محمد اللہ قیصر قاسمی
کبھی آپ نے سنا ہے کہ ملک کے اقتصادی صورت حال پر بحث کرنے کیلئے یا ملک کے عمومی بجٹ پر بحث کرنے کیلئے کسی آٹو رکشا ڈرائیور کو ٹیوی ڈبیٹ میں بلایا گیا ہو، یا کسی عمارت کی تعمیر میں رائے دینے کیلئے کسی ماہر امراض قلب کو مدعو کیا گیا ہو، کسی جہاز کے کریش ہونے کے بعد اس کے اسباب و عوامل پر غور و فکر کے مقصد سے ایروناٹیکل ماہرین کے بجائے اگریکلچر کے پروفیسر یا ماہر جنگلات کو دعوت دی گئی ہو، ان سب کو چھوڑیے کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ دماغ کے علاج کے مقصد سے کوئی شخص نیورولجیسٹ کی بجائے اونکولیجیسٹ سے مشورہ لے رہا ہو، یا ملکی قانون کے نکات پر غور کرنے کیلئے کسی ماہر قانون کو چھوڑ کر بایولوجی کے پروفیسر سے رائے طلب کرتے ہوئے بھی کسی کو نہیں دیکھا ہوگا، کبھی یہ بھی نہیں سنا ہوگا کہ ہندستان میں رائج قانون کے صحیح یا غلط ہونے پر ایسے شخص سے رائے لی جارہی ہو جس نے ہندستان کے قانون کا مطالعہ نہیں کیا ہے، ظاہر ہے کوئی کام چینی قانون کے موافق ہے یا مخالف یہ جاننے کیلئے چینی قوانین کو پڑھنا اور جاننا ضروری ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص جو وہاں کے قانون سے بالکل ناواقف ہو وہ آکر کہے کہ فلاں چیز چینی قانون کے خلاف ہے، ایسے شخص کو ہر کوئی جاہل یا مجنوں ہی کہے گا، پتہ چلا کہ بنیادی طور کسی مسئلہ میں رائے دینے کیلئے ضروری ہے کہ رائے دینے والا متعلقہ مسئلہ کے اصول و ضوابط اور ہر گوشے ، شوشے سے واقف ہو، اقتصادیات کے دو چار مضامین پڑھ کر آپ کچھ معلومات تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن رائے دینے کی لیاقت ناممکن ہے، قانون کے دس بیس دفعات جان کر آپ کو وکالت کی ڈگری نہیں مل سکتی، ورنہ مجرم چھوٹ جائے گا اور بے گناہ کا مقدر پھانسی کا پھندا ہوگا، بایولوجی اور کیمسٹری کی دو چار کتابیں پڑھ کر آپ کو علاج کرنے کا لائسنس نہیں دیا جا سکتا، ورنہ آپ ہاسپیٹل نہیں قتل گاہ ہی چلائیں گے، ایروناٹیکل کے دس بیس مضامین پڑھنے کے بعد ہی اگر جہاز اڑانے کی اجازت مل جائے تو مسافرین اپنی منزل پر پہونچنے کی بجائے اس دنیا کو الوداع کہہ دیں گے، جب یہ نہیں ہو سکتا، ایسا کرنا عقل کے خلاف ہے، تو آپ اسے کیوں معقول سمجھتے ہیں کہ گرچہ آپ نے کسی اور میدان میں مہارت حاصل کی، اپ کو اسلامی علوم سے کوئی واقفیت نہیں یا اس سے بہت ادنی مساس ہے، پھر بھی آپ کو اسلامی تعلیمات پر رائے زنی کا حق دیا جائے۔
یہ وقت کا بدترین المیہ ہے کہ دنیا کے ہر میدان میں تو ماہرین کی رائے کا اعتبار ہوتا ہے، لیکن صرف اسلامی علوم ہی ایک ایسا بے یارو مددگار شعبہ ہے جس پر ہر کسی کو زبان درازی کا پیدائشی حق حاصل ہے، ہر کس و ناکس سے اسلامی احکام پر رائے طلب کئے جارہے ہیں، حتی کی بریانی بیچنے والے کے نام کے آگے اسلامی اسکالر لکھ کر ٹیوی شو میں بٹھا دیا جاتا ہے اور اسلامی تعلیمات پر اس سے رائے لی جاتی یے، آج کل ایک فیشن چلا ہے ، اور یہ منظم طریقے سے چلایا جارہا ہے، کہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اسلامی قانون پر ہر کوئی رائے زنی کر