مُرسی ایک مردِ آہن تھے، ان سے طاغوت خوف کھاتا تھا

ڈاکٹر سلیم خان

مصر کے واحدمنتخبہ صدر محمد مُرسی نے قابلِ رشک زندگی گزاری اور کمال پامردی وعزیمت کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ا ان سعید روحوں کا رب کائنات کی جانب سے اس طرح خیر مقدم کیا جاتا ہے ‘‘ اے نفس مطمئن! اپنے رب کی طرف راضی برضا چل ۔ پس شامل ہوجا میرے بندوں میں او رداخل ہوجا میری جنت میں’’۔ یہ ہمارے دل آواز ہے کہ رب کائنات ہر دلعزیز محمد مُرسی کواس مقامِ بلند پر فائز فرمائے گا۔ ایسی عظیم ہستیوں کو ظالموں اور جابروں کے بالقابل ناکام و نامراد قرار دینا بہت بڑی بدبختی ہے۔ بظاہر ایسی جرأت کوئی نہیں کرتا لیکن یہ قصور اس وقت سرزد ہوجاتا ہےجب ہم بغیر غورو فکر کے کسی واٹس ایپ پیغام کوپھیلادیتے ہیں یا فیس بک پرکسی تحریر کو نادانستہ لائیک کردیتے ہیں ۔ اس کی تازہ مثال جنرل عبدالفتاح السیسی کی ماں ملیکہ تیتانی کے حوالے سے گردش کرنے والی وہ کہانی ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ ۱۹۵۱؁ میں یہودیوں نے ایک سازش کے تحت اس کو مصر میں روانہ کیا تاکہ اس کا بیٹا ۲۰۱۳؁ میں تحریک اسلامی کے قائد کو معزول کرکے اخوان پر پابندی لگا دےاور یہ اسرائیلی سازش ہو بہو کامیاب ہوگئی۔اس موقع پر ہم لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ السیسی تو ایک مہرہ ہے اس کی والدہ اگر یہودی نہیں ہوتی یا جوکوئی بھی اس کی جگہ ہوتاتو یہی کرتانیزجن کے اشارے پر یہ ظلم و جبر کا بازار گرم کیا گیا ہے ان کی کئی نسلوں میں بھی شاید کسی یہودی کا سراغ نہ ملے۔

  اس میں شک نہیں کہ مسلم ممالک کی سازش اور مغرب کی حمایت سے صدر مُرسی کا تختہ الٹ کر انہیں پابند سلاسل کیا گیا۔ اقتدار پر قابض ہوجانا ہی اگر سب سے بڑی کامیابی تھی تو اس کے بعد رمضان ِمقدس میں میدان رابعہ پر پرامن مظاہرین کو شہید کرنے ضرورت کیوں پیش آئی ؟ انہیں احتجاج کرنے دیا جاتا یہاں تک کہ وہ تھک کر لوٹ جاتے۔ اخوان پر پابندی کیوں لگائی گئی؟ وہ انتخاب لڑتے اور ناکام ہوجاتے ۔ان خود ساختہ کامیاب لوگوں نے اخوانی رہنماوں پر اوٹ پٹانگ الزامات لگا کر انہیں قید و بند کی صعوبت میں کیوں مبتلا کیا گیا؟ انہیں آزاد کردیا جاتا تاکہ عوام کے ذریعہ مسترد کردئیےجائیں ۔ مقدمہ کے دوران ان رہنماوں کو تمام قانونی و طبی سہولیات فراہم کرکے ان کا جرم ثابت کیا جاتا؟ جبر و ظلم کی بنیادپر اخوان کوپوری طرح کچل دینے کادعویٰ کرنے کے ۶ سال بعد ڈاکٹر محمد مُرسی کاجسدِ خاکی اہل خانہ کے حوالے کرکے تدفین کی اجازت دےدی جاتی ۔ حسنی مبارک کے انتقال پر یہی سب ہوگا لیکن مرحوم ومغفور محمد مُرسی کو اس سے محروم رکھنا ثابت کرتاہےکہ ظالم حکمراںاپنے سارے جاہ وجلال کے باوجوداب بھی خوفزدہ ہیں۔ اقتدار سے محرومی کے ڈر نے ہی انہیں صدر مُرسی کومذموم سازش کے ذریعہ معزول کرنے پر مجبور کیا تھا۔

 صدیوں پہلےسرزمین مصر پرمیخوں والے فرعون کے درباری بے یارو مددگار حضرت موسیٰ ؑ سےاسی طرح خوفزدہ تھے۔ارشاد ربانی ہے ‘‘فرعون سے اس کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسیٰ ؑ اور اس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فسادپھیلائیں ۔۰۰۰’’ موسیٰ ؑ سے درباریوں کا خوف اورالسیسی کے آقاوں کا ڈر یکساں ہے۔ قرآن حکیم میں فرعون کا جواب بھی ملاحطہ فرمائیں ‘‘ ایک روز فرعون اپنے درباریوں سے بولا چھوڑو مجھے میں اس موسیٰ ؑ کو قتل کیے دیتا ہوں اور پکاردیکھے یہ اپنے رب کو۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا اور زمین میں فساد برپا کرے گا’’۔معلوم ہوا دینِ باطل کو لاحق خطرات فرعون وقت کو قتل ناحق پر آمادہ کرتےہیں ۔اس کےجواب میں حضرت موسیٰٗ کااطمینان دیکھیں ‘‘ میں نے ہر متکبر کے مقابلے جو یوم الحساب پر ایمان نہیں رکھتا اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لے لی ہے’’۔ اس جواب میں ظلم کی وجوہات کبر اور انکار آخرت ہے۔ یہی چیز ظالموں کو اسلام دشمنی اور اللہ سے بغاوت پر آمادہ کرتی ہے اور وہ ڈرے سہمے اپنے انجام بد کی جانب گھسٹتے جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس اسلام کے علمبردار ہنستے اور مسکراتے اپنے مالک حقیقی کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں ۔ اس کیفیت کا فرق ہی کامیابی و ناکامی کی سچی کسوٹی ہے۔