سانحہ نہیں ٹلتا سانحے پہ رونے سے !

مولانا عبد الرشید طلحہ نعمانی

ہندوستان کا سیاسی منظرنامہ نہایت تیزی کے ساتھ ہندوتوا کی طرف بڑھتا جارہا ہے، آج کا مسلمان سماجی اعتبار سے کشمکش کے دوراہے پرکھڑاملک کی موجودہ صورت حال پر ماتم کناں اورچاک گریباں ہے ۔جب کہ دوسری طرف یکے بعد دیگرے مسلسل کامیابیوں کے نتیجہ میں زعفرانی تنظیموں نے اپنے حوصلوں کو بلندتراور سازشوں کوتیزتر کردیا ہے اوراس بات میں بھی ادنی شک وترددکی گنجائش نہیں کہ ان فتوحات وکامرانیوں کے پیچھے آرایس ایس کی پیہم محنت، طویل جدوجہد اور زبردست منصوبہ بندی ہے ؛ جو نظام قدرت کے تحت آج ان کا مقدربن چکی ہے ۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب سے ہندوشدت پسند ذہنیت اقتدار کی کرسی پرغیرمعمولی کامیابی کے ساتھ دوبارہ براجمان ہوئی تب سے موب لنچنگ کا ناتھمنے والا سلسلہ پھرسے شروع ہوگیا،بابری مسجد کے حوالے سے مختلف بیان بازیاں ہونی لگیں،ہزارمخالفت کے باوجودتین طلاق بل کابینہ میں منظور ہوکر پارلیمنٹ پہونچ گیا اور ان کے علاوہ دیگر منصوبوں کو رو بہ عمل لانے کی کوششیں بھی عروج پرپہونچ گئیں۔

بہ نظر غائر دیکھا جائے تواس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ عدم تحفظ کا ہے ، اس احساس نے انہیں ہمیشہ ترقی کی راہ میں آگے بڑھنے سے روکاہے اوررفتہ رفتہ یہ سلسلہ طول پکڑتا جارہا ہے ۔نفرت و تعصب اور تشدد و انتہا پسندی کا یہ رجحان اگر یوں ہی پنپتا رہا،اس پر قابوپانے کی کوشش نہ کی گئی اور شرپسند عناصر پر کاری ضرب نہ لگائی گئی تواس کا نقصان صرف مسلمانوں کوہی نہیں جھیلنا پڑے گا؛بلکہ مجموعی طورپرجمہوریت کی جڑیں کمزور ہوں گی،ملک کی ترقی و خوشحالی کی رفتارپر روک لگے گی اور عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ داغ دارہوکر رہ جائے گی۔

اس جاں بہ لب اورروح فرسا ماحول میں اگر ہم اپنا محاسبہ کریں ، ناکامیوں کاتجزیہ کریں اور ان کے اسباب ومحرکات کا جائزہ لیں تو بنیادی طورپردرج ذیل عناصرکھل کرسامنے آتے ہیں:مسلمانوں کی نری جذباتیت وناعاقبت اندیشی،تعلیمی و معاشی پس روی و پسماندگی،خوداحتسابی و منصوبہ بندی کافقدان،مسلم قائدین کی منتشریاغیرموثر حکمت عملی اوراپنے اپنے مفاد کی خاطرنام نہاد سیکولر پارٹیوں سے مفاہمت و ساز باز وغیرہ ۔۔۔۔

نفرت وتعصب کی مذکورہ منظرکشی خلاف واقعہ نہیں ہے ،ملک میں نفرت بڑھ رہی ہے ،تشددراہ پاتا جارہا ہے؛ مگراس کے باوجود ہمیں مایوس ہونے یا تھک ہار کر بیٹھ جانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ان سب کے باوجود ملک میں ہمارے لیے روشن امکانات موجود ہیں ، ان کی صحیح پہچان اور برمحل استعمال ہی فلاح ونجات کا واحد راستہ ہے۔محض تشویش وتکلیف کا اظہارمخالفین کی بلند حوصلگی کا سبب تو ہوسکتاہے ؛مگرصورت حال کاواقعی حل نہیں بن سکتا۔حکمت کا تقاضا ہے کہ اس ابترماحول کو بہتر بنانے کے راستے ڈھونڈے جائیں اور ان کی بھرپور نشان دہی کی جائے ؛ تاکہ ملک کے امن پسندوانصاف پرورافرادکے لیے روشنی کی کرن نمودارہو اور راہ عمل فراہم ہو سکے ۔اسی غرض سے ان پرآشوب حالات میں اسلامیان ہند کے تابناک مستقبل کے لئے اپنی ناقص فہم اور بڑوں کے قیمتی تجربات کی روشنی میں چندضروی معروضات اور کرنے کے اہم کام پیش کرنے کی جسارت کررہاہوں، اس امید کے ساتھ کہ 

شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے 

یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

پہلاکام :

ان حالات میں سب سے پہلے ہمیں انابت اور رجوع الیٰ اللہ کی ضرورت ہے ؛ کیوں کہ ہم مسلمانوں پر جو نامساعد حالات آتے ہیں ان میں ہماری بے راہ روی اور خدا کی نافرمانی کو بڑا دخل ہے ، ارشاد ربانی ہے :اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں سے پہنچتی ہے اور بہت سے تو اللہ درگزر ہی کردیتا ہے ۔“ (الشوری)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے دو امانیں مجھ پر نازل فرمائیں۔ (سورہ ¿ انفال میں ارشا فرمایا گیاکہ) اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ تم ان کے درمیان موجود ہو اور ان پر عذاب نازل کردے اور اللہ انھیں عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا جب کہ وہ استغفار کرتے ہوں گے ، معافی اور مغفرت کے طلبگار ہوتے ہوں گے ۔آپ ﷺ نے فرمایا: پھر جب میں گزر جاؤں گا تو قیامت تک کے لیے تمھارے درمیان استغفار کو (بطور امان) چھوڑ جاؤں گا۔ (ترمذی)

آج توبہ و استغفار اور رجوع الی اللہ کی یہ تحریک ہی ہمیں مسائل کے دلدل سے نکال سکتی ہے ؛ اس لیے ہمیں اپنے احتساب اور اجتماعی کے ساتھ ساتھ انفرادی گناہوں سے بھی توبہ کی ضرورت ہے ۔

دوسراکام :

آج دنیا بھر میں عموماً اور ہندوستان میں خصوصاً مسلمان جن مصائب اور آفات کا شکار ہیں ان کا سب سے بڑا سبب آپس کا تفرقہ اور خانہ جنگی ہے ورنہ عددی کثرت اور مادی اسباب و وسائل کے اعتبارسے مسلمانوں کو سابقہ ادوار میں ایسی طاقت حاصل نہ تھی جیسی آج حاصل ہے ۔ اگر آج امتِ مسلمہ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ امت واحدہ کے بجائے ایک منتشر ہجوم نظر آتی ہے ؛جس میں دور دور تک کسی اتحاد کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے مخالف ماحول میں اپنے آپ کوحالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا ہمارے شعور ایمانی کے خلاف ہے ؛بل کہ ہم سنجیدگی،معروضیت اورحساسیت کے ساتھ اپنی سیاسی غرض مندیوں سے اوپراٹھ کر ملی فکرمندی کا ثبوت دیں،ہم ٹکڑیوں میں بٹنے کی بجاے کم ازکم اپنے اوپر آنے والی اجتماعی آفت سے نمٹنے کے لیے متحد ہوجائیں۔

مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ ارقام فرماتے ہیں کہ اتحاد امت کا مطلب تمام مذاہب ومسالک کا ادغام یا تمام مذاہب ومسالک سے مشترکہ چیزوں کو لے کر نیا مذہب بنانا نہیں ہے ؛ بلکہ اتحاد امت کا مطلب اپنے مسلک ومذہب پر عامل رہتے ہوئے دوسرے مسلک ومذہب والوں کا احترام اور فروعی مسائل کو نزاعی بنانے سے اجتناب ہے ؛ اسی طرح اختلاف رائے سے مراد وہ اختلاف وافتراق ہے جو امت اجابت کے درمیان ہے ،امت دعوت یعنی غیر مسلموں سے اتحاد مراد نہیں ہے ۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مسلمان ایک امت ہیں، ان کے اتحاد کی بنیاد کلمہ ، قبلہ، کتاب اور رسول کا ایک ہونا ہے ،ان کے علاوہ عقیدہ ¿ آخرت ،دخول جنت وجہنم، نماز ، روزہ، حج وزکوٰة کی فرضیت ، جہاد اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی مشروعیت میں سبھی متحد ومتفق ہیں؛ اس لیے مسلمان ایک امت ہیں؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو دو آسمانی مذاہب کے ماننے والے یہودی اور نصرانی تک کو بعض امور مشترکہ کی وجہ سے ایک امت کہہ کر ان کے خلجان اور خدشات کو دور کیا ،جس کا حاصل یہ ہے کہ جو دین اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا اور انبیاءسابقین جس دین کے حامل رہے ، وہ ایک ہی دین، دین توحید ہے اور جس ملت کے داعی رہے وہ ملت اسلام ہے ، لوگوں نے پھوٹ ڈال کر اصل دین کو پارہ پارہ کر دیا اور الگ الگ راہیں نکال لیں، نفسانی خواہشات اور اتباع ہویٰ کی وجہ سے لوگ فرقوں اور ٹکڑوںمیںبٹ گیے اور ہر فرقہ اپنے کو اچھا اور دوسرے کو گھٹیا اور ذلیل سمجھنے لگا ، رسولوںکی واضح ہدایات کو پس وپشت ڈال کر دین کو بازیچہ ¿ اطفال بنادیا اور اپنے عقائد وخیالات کو اصل دین کی جگہ دے کرہر گروہ مسرور وشادماں اور اپنی غفلت ، ضلالت اور جہالت کے نشے میں سرشار ہے ۔

تیسراکام :

اس وقت مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزماحول اورفرقہ وارانہ ذہن بناکردشمنی وعداوت کی جو کھائیاں پیداکی جارہی ہیں انھیں پاٹ کر برادران وطن تک محبت وانسانیت کا پیغام پہنچانے کی ضرورت ہے ، بہ حیثیت ”خیرامت“ ہماری دینی ذمہ داری ہے کہ ہم برادران وطن سے اپنے فاصلے کم کریں، خواہ وہ آر ایس ایس اور شدت پسند ہندو تنظیموں کے کارکنان کیوں نہ ہوں، ہم ایک مستقل لائحہ عمل کے ساتھ ان سے ملیں، بہ راہ راست ایک ایک فرد تک پہنچنے کی کوشش کریں، یہ ہمارا کتنا بڑا اجتماعی جرم ہے کہ کائنات کی سب سے بڑی صداقت ”اسلام“ جس کے ہم امین ہیں، ملک کی اکثریت تک اسے پہنچانے کے حوالے سے اب تک ہم کوئی لائحہ عمل بھی تیار نہ کرسکے ۔

معروف دانشوروادیب پروفیسر محسن عثمانی لکھتے ہیں کہ‘‘غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا مطلب مداہنت نہیں ہے یعنی ہمیں دین وایمان کے کسی جز سے دستبردار ہونے کی ضرورت نہیں؛ لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ظلم وستم کی دلدوز تاریخ کے باوجود ملک کے خمیر مبں شرافت اور روحانیت کا جز بھی موجود ہے خاکستر میں دبی ہوئی اس چنگاری کو شرارہ بنانے کی ضرورت ہے اس کے لئے ہمیں متصوفانہ نرمی فراخ دلی وسعت نظری اور توسع اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی خدمت خلق اور خدمت انسانیت کو اپنا شعار بنا نا ہوگا اور ضرورت پیش آجائے تو عارضی طور پرمستقبل کے بڑے فائدہ کے لئے اور حقوق کی بازیابی کے لئے اپنے کسی جائز حق سے بھی دست بردار ی اختیار کی جاسکتی ہے ۔ یہ حلال کو حرام کرنا نہیں ہے بلکہ حکمت عملی ہے ، اور اعتماد کی بحالی اور خلیج کو پاٹنے کی ایک کوشش ہے ۔’’

چوتھاکام :

ہرذی شعور وصاحب ادراک اس بات سے ضرور اتفاق کرے گاکہ قوموں کی صلاح و فسادمیں تعلیم و خواندگی کا بڑا دخل ہے ،تعلیم ہی انسان کو انسان بناتی ہے اور زیورِ تہذیب و تمدن سے آراستہ کرتی ہے ، جو قومیں تعلیم میں پیچھے رہ جاتی ہیں وہ اقوام عالم میں اپنا مقام نہیں بنا پاتیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مسلم اور عرب علماءنے سائنس اور طب کے میدانوں میں وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے جسے آج بھی مغربی دنیا اپنی ارتقائی کوششوں کے باوجود فراموش نہیں کرسکی اور نہ آئندہ کرسکتی ہے ۔ 