سکتا ہے، جس نے زندگی بھر قرآن و حدیث کی شکل بھی نہ دیکھی ہو، اس کے ایک حرف سے بھی واقف نہ ہو، اسے بھی دیکھا جارہا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے متعلق صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرتا نظر آرہا ہے، بعض تو ایسے بھی نظر آئے جو بغیر کسی واقفیت کے، بلا تردد، بڑی بیباکی سے یہ فیصلہ سنادیتے ہیں کہ فلاں حکم اسلام کا ہے یا نہیں، آپ ان سے پوچھئے کہ اسلام میں ” وندے ماترم ” کہنے کی ممانعت کیوں ہے، تو یہ ” بزعم خود اسکالرز ” بڑی دیدہ دلیری سے ادنی تامل کے بغیر جواب د یں گے کہ اسلام میں کہیں اس کی ممانعت نہیں ہے، ہم مادر وطن کہتے ہیں، لہٰذا ” وندے ماترم کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں، جبکہ اس جاہل کو پتہ ہی نہیں کہ لفظ ” وندے ” کے جتنے معانی ہیں ان سب میں عبادت کا مفہوم ہے، اور ماں کی عبادت نہیں کرسکتے، ” مادر وطن زندہ باد ” میں وطن کے تئیں محبت و فنائیت کا اظہار ہے، جبکہ “وندے ماترم ” میں مادر وطن کی عبادت کا مفہوم ہے، جو شرک ہے اور شرک کی معافی کی کوئی گنجائش نہیں، اور یہ تو زبان زد عام ہے کہ “فلاں حکم قرآن میں نہیں ہے” ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ مطالعہ قرآن کیلئے وقف کردیا ہو، بلکہ اتنی بیباکی سے تو اسلامی علوم کے ماہرین بھی اپنی رائے نہیں دیتے، کوئی ادنی عقل والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ کسی چیز کے اسلامی ہونے، نہ ہونے کو بتانے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلامی اصول (قرآن ، حدیث) کے مطابق وہ چیز ثابت ہے یا نہیں، اگر آپ سے کوئی سوال کرے کہ سائنس کے مطابق زمین سورج کے اردگرد چکر لگاتی ہے یا نہیں؟ تو ظاہر ہے کہ آپ کے سامنے صرف تین صورتیں ہیں، یا تو آپ یہ کہتے ہوئے خاموش ہو جائیں کہ میں نے اس سے متعلق سائنس دانوں کی آراء کا مطالعہ نہیں کیا ہے، اور اسے آپ ماہرین کی طرف ریفر کردیں، دوسرے یہ کہ جن سائنسدانوں نے زمین کے گول ہونے کی تحقیق کی ہیں، ان کو پڑھیں، پھر جن کی رائے آپ کے نزدیک مضبوط ہو اسے بیان کردیں، تیسرے یہ کہ آپ خود سائنس کے اصول (کسی چیز کا تجربہ، کلی مشاہدہ، جزوی مشاہدہ یا تجربات و مشاہدات سے ثابت شدہ امر سے کسی دوسری چیز کے وجود پر استدلال) کے مطابق تحقیق کریں، سائنس کے مطابق فیصلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ کی تحقیق بھی سائنس کے اصول پر ہونی چاہئے، ایسا نہیں ہے آپ کسی مذہبی لیٹریچر کو پڑھ کر اس کہہ دیں کہ زمین چکر نہیں لگاتی، ایسی صورت میں آپ کا جواب مذہبی رائے کہلائے گا سائنسی نہیں، کیوں کہ آپ نے سائنس کے اصول پر تحقیق نہیں کی، اسی طرح کسی حکم کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ اسی وقت کرسکتے ہیں جب آپ نے اسلامی مصادر (قرآن و حدیث) سے ان کے معین اصول کے مطابق مسئلہ کی تحقیق کی ہو، کوئی شرعی حکم اس وقت تک شرعی نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ قرآن، حدیث، اجماع، یا قیاس سے ثابت نہ ہو، اب ذرا ان جدید مفکرین یا ” اسلامی اسکالرز ” کہلانے