احساس نایاب
دورحاضر امت مسلمہ جن خوفناک حالات سے جوج رہی ہے وہ کم نہ تھے کہ آج اُس کے اپنے ہی اُس کی بربادی کے ذمہ دار بن چکے ہیں کبھی ہیرا گروپ کی عالمہ نوہیرا شیخ کی شکل میں تو کبھی آئی ایم اے کے سربراہ منصور خان اور اُن کی تائید کرنے والے نام نہاد رہنماؤں کی شکل میں ….
ایک وقت تھا جب مسلمان ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں برابر کے شریک رہا کرتے تھے ایک دوسرے کے زخمون پہ مرہم لگایا کرتے تھے آج وہی نمک چھڑکنے کا کام کررہے ہیں ایسے میں سمجھ نہیں آرہا کہ انسانیت, اپنائیت, محبت, خلوص نامی احساسات کہاں گُم ہوچکے ہیں نہ کسی کو کسی کے درد کی کوئی پرواہ ہے نہ ہی کسی کو کسی کی تکلیف کا احساس , بس جدھر دیکھو نفسا نفسی کا عالم عروج پہ ہے, سنا اور پڑھا تھا کہ میدان محشر میں نفسا نفسی کا عالم ہوگا لیکن آج تو دنیا ہی میں یہ حال ہے تو محشر کا عالم ناجانے کیا ہوگا، ایسے میں مسلمان یقین کریں بھی تو کس پہ کریں جبکہ خود رہنماء و قائدین کہلانے والے بھی مفاد پرست ہوچکے ہیں جو وقت اور حالات کے مطابق گرگٹ کی طرح اپنے رنگ بدلنے کا ہنر رکھتے ہیں
اور ان حالات کو دیکھتے ہوئے علامہ اقبال کا شعر یاد آرہا ہے
میرا اُس شہر عداوت میں بسیرا ہے
جہاں لوگ سجدوں میں بھی اپنوں کا برا سوچتے ہیں ….
اور اس خود غرض وہ منافقت بھرے ماحول میں اُمت مسلمہ کا درد بس خدا ہی جانیں کہ وہ کس حال میں ہیں کیونکہ انہونے اپنوں پر ہی اعتبار کرکے اپنے زوال کی راہ اختیار کرلی،
جی ہاں جہاں ایک طرف مسلمان آئے دن ناگہانی آفات سے دوچار ہو رہے ہیں وہیں دوسری طرف دشمنان اسلام کی سازشوں کے جال میں پھنس کر اپنی جان مال آبرو گنوارہے ہیں , ایسے میں جو اپنے ہیں وہ تو غیروں سے بھی بدتر ہوچکے ہیں۔
یا یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ
دشمن تو دشمن ہیں ان سے گلا کیسا، شکایت کیسی
یہاں تو میرے اپنے ہی منتظر ہیں میرے زوال کے …….
وہ اپنے جنہیں ہم اپنا بھائی قوم کا فرد مان کر یقین کرتے ہیں وہی فریبی بن کر دغا دے جاتے ہیں جیسے حال ہی میں ریاست کرناٹک کے شہر بنگلور کی آئی ایم اے نامی اسلامک کمپنی اپنے لاکھوں مسلم و غیرمسلم انویسٹرس کا کروڑوں کا سرمایہ ہڑپ کر فرار ہوچکی ہے جس کی وجہ سے پل بھر میں قوم کا کڑوڑوں کا سرمایہ ڈوب چکا ہے اور سرمایہ دار اتنے پریشان ہیں کہ اُن کی راتوں کی نیند، دن کا چین سب کچھ غارت ہوچکا ہے , کئیوں کے گھروں میں چولہے نہیں جلے, لوگ بھوکے پیاسے سڑکوں پہ آچکے ہیں، کئیوں کی ازدواجی زندگیاں متاثر ہورہی ہیں اور اللہ نہ کریں کہ یہ معملات طلاق تک پہنچ جائیں کیونکہ کئی خواتین گھریلو تنگی کے مدنظر اپنا سونا گروی رکھ کر لاکھوں کا پیسہ آئی ایم اے میں اینویسٹ کرچکی ہیں تو کئی بزرگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی