چودھری آفتاب احمد
اقتصادی طور پر ہمارے ملک کو اس وقت بحران کا سامنا ہے،ملک کے اندر اقتصادیات کی رفتار سست ہوئی ہے،اقتصادیات کی رفتار سست ہونے سے بے روزگاری بڑھی ہے،بے روزگاری بڑھنے سے بحران گہرا گیا ہے،کمپنیوں کی اندرونی حالت مقروض ہوتی جا رہی ہے،قرضوں سے بچنے کے لئے کمپنیوں نے ملازمین کی چھٹنی پر کام شروع کردیا ہے،جہاں پڑھے لکھے نوجوانوں کو ہنر کے مطابق روزگار ملنا چاہئے تھا،وہاں بے روزگاری نے پیر پسار لئے ہیں،یہ بہت ہی دکھ کا عالم ہے،ایسے میں کمپنی مالکان بھی کیا کرسکتے ہیں؟وہ خود اقتصادیات کے بحران میں پھنس کے رہ گئے ہیں،
جہاں ہمارے ملک کو اندرونی اقتصادیات کے بحران کا سامنا ہے،وہیں عالمی سطح پرہمیںچیلنجز سے دوچار ہونا پڑرہا ہے،امریکہ نے ہندوستان کی مصنوعات پر ٹیکس لگانے کی دھمکی دی ہے،اندرونی حالت خراب ہونے کے سبب عالمی بازار میں ہم ٹک نہیں پا رہے ہیں،بےنکوں کا پیسہ بڑے تاجروں کے پاس ڈوب رہا ہے،کئی بڑے تاجر دین داری سے بچنے کےلئے ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے ہیں،حالانکہ حکومت نے انھیں لانے کا عوام سے وعدہ کیا تھا،مگر وہ اس میں ناکام ہوئی ہے،اور ان سے پیسہ وصولنے میں کامیابی نہیں مل پارہی ہے،
ملک کے اندر اقتصادی بحران گزشتہ تین سال پہلے شروع ہوا تھا،شروع میں اس کی رفتار سست رہی،اور بعد میںیہ گہراتا چلاگیا،حکومت ترقی کی شرح سات فیصد سے زیادہ بتا رہی ہے،جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے،حکومت کے دعوے اس کی تصدیق نہیں کرتے،کیونکہ ترقی کی شرح کے اعدادو شمار صرف منظم سیکٹر کی بنیاد پر جمع کئے جاتے ہیں،یہ ترقی کی شرح کو جانچنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے،غیر منظم سیکٹر کی بگڑتی صورت حال نے ترقی کی شرح کو حقیقی لائن سے نیچے پہنچادیا ہے،اور یہ سب کچھ گزشتہ تین سال میں ہوا ہے،
ہندوستان کے ماہر اقتصادیات اور حکومت ہند کے سابق مشیر اعلیٰ برائے اقتصادی اموراروند سبرامنین نے حکومت کے دعو¿وں کی پول کھول کے رکھدی ہے،اروند سبرامنین نے گزشتہ دنوں ترقی کی شرح سے متعلق بیان دیتے ہوئے بتایا ہے،کہ حکومت کے یہ دعوے کہ ملک میں ترقی کی شرح ساڑھے سات فیصد بڑھی ہے،غلط ہے،حکومت نے حقیقت کو چھپاکر غلط شرح کی تشریح کی ہے،انھوں نے کہا ہے،کہ حقیقت میں ملک میں گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ترقی کی شرح میں گراوٹ آئی ہے،اور یہ ساڑھے سات فیصد سے کافی نیچے ساڑھے چار فیصد پر آگئی ہے،ترقی کی شرح کی سست رفتاری بے روزگاری کی علامت ہے،
نوٹ بندی نے عام آدمی کی کمر توڈدی تھی ،اس کے بعد جی ایس ٹی نے چھوٹے کاروباریوں کو نقصان پہنچایا،نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے عام کاروبار متاثر ہوا،بظاہر ایسا ہونے سے ترقی کی رفتار میں سست روی کا آنا لازمی تھا،میانہ اور چھوٹے کاروباریوں کو اس سے بڑا نقصان پہنچا،جب میانہ اور چھوٹا کاروباری متاثر ہوا،تو ظاہر بات ہے،اس سے بڑی کمپنیوں پر بھی اثر پڑنا تھا،اور ایسا ہی ہوا،آج بڑی کمپنیاں اپنے ملازین کو نوکریوں سے ہٹانے پر مجبور ہو رہی ہیں،ایسے حالات کیوں بنے اس کی ذمہ داری کوئی نہیں لے رہا ہے؟ بڑی کمپنیوں کا کاروبار میانہ اور چھوٹے کاروباریوں پر انحصار کرتا ہے،جب میانہ اور چھوٹے کاروباریوں کی ہی کمر ٹوٹ گئی،تو بڑی کمپنیوں کو بے ساکھی کہاں سے ملے؟
