسلمان ہندوستان میں قدم رکھ چکے تھے ، وہ ایک تاجر کی حیثیت سے اس ملک میں داخل ہوئے تھے ؛ لیکن اس وقت مسلمانوں کے اندر دعوتی جذبہ اس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ وہ جہاں جاتے اور جس کام کے لئے جاتے ، دین حق کی امانت بھی اپنے ساتھ لے کر جاتے اور لوگوں تک اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ، مسلمانوں کا یہ گروہ جنوبی ہند کے مالا بار علاقہ میں بحیثیت تاجر وارد ہوا ، اب بھی اس کے بعض شواہد موجود ہیں ، پھر بنو اُمیہ کے عہد میں ہی سمندری قزاقوں کی سرکوبی اور سندھ کے باشندوں کو ظالم حکمراں سے نجات دلانے کے لئے ۳۱۷ءمیں محمد ابن قاسمؒ پہنچے ، انھوں نے ظالم حکمرانوں پر قابو پایا اور مقامی باشندوں پر حسن اخلاق کے ایسے نقوش چھوڑے کہ ان کے واپس ہونے کے بعد بھی عرصہ تک لوگوں نے ان کا مجسمہ بناکر پرستش کی ، محمد بن قاسم اگرچہ فوج کے جلو میں آئے تھے ؛ لیکن انھوں نے فولاد کی تلوار سے زیادہ اخلاق کی تلوار سے کام لیا اور اس کی وجہ سے بڑے پیمانہ پر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ؛ چنانچہ سندھ کا علاقہ جو پاکستان میں ہے ، اس کی غالب اکثریت اس وقت سے آج تک حلقہ بگوش اسلام ہے ۔
پھر اس کے بعد ۷۷۹ء میں مغرب کی طرف سے عجمی نژاد نو مسلم قبائل ہندوستان کی طرف بڑھے اور مختلف خاندانوں نے یہاں آکر حکومت کی ، یہ اگرچہ مسلمان تھے ؛ لیکن ایک آدھ فرماں رواؤں کو چھوڑ کر دعوتی جذبہ سے محروم تھے ، انھوں نے اشاعت اسلام کے بجائے خوبصورت اور پُرشکوہ عمارتوں کی تعمیر پر توجہ دی ، اگرچہ اس سے عوام کو فائدہ ہوا ؛ کیوںکہ اس زمانے میں یہ مزدوروں کو روزگار فراہم کرنے کا ایک ذریعہ تھا ، اسی طرح انھوں نے ملک کی بھلائی کے بہت سے کام کئے ، جیسے: زراعت کو ترقی دینا ، آب پاشی کا انتظام ، سڑکوں کی تعمیر ، مویشیوں کی پرورش کے شعبہ میں ترقی ، اس زمانے کے معیار کے لحاظ سے صنعتوں کو بڑھانا وغیرہ ؛ لیکن انھوں نے دعوتِ دین کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی ، انھوں نے تمام رعایا کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک کیا ؛ اسی لئے مسلم حکمرانوں کے دور اقتدار میں بہت کم بغاوت کے واقعات ملتے ہیں ، تاہم جیساکہ حکمرانوں کا رواج رہا ہے ، ان سے بعض اوقات زیادتیاں بھی ہوئی ہیں اور یہ اپنے ہم مذہب لوگوں کے ساتھ بھی ہوئی ہیں اورغیرمسلموں کے ساتھ بھی ، تاہم یہ پورا دور امن و امان اور اطمینان کا دور رہا ۔
مسلمانوں کے بعد انگریز آئے ، انھوں نے تمام ہندوستانیوں پر بڑے مظالم ڈھائے ، مگر مسلمان ان کے ظلم و جور کا زیادہ شکار ہوئے ؛ کیوں کہ وہ ان کو اپنا حریف خیال کرتے تھے ؛ لیکن ہندو ¿وں اور دوسرے مذہب کے ماننے والوں پر بھی ستم ڈھائے گئے ، یہاں تک کہ ہندؤوں اور مسلمانوں نے مل کر اور شیر و شکر ہوکر آزادی کی لڑائی لڑی ، تقریباً ۰۰۲ سال کی جدوجہد کے بعد انگریز اس ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ، ہرحکمراں کی خواہش ہوتی ہے کہ رعایا میں اتحاد