ہندوستان کے موجودہ حالات میں ملک دشمن عناصر کا جواب دینے کے لئے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری اور دینی شعور کا پیدا ہونابھی نہایت ضروری ہے؛ اس لئے کہ تعلیم ایک خاموش انقلاب کا ذریعہ اور زبردست ارتقاءکا وسیلہ ہے ، اس کے لیے زبانی جمع خرچ یا جلسہ اور کانفرنس کی ضرورت نہیں ؛بلکہ مقامی مسلم آبادی کو متحرک کیا جائے اور انہیں تعلیم و تربیت کی اہمیت بتائی جائے تو یقیناً اتنے وسائل مہیا کئے جاسکتے ہیں جن سے مقامی سکول و کالج کوچلایا جاسکے ، البتہ اس اسکول کا نصاب مغربی تعلیم کا چربہ نہ ہو، بلکہ یہ نصاب اسلامی نظریہ ¿ علم اوراسلامی کلچرپر مبنی ہو،ان اسکولوں میں مسلم طلبہ کو نہ صرف صحیح خطوط پر تعلیم دی جائے بلکہ ان کی تربیت بھی کی جائے ،یعنی تعمیر سیرت اور کردار سازی اس کا لازمی حصہ اور نتیجہ ہو، اس سے بڑی تعداد میں ایسے افراد تیار ہونا شروع ہوجائیں گے جو قوم وطن کے سچے ہمدرد اور بہی خواہ ہونگے ،ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے مثبت کردار ادا کریں گے ، جوخود اپنی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والے ہوں گے اوراپنے عمل و کردار سے دوسروں کے لئے راہ عمل متعین کریں گے اس طرح سے تعمیر ملک و ملت کی فضا ہموار ہوگی۔

پانچواں کام :

  ہمارے زوال کے اسباب میں سے ایک بڑا اور اہم سبب خود احتسابی و خود شناسی سے دوری اورمنظم منصوبہ بندی کی کمی ہے ۔خود احتسابی دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے؛کیونکہ انسان اپنی فطرت کے مطابق خود کو خامیوں سے پاک سمجھتے ہوئے تمام غلطیوں کا ذمے دار دوسروں کو ٹھہراتا ہے ۔ خود کو جانچنا، اپنی غلطیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کر کے ان کی اصلاح کرنا اور اپنے ہر عمل کا خود حساب رکھنا ”خود احتسابی“ کہلاتاہے ۔من حیث القوم اس عمل کی اہمیت دوچندہوجاتی ہے ،خاص کرحالات حاضرہ میں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اپنی خطاؤں کا تجزیہ کریں ،کمیوں کو دور کرنے کی فکر کریں اور مستقبل بینی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے لئے مناسب لائحہ عمل تیار کریں!

اسی طرح کسی کام کو کرنے سے پہلے اس کا پروگرام بنانا، اہداف و مقاصد طے کرنے کے ساتھ طریقہ کار اور وسائل متعین کرنا، اس کے فوائد و نقصانات سے واقفیت و معرفت، کام کو آسان، محکم اور کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پلاننگ و منصوبہ بندی کی ہر میدان میں بڑی اہمیت ہے ، خواہ وہ سیاسی ہو یا اقتصادی، علمی ہو یا عملی، دینی ہو یا دنیاوی ، انتظامی ہو یا دعوتی۔

مختصر یہ کہ حکومت وقت کے تئیں لاحاصل تبصروں،بے جاتذکروں اور بے محل مشوروں سے کئی گنا بہتر اپنی غلطیوں کا تدارک اور خامیوں کی اصلاح ہے ۔جس دن ہماری قوم اور اس کے قائدین گفتار کے بجائے کردار کے غازی بن جائیں گے، ہراقدام سے پہلے خوداحتسابی اورمنصوبہ بندی کواپناآئین بنالیں گے اوراجتماعی وملی مفادات کے لئے بے غرض ہوکراپنی خدمات انجام دیں گے اس دن حقوق کی بازیابی کے لئے نہ کسی مہم کی ضرورت ہوگی نہ کانفرنس کی ۔

اخیر میں اقبال مرحوم کی اس دعاءپر قلم روکتاہوں !

یا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے 

جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے 

بے لوث محبت ہو ، بے باک صداقت ہو

سینوں میں اجالا کر، دل صورت مینا دے 

احساس عنایت کر آثار مصیبت کا

امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دے 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں