اجودھیابم دھماکہ معاملہ میں نچلی عدالت سے چار ملزمین کو عمر قیدکی سزا، ایک ملزم باعزت بری

جمعیةعلماءہند اس فیصلہ کو الہ آبادہائی کورٹ میں چیلنج کرے گی: مولانا ارشدمدنی
نئی دہلی(پریس ریلیزملت ٹائمز)
14 سال کے طویل انتظار کے بعدآج الہ آباد کی ایک خصوصی عدالت نے اجودھیابم دھماکہ معاملہ میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے پانچ میں سے چار ملزمین کوجہاں عمر قید کی سزا دی وہیں ناکافی ثبوت وشواہد کی بنیاد پر ایک ملزم کو باعزت بری کردیا۔واضح رہے کہ سال 2005 میں بابری مسجد رام جنم بھومی کامپلیکس پر رونما ہونے والے دہشت گردانہ حملہ میں متعددلوگ ہلاک ہوئے تھے جس میں تفتیشی ایجنسیوں کے مطابق جیش محمد نامی ممنوعہ تنظیم کے ارکان بھی شامل تھے۔ حملہ کے بعد تحقیقاتی دستوں نے متذکرہ پانچ ملزمین کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا۔اس معاملے میں کل 65 سرکاری گواہوں نے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے لیکن عدالت فیصلہ دینے میں تاخیر کررہی تھی جس کے خلاف جمعیةعلماءہندنے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیة علماءمہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے ممبئی میں اخبار نویسوںکو بتایا کہ خصوصی عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج دنیش چند نے آج دو پہر بعد سخت سیکوریٹی بندوبست میں اپنا فیصلہ پڑھ کر سنایا جس کے مطابق چار ملزمین ڈاکٹر محمد عرفان، محمد نسیم ،محمد آصف اور شکیل احمد کو تعزیرا ت ہند کی دفعات 302 کے تحت عمر قید کی سزا سنائی ہے جبکہ محمد عزیز محمد بشیر نامی شخص کو ناکافی ثبوت وشواہد کی بنیاد پر باعزت بری کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔انہوںنے مزیدبتایا کہ گذشتہ ساڑھے تین سالوں سے جمعیة علماءلیگل سیل ملزمین کے مقدمات کی پیروی کررہی تھی اور ملزمین کے دفاع میں ایڈوکیٹ شمش الحسن ، ایڈوکیٹ ایس صدیقی، ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ فرقان خان و دیگر کو مقرر کیا گیا تھا۔ آج بھی فیصلہ کے وقت متذکرہ وکلاءعدالت میں موجود تھے جنہوں نے عدالت سے ملزمین کو کم سے کم سزا دینے کی گذارش کی تھی ۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شروعاتی دنوں میں ملزمین نے مقدمہ اپنے طور پر لڑا تھا لیکن ڈاکٹر عرفان نے جیل سے حضرت مولانا سید ارشد مدنی کے نا م خطوط لکھ کر جمعیة علماءسے قانونی امداد طلب کی تھی چنانچہ صدرجمعیةعلماءہند مولانا سید ارشدمدنی نے ملزمین کو قانونی امداد فراہم کیاتھا ۔
صدرجمعیةعلماءہند مولانا سید ارشدمدنی نے اس فیصلہ پر اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ جمعیةعلماءہند اس فیصلہ کو الہ آبادہائی کورٹ میں جلدازجلد چیلنج کرے گی ان شاءاللہ ، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے جڑے بیش ترمعاملہ میں دیکھاگیا ہے کہ نچلی عدالتوں نے کچھ اسی طرح کے فیصلہ دیئے ہیں لیکن جب ان فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا گیا تو فاضل ججوں نے نہ صرف انہیں مستردکردیا بلکہ زیادہ ترلوگوں کو باعزت رہاکرنے کا فیصلہ بھی صادرکیا ، اس ضمن میں مولانا مدنی نے اکشردھام مندرحملہ مقدمہ کی مثال پیش کی جس میں نچلی عدالت نے تمام ثبوت وشواہد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملزمین کوسخت سزائیںدی تھیں جن میں پھانسی کی بھی سزاشامل تھی اور گجرات ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلہ پر مہرلگادی تھی لیکن جب یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچاتو ایجنسیوں اور پولس کے ذریعہ کھڑی کی گئی جھوٹ کی فلک بوس عمارت پل بھرمیں زمیں بوس ہوگئی ، عدالت نے تمام ملزمین کو باعزت بری کردیا اور بے قصورافرادکو غلط طریقہ سے اس معاملہ میں ماخوذکرنے پر گجرات پولس کی سخت سرزنش بھی کی ، انہوں نے کہا کہ اسے قانونی نظام کی خامی کہا جائے یا کچھ اور کہ اس معاملہ میں نچلی عدالت کا فیصلہ آنے میں ہی چودہ برس لگ گئے ، انہوں نے مزید کہا کہ عدالتوں پر ہمارااعتمادبہت مضبوط ہے اور ہم بارباریہ بات کہتے آئے ہیں کہ جو کام حکومتوں کوکرنا چاہئے تھا وہ ہمارے ملک کی عدالتیں کررہی ہیں لیکن اس طرح کے معاملوں میں جس سست رفتاری سے سماعت ہوتی ہے اس سے بے گناہوں کی زندگیاں تباہ وبربادہورہی ہیں، ہمارے لئے یہ بات نہ صرف انتہائی تشویش کا باعث ہے بلکہ اس سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی بھی ہورہی ہے ۔