نہ ہو ؛ کیوں کہ رعایا کا آپسی اختلاف حکمرانوں کے تخت اقتدار کو مستحکم کئے رہتا ہے ؛ چنانچہ انھوں نے مسلمانوں اور ہندؤوں کے درمیان منظم طور پر نفرت پیدا کی اور اس مقصد کے لئے مسلم دور کی تاریخ مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، انگریزوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے ایک فرقہ پرست برہمن لابی مل گئی ، جس نے آر ایس ایس کی صورت اختیار کی ، اگر آر ایس ایس کی موجودہ فکر کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے : مسلم دشمنی ؛ کیوں کہ ہندؤوں کو متحد کرنے کے لئے ان کے پاس اس کے سواکوئی اور فارمولہ نہیں ہے ، آر ایس ایس ۷۴۹۱ء میں اپنے ایجنڈے کو بروئے کار لانا چاہتی تھی؛ لیکن جمہوریت پسند قدآور لیڈروں کی موجودگی کی وجہ سے اسے کامیابی حاصل نہیں ہوسکی اور گاندھی جی کے قتل نے ملک میں اس کے خلاف نفرت کی لہر پیدا کردی ، مگر انھوں نے کچھ کُھلے اور چُھپے منصوبے بنائے ، مختلف مقاصد کے لئے ادارے قائم کئے ، لٹریچر مرتب کئے ، پابندی سے اپنے تربیتی کیمپ لگاتے رہے ، اس کے لئے انھوں نے بعض عالمی واقعات و تجربات کا مطالعہ بھی کیا ، خاص کر نازیٔ ازم اور اسرائیل کی پالیسیوں کا گہرائی سے جائزہ لیا اور اسرائیل کے نفرت انگیز شدت پسند طرز عمل کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنایا ، نیز اپنے چہرے کو بین الاقوامی سطح پر قابل قبول بنانے کے لئے اس کی مدد بھی حاصل کی ۔
آخر وہ ۰۷ سال کی کوششوں کے بعد قصر اقتدار کی مختلف سیڑھیوں سے چڑھتے ہوئے آج اس کے بام و در پر قابض ہوچکے ہیں اورچاہتے ہیں کہ اس ملک کی ہر چیز زعفرانی رنگ میں رنگ جائے ، شاید اگر انسانوں کو جسمانی طورپر رنگا جاسکتا تو وہ اس سے بھی نہیں چوکتے ، موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ کمیونسٹوں کا قلعہ ٹوٹ چکا ہے اور ہندوستان میں جو سیاسی پارٹیاں اپنے آپ کو سیکولر کہا کرتی تھیں ، انھوں نے ہتھیار ڈال دیا ہے ، اب اس وقت فرقہ واریت کے مقابلے میں کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے ، جو کھڑی ہونے کو تیار ہو ، نفرت اور تشدد کا رُخ پوری طرح اقلیتوں کی طرف ہے اور بالخصوص مسلمانوں کی طرف ؛ کیوںکہ بعض اقلیتیں تو ملک کے دستور کے لحاظ سے ہندو ¿وں کے زمرے میں شامل کردی گئی ہیں ، رہ گئے مسلمان اور عیسائی ، تو عیسائی پوری طرح اکثریتی فرقہ پرستی کے سامنے سر بسجود ہیں اور انھوں نے تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے ’ہندوتوا ‘ کو قبول کرلیا ہے ؛ اس لئے اب مسلمانوں کو بظاہر تنہا ہی اس لڑائی کو لڑنا اور اپنی شناخت کو باقی رکھنا ہے ، اس میں زیادہ سے زیادہ ان کو کچھ انصاف پسند ایسے لیڈروں ، دانشوروں اور صحافیوں کا ساتھ مل سکتا ہے ، جن کا تعلق اکثریتی فرقہ سے ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ان حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے ، اور مختلف میدانوں میں ان کا کیا منصوبہ ہونا چاہئے ؟ اس پس منظر میں چند باتیں ذکر کی جاتی ہیں :
