محمد رضی الاسلام ندوی
” حلالہ جائز اور ایکٹنگ حرام؟ کیا ایسے ترقی کرے گا ہندوستان کا مسلمان ؟ ” یہ سوال کانگریس کے قومی ترجمان جناب ابھیشیک سنگھوی نے اپنے ایک ٹویٹ میں کیا ہے، اس کے ساتھ ‘ زائرہ وسیم ‘ کے ہیش ٹیگ سے ظاہر ہے کہ یہ سوال انھوں نے کشمیر کی نو عمر فلمی اداکارہ کے آئندہ فلموں میں کام نہ کرنے کے اعلان کے پس منظر میں کیا ہے _ حیرت ہوتی ہے کہ آزادئ نسواں کے یہ عَلَم بردار عورت کو اتنی بھی آزادی دینے کے روادار نہیں ہیں کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے کیا کرے ، کیا نہ کرے؟ لیکن اس وقت اس موضوع پر کچھ تبصرہ کرنے کے بجائے موصوف نے حلالہ کے بارے میں جو اظہارِ خیال کیا ہے اس پر ایک نظر ڈالنی مقصود ہے۔
یاد آتا ہے کہ تقریباً 15 برس قبل سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ کے ایک خریدار نے ، جو ہندوستانی فوج میں ملازم تھے ، مجھ سے مروّج اور منصوبہ بند حلالہ کے بارے میں سوال کیا تھا _ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی مسلمان اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ اس کے لیے حرام ہوجاتی ہے، ہاں اگر وہ ایک رات کے لیے اسے دوسرے مرد کے پاس بھیج دے تو دوبارہ وہ اس کے لیے حلال ہوجاتی ہے۔ یہ طریقہ غیر شریفانہ اور انتہائی گھناؤنا معلوم ہوتا ہے، انھوں نے لکھا تھا کہ ” ان کے ہندو ساتھی یہ اعتراض اٹھاتے ہیں ، جس کا ان سے کوئی معقول جواب نہیں بن پڑتا، براہ کرم اس کا ایسا جواب دیں جو شرعی نقطۂ نظر سے درست ہو اور عقلی طور پر بھی مطمئن کرنے والا ہو ۔ ” میں نے انھیں جو جواب دیا تھا اسے پاکر وہ بہت خوش ہوئے اور لکھا کہ میرے ہندو ساتھیوں نے بھی اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
میں نے انھیں لکھا تھا کہ اسلام نے طلاق کا جو طریقہ بتایا ہے وہ فطرت کے عین مطابق ہے اور اس میں مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے سہولت ہے۔ اسلام نے زوجین کے حقوق اور فرائض تفصیل سے بیان کیے ہیں اور حکم دیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں، لیکن عین ممکن ہے کہ دونوں میں فکری اور مزاجی ہم آہنگی نہ پائی جائے، اس صورت میں دونوں گُھٹ گُھٹ کر جییں ، اس سے بہتر اسلام اسے قرار دیتا ہے کہ دونوں الگ ہوجائیں اور دوسرا نکاح کرکے خوش گوار زندگی گزاریں، طلاق ایک فطری ضرورت ہے ، اسی وجہ سے جن مذاہب میں طلاق کا آپشن نہیں تھا وہ بھی اسے اپنے عائلی قوانین میں شامل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
علیٰحدگی کا یہ حق اسلام نے مرد کو بھی دیا ہے اور عورت کو بھی؛ عورت کے حقِ علیٰحدگی کو ‘ خلع ‘ اور مرد کے حق علیٰحدگی کو ‘ طلاق ‘ کہتے ہیں۔ (خلع کے احکام کی تفصیل کبھی آئندہ) اگر مرد عورت کو اپنی ازدواجی زندگی سے علیٰحدہ کرنے کا تہیہ کرلے تو اسلام بہتر قرار دیتا ہے کہ مرد صرف ایک طلاق دے ، وہ بھی عورت کی پاکی کی حالت میں ، جب کہ اس نے جنسی تعلق قائم نہ کیا ہو ، تین مہینے (M.C) عورت شوہر کے گھر ہی میں رہے ، تاکہ دونوں کو اپنے رویّوں پر غور کرنے کا خوب موقع مل سکے، اگر دونوں پھر میاں بیوی کی حیثیت سے رہنا چاہیں تو ٹھیک ہے ، نہ رہنا چاہیں تو دونوں آزاد ہیں ؛ آئندہ تھوڑے یا زیادہ عرصہ کے بعد دونوں کا ارادہ پھر میاں بیوی کی حیثیت سے رہنے کا ہوجائے تو اسلام اس میں رکاوٹ نہیں ڈالتا _ وہ اجازت دیتا ہے کہ دونوں کی مرضی سے ان کا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
