صرف جہادکا لفظ استعمال کرنے پر کسی کودہشت گرد نہیں ٹھہرا یا جاسکتا۔ مہاراشٹرا کی ایک عدالت نے تین مسلمانوں کو رہاکیا

واقعہ سال 2015 کا ہے جب 25 ستمبر کو بقرعید کے دن گوشت پابندی معاملے میں مسجد کے باہر پولیس اہلکاروں پر حملے کے چلتے سلیم ملک (29)، شعیب خان (29) اور عبدالملک (24) پر دہشت گردانہ چارج لگایا گیا تھا۔
ممبئی، 19 جون(آئی این ایس انڈیا)
مہاراشٹر کی اکولا کورٹ نے کہا ہے کہ کسی شخص کی طرف سے ’جہاد‘ لفظ کا استعمال اس کے دہشت گرد ہونے کی بنیاد نہیں ہوسکتا۔دراصل کورٹ نے یہ بات اس معاملے کی سماعت کے دوران کہی جس معاملے میں پولیس اہلکاروں پر حملے کے بعد تین افراد پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔بتا دیں کہ واقعہ سال 2015 کا ہے جب 25 ستمبر کو بقرعید کے دن گوشت پابندی معاملے میں مسجد کے باہر پولیس اہلکاروں پر حملے کے چلتے سلیم ملک (29)، شعیب خان (29) اور عبدالملک (24) پر دہشت گردانہ چارج لگایا گیا تھا۔تینوں ملزم کو بری کرتے ہوئے اسپیشل جج شکار جادھو نے کہاکہ ڈکشنری کے مطابق جہاد لفظ کا مطلب اصل میں جدوجہد ہے۔جہاد ایک عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی کوشش یا جدوجہد ہے۔بی بی سی کے مطابق جہاد لفظ کا تیسرا معنی ایک اچھے معاشرے کی تعمیر کے لئے جدوجہد کرنے سے ہیں۔جہاد سے متعلق لفظ ہے- مہم، غلبہ انتظام، تحریک، کوشش اور جنگ ہیں۔لہٰذاملزمان نے صرف جہاد لفظ استعمال کیا تو انہیں دہشت گرد قرار دینا صحیح نہیں ہوگا۔کورٹ نے کہاکہ ایسا لگتا ہے کہ ملزم نمبر ایک (عبدالملک) نے گوکشی پر پابندی کے لئے حکومت اور کچھ ہندو تنظیموں کے خلاف مظاہرہ کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے جہاد کا لفظ استعمال کیا، مگر اسے جہاد کا لفظ استعمال کرنے کے لئے دہشت گرد قرار نہیں دیا جا سکتا۔عبدالملک کو رضاکارانہ طور پر پولیس اہلکاروں کو چوٹ پہنچانے کی وجہ سے تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی،چونکہ وہ 25 ستمبر، 2015 کی طرف سے جیل میں تھا لہذا تین سال سے زیادہ جیل میں گزارنے کے بعد اسے رہا کر دیا گیا۔بتا دیں کہ گواہی کے دوران پولیس اہلکاروں نے عبدالملک پر قتل کی کوشش کرنے کا الزام لگایا تھا۔