(۱) پہلی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں اپنے دین اور اپنی شریعت پر ثابت قدمی پیدا کی جائے ، ہمارا یقین ہے کہ اسلام دین حق ہے ، اور یہ اللہ تعالیٰ کا نازل کیا ہوا ابدی پیغام ہے ، جو سچائی اور انصاف پر مبنی اور دنیا و آخرت کی بھلائی کا ضامن ہے ؛ اس لئے ہمیں دین کے معاملہ میں پوری طرح ثابت قدم رہنا چاہئے ، مسلمان اس سے کہیں بڑے بڑے امتحان سے گزرچکے ہیں ، وقتی طورپر وہ کچھ دشواریوں سے ضرور دوچار ہوئے ؛ لیکن ایمان پر ثابت قدمی اور دین پر جماو ¿ کی وجہ سے ان کی شناخت اور پہچان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جاسکا ؛ بلکہ دین سے ان کا تعلق اوربڑھ گیا ، اور یہ عہد صحابہ سے ہوتا رہا ہے ، غزوۂ اُحد کے موقع پر ابوسفیان نے مشرکین مکہ کی طرف سے مسلمانوں کو چیلنج دیا کہ وہ آئندہ سال دوبارہ بدر کے میدان میں آئیں اور مقابلہ کریں ، رسول اللہؐ نے اس چیلنج کو قبول فرمایا ؛ چنانچہ آئندہ سال آپ ستر (۰۷) مسلمانوں کے ساتھ بدر کے میدان میں پہنچے ، ابوسفیان بھی مشرکین مکہ کے لشکر کے ساتھ مکہ مکرمہ سے نکلا اور ’ مر الظہران ‘ نامی مقام تک آیا ، اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں رُعب ڈال دیا اور اس نے واپسی کا ارادہ کرلیا ، مگر خیال آیا کہ اگر مسلمان بدر پہنچے اور ہم نہیں پہنچے تو بہت شرم کی بات ہوگی ، اس نے ایک تدبیر کی کہ نُعیم ابن مسعود اَشجعی ( جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ) مکہ جارہے تھے ، ان سے کہا : چوںکہ اس سال بہت قحط ہے ؛ اس لئے ہم واپس لوٹ جانا چاہتے ہیں ؛ لیکن اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نکلے اور میں نہیں نکلا تو مسلمانوں کی ہمت بڑھ جائے گی ؛ اس لئے تم ان کو سمجھاؤ کہ وہ مقابلے پر نہیں آئیں اور اس کے بدلہ ہم تم کو دس اونٹ دیں گے ، جب نعیم آئے تو دیکھا کہ مسلمان سفر کی تیاری کررہے ہیں ، انھوں نے مسلمانوں سے غزوۂ اُحد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے تمہارے گھر آکر تمہارے بہت سے لوگوں کو قتل کردیا ، اب اگر تم ان کی طرف جاؤگے تو تم میں سے کوئی بچ کر واپس نہیں آئے گا ، بعض مسلمان بھی ان کی اس بات سے متاثر ہوگئے ، آپ ا نے یہ دیکھ کر فرمایا : اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں تو ضرور نکلوں گا ، چاہے تنہا نکلنا پڑے : ’’ والذی نفس محمد بیدہ لأخرجن إلیھم ولو وحدی‘‘ (مفاتیح الغیب : ۸۲۷۵) اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی :
الَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیْمَاناً وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل ۔ ( آل عمران : ۳۷۱)
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب لوگوں نے ان سے کہا : تمہارے مقابلہ میں لوگ اکٹھا ہوگئے ہیں ، تم ان سے ڈر کر رہو تو اس سے ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے کہا : ہمارے لئے اللہ ہی کافی ہے اوروہی بہترین کارساز ہے !