بھی یہاں پہ لگی ہوئی ہے جو پلک جھپکتے اوجھل ہوچکی ہے، جس امید کے سہارے زندگی بسر ہورہی تھی، وہ تمام امیدیں سارے خواب ٹوٹ کر بکھر چکے ہیں، نا جانے کتنوں نے اپنی بہن بیٹیوں کی شادیوں کے لئے جمع کی ہوئی رقم , بچوں کی پڑھائ کا پیسہ اور اپنی جائیداد وغیرہ بیچ باچ کر کروڑوں کا پیسہ یہاں پر انویسٹ کیا تھا اس یقین کے ساتھ کہ یہ حلال تجارت ہے جس کا سارا ٹرانسیکشن لین دین شرعی اصولوں سے کیا جارہا ہے لیکن افسوس کے اس حلال آمدنی کے چکر نے قوم کو ہی حلال کردیا ……
اور ان تمام حالات کے ذمہ دار آئی ایم اے کے ڈائریکٹر منصور خان کے ساتھ ساتھ ہمارے چند اہل علم حضرات بھی ہیں جنہونے کئی بار اپنے بیانات, تقاریر میں آئی ایم اے کی تائید کرتے ہوئے اس کی تجارت کو جائز قرار دیا تھا …….
لیکن افسوس آج ان مشکل حالات میں یقین دلانے والے جائز و حلال کا فتوی دینے والے سبھی خود اپنی ہی بات سے مکرتے ہوئے پلہ جھاڑ رہے ہیں ، اور سرمایہ داروں کے سوال پوچھنے پر ایک بڑا طبقہ اہل علم حضرات کی دفاع میں یلغار بول چکا ہے جو سرمایہ داروں کو ہی موردالزم ٹہراتے ہوئے اُنکے خلاف سوشیل میڈیا پہ لالچی، نکمے جیسے بےتکھے کمنٹ پاس کرتے ہوئے ان کا مذاق اڑا رہے ہیں، ان کی اس طرح کی حرکتیں مستقبل میں اہل علم حضرات کے لئے انتہائی شرمندگی کا باعث بن سکتی ہیں ……
کیونکہ جو پہلے سے اپنا سب کچھ لٹاکر اپنے دونوں ہاتھ جلائے پریشان حال ہیں ایسوں پہ اس طرح کے طنز کسنا اُن کا مذاق بنانا انتہائی گھٹیا سوچ کی علامت ہے جو کسی بھی باشعور انسان پہ زیب نہیں دیتی، اور ان سب کے چلتے ایک عام مسلمان کئی سوالات اٹھانے پہ مجبور ہوچکا ہے کہ ایک وقت جو جو اہل علم حضرات منصور خان کو اپنا دوست، عزیز، قریبی، بھائی کہتے نہیں تھک رہے تھے تو آج اس افواہ، حقیقت یا فریب جو بھی ہو اس پہ کیوں خاموش ہیں ؟ یا آپ سبھی کو سانپ سونگھ چکا ہے ؟
اور کیوں آج ہر کوئی اس گھپلے کی ذمہ داری ایک دوسرے کے سر مڑھنے میں لگے ہیں , جبکہ چند روز قبل منصور خان کی شان میں قصیدے پڑھے جارہے تھے، دوستی جتاتے ہوئے اُن کے ساتھ تصاویر کھنچوائی جارہی تھیں, جلسوں و تقاریب میں اُن کی کامیابی کے لئے دعائیں کی جارہی تھیں، اُنہیں قوم کا قیمتی سرمایہ کہا جارہا تھا آج وہ تمام دوست احباب کہاں غائب ہوچکے ہیں کیا انہیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا ہے ؟ یا منصور خان لاوارث تھے جو آج اُن کی گمشدگی اور خودکشی کی خبر سامنے آنے کے بعد بھی اُن کا کوئی اپنا آگے نہیں آرہا ؟
اور قوم کو جاننا ہے کہ ہمارے قابل احترام اہل علم حضرات اتنے طویل عرصے تک کس بنا پہ آئی ایم اے کی تائید کرتے رہے ؟