ملک کی اندرونی اقتصادی حالت کا ہمیں معلوم ہو ہی گیا ہے،ملک کی معیشت ڈانواں ڈول ہے،یہ بھی ہمیں پتہ چل گیا ہے،ہر طرف مندی کا عالم ہے،خرچوں میں کٹوتی کرنے سے بھی کام نہیں چل رہا ہے،درآمدات اور برآمدات کے تاجر دونوں داخلی اور بے رونی صورتوں کو لے کر پریشان ہیں،ملک کے اندر مانگ نہیں ہے،اور بے رون ممالک ہندوستان کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے،چین نے اپنے کاروبار کو توسیع دی ہے ،اور اس کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے،چین کے مال کی کوالٹی ہندوستانی مال کی کوالٹی سے کہیں بہتر ہے،اور قیمت کے معاملہ میں ہم اس سے مقابلہ نہیں کر سکتے،
ادھر امریکہ نے ہندوستان کی مصنوعات پر ٹیکس بڑھانے کی دھمکی دی ہے،اور دوسری جانب اپنی مصنوعات کو ہندوستان میں فروخت کرنے پر ٹیکس میں چھوٹ کی مانگ کی ہے،ایسے حالات میں ہمارے ملک ہندوستان کے سامنے بحران مذیدگہرا گیا ہے،بین الاقوامی بازار میں ہمیں دوسرے ممالک سے چیلنج کا سامنا ہے،جبکہ اندرونی حالات بھی بہتر نہیں ہیں،ہر طرف افلاس نظر آرہی ہے،
انٹر نیشنل کمپنیاں ہمارے ملک میں مینوفیکچرنگ یونٹ لگانے کو تیار نہیں ہےں،اور نہ ہی بازار میں کھلے طور پر کاروبار کرنے کو راضی ہیں،حالانکہ ملک کے وزیر اعظم نے بیرونی ممالک کے خوب دورے کئے ہیں،لوگوں کو ان کے دوروں سے امید تھی،کہ وزیر اعظم باہر کی کمپنیوں کو ہندوستان میں مدعو کریں گے،باہر کی کمپنیاں ملک کے اندر مینوفیکچرنگ یونٹیں لگائیں گی ،اس سے حکومت کو ٹیکس کی وصولی سے فائدہ ہوگا،اور عام آدمی کی روزگار سے وابستگی ہوگی،مگر ملک کے حالات شدت پسندی کی وجہ سے باہر تک بدنام ہوگئے ہیں،کب تخریب کاری شروع ہوجائے اسی خدشہ کے پیش نظر بےرونی کمپنیاں ہندوستان میں آنے کو تیار ہی نہیں ہیں،یہ ملک کے لئے ایک المیہ ہے،
باہر کی تاجر برادری کو ہندوستان میں کاروبار کرنے میں دقت اس لئے ہے،کہ شدت پسندوں کا تعلق برسراقتدار پارٹی سے ہے،یعنی انھیں برسراقتدار پارٹی کی پشت پناہی حاصل ہے،اس لئے وہ لوگ جھمیلوں میں پڑنا نہیں چاہتے ہیں،اور ہندوستان میں آنے کو تیار نہیں ہیں،
کمپنیوں میں انویسٹرس بھی پیسہ لگانے کو تیار نہیں ہورہے ہیں،اگر این آر آئی یا ملک کے اندر کے انویسٹرس کمپنیوں میں پیسہ انویسٹ کریں تو کسی حد تک راحت پائی جاسکتی ہے،مگر مندی اور ترقی کی سست رفتاری ان کو پیسہ انویسٹ کرنے سے روک رہی ہے،کچھ کمپنیاں بکنے کے لئے تیار ہیں ،لیکن ان کو خریدار نہیں مل رہے ہیں،نئی حکومت نے وزیر خزانہ کو بدل دیا ہے،نئے وزیر خزانہ لوگوں کی امید ہیں،گرتی معیشت کو سنبھالنا اب ان کی ذمہ داری ہے،حالانکہ وزیر خزانہ ماہر اقتصادیات نہیں ہیں،لیکن ان کے علاوہ امید کس سے کی جا سکتی ہے؟