اِس وقت بھی یہی صورتِ حال ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں متحد ہوگئی ہیں اور وہ مسلمانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کرنا چاہتی ہیں ، گوکشی ، جے شری رام اور وندے ماترم کہلانے کے عنوان سے جابجا مسلمانوں پر حملے کئے جارہے ہیں ، نامنصفانہ قتل کے واقعات پیش آرہے ہیں، بعض جگہ مسلمانوں کا بائیکاٹ بھی کیا جارہا ہے ، یہ سب مشرکین مکہ کے رویہ کے باز گشت ہے ، اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اورپیش آتے رہیں گے ؛ لیکن اس دین حق کے لئے اللہ کے پیغمبروں نے تکلیفیں اُٹھائیں اور ان کے رفقاء نے جان و مال کی مصیبت کو برداشت کیا ، بائیکاٹ کی صعوبتوں کو سہا ؛ لیکن ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ رہا: ’’ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل “ یہی کیفیت آج کے حالات میں بھی مسلمانوں سے مطلوب ہے ، یہ بات علماء، مذہبی قائدین اور مسلم سماج کی نمائندہ شخصیتوں کو عام مسلمانوں تک پہنچانی ہوگی ، انھیں ان صحابہ کی یاد دلانی ہوگی ، جنھوں نے ناقابل تصور مشقتوں کو برداشت کیا ؛ لیکن ان کے قدم میں کوئی تزلزل نہیں آیا ، آج بھی برما اور چین جیسے ملکوں میں ایمان پر قائم مسلمانوں کی مثالیں موجود ہیں ، اگر ہم مسلمانوں کو یہ نہیں سمجھا پائے کہ ایمان کی دولت ہماری جان اور ہماری زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہے تو ان مشکل حالات میں ہم ایمان کی حفاظت اور حق پر ثابت قدمی کے سب سے اہم فریضہ کو ادا نہیں کرپائیں گے ۔
اسی لئے رسول اللہ ا ثابت قدمی کی دُعا فرمایا کرتے تھے : ” اللّٰہم إنی ا سئلک الثبات فی الأمر والعزیمة علی الرشد “ (نسائی ، عن شداد بن اوس : ۳۴۵) حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے مجھے دس باتوں کی نصیحت فرمائی ، ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ چاہے تمہیں قتل کردیا جائے اور چاہے تم کو نذر آتش کردیا جائے ؛ لیکن اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا : ” لا تشرک باللّٰہ شیئا وان قتلت وحرقت“ ( مسند احمد، عن معاذ بن جبل : ۵۸۳۲) آپ انے نصیحت کی اور فرمایا کہ دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو ؛ لیکن اگر اس کی نوبت آہی جائے تو صبر سے کام لو اور یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے : ” فإذا لقیتمواہ فاصبروا “۔ ( بخاری ، حدیث نمبر : ۸۱۸۲)
افسوس کہ گذشتہ چند ہی دنوں میں بہت سے مسلمان کہلانے والوں کی زبان بدل گئی اور وہ ظالم کو ظالم کہنے سے بھی کترانے لگے ؛ حالاں کہ یہ بہت بڑا جہاد ہے ، حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا : سب سے بڑا جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے : ” ان من اعظم الجھاد کلمة عدل عند سلطان جائر “ (ترمذی ، حدیث نمبر : ۴۷۱۲) مومن کی شان یہ ہے کہ آزمائشوں کی وجہ سے نہ اس کا ضمیر بدلے اور نہ اس کی زبان تبدیل ہو ؛ بلکہ وہ ہر حال میں باطل کی مزاحمت جاری رکھے ، اور انصاف اور سچائی کے خلاف کوئی بات قبول نہیں کرے ۔ ( جاری )
٭٭٭