کیا آپ حضرات کی زبان پہ آپ کے فتوی پہ آپ کی شخصیات پہ اعتبار کرنا عام مسلمان کی بیوقوفی تھی ؟ یا حلال آمدنی کی چاہت کرنا سرمایہ داروں کا گناہ تھا ؟ جو آج انہیں در در کی ٹھوکریں کھانی پڑرہی ہیں اور اگر یہ گنہگار ہیں تو یہ بھی بتادیں کہ نیک کون ہیں ؟
بینکس وغیرہ میں سودی کاروبار کرنے والے یا وہ فراڈ بھگوڑے جو بھولی بھالی قوم کو لوٹ کر مدارسوں کو لاکھوں، کروڑوں کا چندہ دیتے ہیں, اپنے رسوخ کے بل بوتے جھوٹے فتوی خرید رہے ہیں وہ، ایسا لگ رہا ہے مانو ہر شعبہ ہر طبقہ اپنی اپنی دکان چلانے میں لگا ہے کوئی عقل کے کے زور پر کوئی ہاتھ کہ بل پہ تو کوئی زبان کے زور پہ، ایسے میں یہاں پہ لالچی کون ہیں ؟ خون پسینے کا پیسہ لگاکر لٹنے والے یا سفید پوش سیاستدان اور تاجر جو اپنے مفاد کے لئے اہل علم حضرات کا استعمال کرتے ہوئے شریعت کو بھی توڑ مروڑ کر قوم کو پھانستے ہوئے جالسازی کا بازار گرماتے ہیں اور دوسروں کو پریشان کر خود راتوں رات غائب ہوجاتے ہیں۔
آج ہمیں ترس آرہا ہے اُن بیچاروں پہ جو اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی گنوا کر بھی گنہگار لالچی کہلاتے ہوئے بھوکے پیاسے پولس کی لاٹھیاں کھارہے ہیں اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوسکتی ہے ان پہ کہ اپنے ہاتھوں سے اپنا پیسہ دے کر حق مانگنے پہ دھتکارے جارہے ہیں ……
خیر ہر عام و خواص سے ہماری گزارش ہے اگر ان مشکل حالات میں اُن کا ساتھ نہیں دے سکتے اُن کے درد کا مداوا نہیں کرسکتے تو خدا کے لئے اُن پہ طنز کے نشتر بھی نہ چلائیں ورنہ اللہ نہ کریں مظلوم کی ہائے کس شکل میں پلٹ آجائے پھر نہ کوئی دعا کام آئے گی نہ ہی کوئی کفارہ ؛ اور یاد رہے انسان کو اپنا سب کچھ چھین جانے کا اتنا درد نہیں ہوتا جتنا اپنوں کے رویوں کا ہوتا ہے۔
بہرحال دوسرا دن گذرنے کے ساتھ ساتھ دو تسلی بخش خبریں سامنے آئی ہیں کہ چند مسلم قائدین نے آگے بڑھ کر اس مسئلے کو سلجھانے سرمایہ داروں کو انصاف دلانے میں پہل کی ہے۔
دوسری خبر سوشیل میڈیا پہ ایک نئی آڈیو گشت کھارہی ہے جس میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ منصور خان کی آواز ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ انہونے خودکشی نہیں کی نہ ہی وہ کہیں فرار ہوئے ہیں بلکہ وہ صحیح سلامت ہیں بینگلور ہی میں ہیں اور بہت جلد اپنے لوٹنے اور لوگوں کا پیسہ لوٹانے کا یقین دلارہے ہیں ……
ویسے اس سے قبل بھی منصور خان کے نام اُن کی آواز میں ایک آڈیو وائرل کی گئی تھی جو فیک ثابت ہوئی، اللہ کریں یہ آڈیو فیک نہ ہو اور بہت جلد حقیقی حقداروں کا پیسہ اُن تک پہنچ جائے ۔ آمین
لیکن اس بیچ اس بات کا افسوس ضرور رہے گا کہ انبیاء کے وارثوں نے سخت ترین حالات میں امت مسلمہ کو لاوارث کردیا ……..
اُن کی اور سے نہ کوئی اطمینان بخش بیان سامنے آیا ہے نہ ہی دلاسہ دیتے ہوئے کسی طرح کی امید دلائی گئی ……