اسلام یہ سہولت دو مرتبہ دیتا ہے (البقرۃ :229) ، وہ کہتا ہے کہ طلاق بچوں کا کھیل نہیں کہ مرد جب چاہے طلاق دے کر عورت کو علیٰحدہ کردے، پھر جب چاہے اسے اپنے نکاح میں لے آئے ، بلکہ یہ ایک بہت سنجیدہ اور انتہائی غور و خوض کے بعد انجام دیا جانے والا عمل ہے، وہ کہتا ہے کہ مرد اگر تیسری مرتبہ اپنی بیوی کو طلاق دے گا تو اس سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائے گا، یہ قانون اصلاً مرد کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا اور عورت کو آزادی دی گئی تھی کہ وہ اُس مرد کے علاوہ ، جو اسے تین مرتبہ طلاق دے چکا ہے ، دوسرے جس مرد سے چاہے نکاح کرلے۔
اگر مطلّقہ عورت نے کسی مرد سے نکاح کرلیا ، بعد میں اس مرد کا انتقال ہوگیا ، یا مزاجی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے اُس مرد نے بھی طلاق دے دی تو اسلام اس عورت کو حق دیتا ہے کہ وہ چاہے تو اپنا تیسرا نکاح کرسکتی ہے۔
اس صورت میں یہ قانون بنایا جا سکتا تھا کہ عورت کسی مرد سے بھی نکاح کرلے ، مگر وہ اپنے پہلے شوہر کے نکاح میں نہیں جا سکتی ، لیکن یہ اسلام کی رحمت ہے کہ اس نے عورت اور اس کے پہلے شوہر دونوں کو اس کی اجازت دی کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے از سرِ نو رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوسکتے ہیں۔
اسلام کی ان تعلیمات پر ، جو انسانی فطرت سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں ، عمل کیا جائے تو عمل کرنے والے بھی راحت محسوس کریں گے اور دوسرے انسانوں تک بھی اسلام کی تعلیمات صحیح طریقے سے پہنچیں گی _ لیکن پریشانی اس وقت ہوتی ہے جب مسلمان ان پر عمل نہیں کرتے اور من مانے طریقے اختیار کرتے ہیں ، چنانچہ خود دشواری کا سامنا کرتے ہیں اور اسلام کی بھی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔
اسلام نے وقتِ ضرورت صرف ایک طلاق دینے کا حکم دیا ہے _ طلاق دے کر رجوع کرنے کا موقع وہ دوبار فراہم کرتا ہے _ لیکن نادان مسلمان غصّے میں آپے سے باہر ہوکر ایک سانس میں تین طلاق دے دیتا ہے ، پھر جب غصّے کا نشہ ہِرن ہوتا ہے تو اسے اس کے علاوہ اور کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ منصوبہ بند طریقے سے کسی مرد سے اپنی مطلّقہ بیوی کا نکاح کرادے ، پھر ایک رات کے لیے اس کے پاس بھیج کر اگلی صبح طلاق دلوادے ، تاکہ دوبارہ اس کے لیے اس عورت سے نکاح حلال ہوجائے۔
منصوبہ بند طور پر یہ طریقہ اسلامی شریعت کے ساتھ کھلواڑ ہے، مجھے ڈر ہے کہ ایسا کرنے والے کہیں اللہ کے عذاب کا شکار نہ ہوجائیں، یہ سراسر حرام ہے ؛ اللہ کے رسول نے اس شخص پر لعنت بھیجی ہے جو اپنی بیوی کو تین طلاق دینے کے بعد اس طریقے سے دوبارہ اس سے نکاح کرے اور اُس شخص پر بھی آپ کی لعنت ہے جو اس گھناؤنے عمل میں شریک ہو اور بناوٹی نکاح کرکے عورت کو طلاق دے دے ، تاکہ سابق شوہر سے اس کا نکاح حلال ہوجائے۔
مروّج منصوبہ بند حلالہ اسلامی شریعت میں سراسر حرام ہے _ اسے کوئی مسلمان جائز نہیں کہتا _ وہ اسے جائز کہہ بھی نہیں سکتا _ اگر مسلم سماج میں کسی درجے میں اس کا رواج ہے تو اس کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ مسلم سماجی مصلحین کو اس کی روک تھام کی تدابیر اختیار کرنی چاہیے، اگر حکومت اس پر پابندی عائد کرنے اور اسے قابلِ تعزیر جرم قرار دینے کے لیے کوئی مناسب قانون بناتی ہے تو اس کا استقبال کیا جانا چاہیے۔
اسلام کو بدنام کرنے اور اس کی تعلیمات کو غیر انسانی اور دورِ وحشت کی یادگار قرار دینے والے بہت ہیں، اس میدان میں افراد بھی سرگرم ہیں اور تنظیمیں اور جماعتیں بھی _ ان کے ارادے مذموم اور مقاصد شر انگیز ہیں، لیکن اسلام کی کسی تعلیم کے بارے میں اگر غلط فہمی کی بنیاد پر کوئی شخص اپنی منفی رائے ظاہر کرتا ہے تو ہمدردی اور دل سوزی کے ساتھ اس کی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، یہ اسلام کے نام لیواؤں اور اس کا عَلَم بلند کرنے والوں کی ذمے داری ہے۔