والوں کی حالت پر غور کریں ان میں کوئی ایکٹر ہے، سیاستداں ہے، انجینئر، ڈاکٹر، فلسفی، ادیب، صحافی، سب کچھ ہیں، لیکن اسلامی علوم سے ذرہ برابر واقف نہیں، ان میں سے اکثر یا تو قرآن و حدیث کا ایک حرف نہیں جانتے، اور اگر کسی نے مطالعہ کیا بھی ہے تو اردو ، انگلش تراجم کے ذریعہ ، اصول تفسیر، اصول حدیث، اصول فقہ تو بہت دور کی بات ہے، نام بھی نہیں سنے ہوتے ہیں، اس کے باوجود یہ سب کے سب اتنے بیباک اور علمی بے حیائی میں اس قدر لت پت ہوتے ہیں کہ بغیر کسی تردد کے اسلامی احکام پر اپنی رائے پیش کرتے نظر آتے ہیں، جبکہ انہیں لوگوں سے اگر ان کی فیلڈ سے الگ دوسرے امور میں رائے مانگی جائے تو یہ فوراً کہتے ہیں کہ میں اس کا ماہر نہیں ہوں آپ ماہرین سے گفتگو کریں، کسی فلمی ایکٹر سے ملک کی اقتصادی پالیسی یا قانون کی دفعات پر سوال کیجئے تو یہ بڑی معصومیت سے یہ کہہ کر آگے بڑھ جائیں گے کہ مجھے زیادہ پتہ نہیں، آپ ماہرین سے رابطہ کریں، ہاں بس تین طلاق، ڈاڑھی، پردہ، میوزک وغیرہ کے متعلق اسلامی حکم دریافت کریں تو ان کی بانچھیں کھل جاتی ہیں، یہ اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا انٹلکچول تصور کرتے ہوئے، فوراً کہیں گے کہ اسلام میں یہ ممنوع ہے یا نہیں ہے، یہ ہے ان کا فکری تضاد، اور اسلامی تعلیمات کے تئیں دوہرا رویہ ، یا مثلاً یہ لوگ لفظ ” فتویٰ ” پر سب سے زیادہ کمینٹ کرتے ہیں لیکن اگر ان سے پوچھا جائے کہ ” فتویٰ ” کیا ہے تو ان کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے، حیرت ہے کہ یہ ” محققین ” مولوی کی ہربات کو فتویٰ کہنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ اگر کوئی عالم دین کسی سیاسی پارٹی کے حق میں اپیل کرے تو وہ بھی اس کی نظر میں فتویٰ ہی ہے، یہ ہے ان ” اسکالرز ” کی تعلیمی لیاقت اور علمی بددیانتی، یا پڑھے لکھے لوگوں کی ” جہالت “، اس کے اسباب پر غور کریں تو بنیادی سبب جو نظر آتا ہے وہ ہے اسلامی علوم سے نابلد ہونے کی وجہ سے دوسروں کی چمک دمک سے مرعوبیت، کچھ تو وہ لوگ ہیں جو اسلامی علوم سے بالکل ناواقف ہیں، ایسے لوگوں کے سامنے جب اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا، دوسری طرف انہیں اپنی ناواقفیت کے اظہار میں شرم بھی آتی ہے، تو اپنی شرمندگی کو چھپانے کیلئے ڈائرکٹ انکار کا راستہ اپناتے ہیں، اور معترض کی ہاں میں ہاں ملانے میں ہی انہیں عافیت نظر آتی ہے، ان کے علاوہ ایک قسم ان لوگوں کی ہے جن کا اوڑھنا بچھونا مغربی علوم ہوتا ہے، دوسرے فلسفہ کے مطالعہ میں وہ اپنی زندگی بتاتے ہیں، البتہ ذہنی آسودگی کیلئے تھوڑا بہت انگلش، اردو، یا ہندی زبان میں اسلام کا مطالعہ بھی کر لیتے ہیں، اس طرح مغربی فلسفہ اور اسلامی علوم کے مطالعہ میں ان کے یہاں توازن نہیں ہوتا لہٰذا فطری طور پر ان کا فکری جھکاؤ مغربی فلسفہ کی طرف ہوتا ہے، ایسے میں وہ تمام اسلامی تعلیمات کو مغربی فلسفہ کے ترازو پر تولنا شروع کر دیتے ہیں، پھر اسلام کی جو تعلیم یا فکر ان کے مغربی فلسفہ کے اصول و ضوابط پر پوری نہیں اترتی اس کا انکار کر دیتے ہیں، مثلاً ایک ” بزعم خود ” اسلامی اسکالر ہیں ان سے جب پوچھا گیا کہ طلاق کے بعد عورت کا نان و نفقہ تاحیات شوہر کے ذمہ ہے؟ تو انہوں نے کہاں کہ یہ قرآن کے عین مطابق ہے اور فوراً یہ آیت پیش کی ” وللمطلقات متاع بالمعروف ” انہوں نے ” اسلامی اسکالر ” ہونے کا ایک اور ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ تعدد نکاح تو اسلام میں جائز ہی نہیں پھر یو ٹرن لیتے ہوئے کہا اس کی اجازت ہے بھی تو کنڈیشنل ہے، اسے ہم علمی خیانت کہیں گے، کہ جس چیز سے آپ ناواقف ہیں اس پر ماہرین کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی خودساختہ اور عقل کی پرداختہ رائے بڑی بے شرمی سے پیش کرتے ہیں۔
یہ صورت حال ہمارے یہاں بھی ہے کہ کچھ علماء جو اسلامی علوم کے علاؤہ دوسرے علوم و فنون سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں، ان کے یہاں بھی اسلامی علوم اور غیر اسلامی نظریات سے واقفیت میں توازن نہیں ہوتا، لہذا ان میں ایک طرح کا تشدد ہوتا ہے اور وہ ہر رطب و یابس پر یکساں حکم لگاتے چلے جاتے ہیں، نتیجتاً ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے، ان کے برعکس ان علماء یا ان عصری علوم کے حاملین کو دیکھیں جو علم کے ہر چشمہ سے سیراب ہونے میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کے یہاں توازن ہوتا ہے وہ ہمیشہ قدیم صالح اور جدید نافع کے قائل ہوتے ہیں۔
ان ” اسلامی اسکالر ” کہلانے والوں میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جن کو بغیر کسی وجہ کے علماء سے چڑ ہے، اور اس کی بنیادی وجہ ہے کہ مسلم عوام میں علماء کی طرح ان کی پذیرائی نہیں ہوتی ، یہ لوگ قوم کیلئے کچھ کئے بغیر عوام کی آنکھوں میں علماء کے مقابلے اپنے تئیں زیادہ احترام کا جذبہ دیکھنا چاہتے ہیں، حالانکہ ادنی فہم رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ کوئی بھی قوم اس کا احترام زیادہ کرتی ہے جو اس کیلئے فنائیت کا جذبہ رکھتا ہو ، یہ ” اسلامی اسکالرز ” اپنی ذات میں مگن ہوتے ہیں، اپنے علاوہ کسی کا کوئی درد ان کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، جبکہ علماء قوم کے نونہالوں کو دینی تعلیم سے مزین کرنے کیلئے اپنا آرام و آسائش تیاگ دیتے ہیں، پھر قوم کے جذبات ان کے تئیں نرم کیوں نہ ہوں، اس صورتحال سے یہ ” پڑھے لکھے مفکرین “بے چین ہوجاتے ہیں اور علماء کے تئیں ان کے دل میں چھپا کینہ بے جا مخالفت کی شکل میں ظاہر ہونے لگتا ہے۔
ان ” اسلامی اسکالروں ” میں ایک طبقہ وہ ہے جو دوسروں کو خوش کرنے کیلئے اسلامی تعلیمات پر حملہ آور ہوتا ہے، ان میں بڑی تعداد ان کی ہے جن کا تعلق سیاسی پارٹیوں سے ہوتا ہے ، ان کے سامنے اگر اسلام پر اعتراض ہوتا ہے تو عموماً یہ لوگ اپنے سیاسی آقاؤں کی ناراضگی کے خوف سے آمنا و صدقنا کہنے میں ہی عافیت محسوس کرتےہیں، کیوں کہ اختلاف کی صورت میں انہیں اپنا وجود خطرہ میں نظر آتا ہے، آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ فلاں لیڈر نے ” جے شری رام ” یا ” وندے ماترم ” جیسے شرکیہ نعرے لگائے یا ان کی حمایت کی، بلکہ بعض تو وہ ہیں جو دوسرے مسلمانوں کو بھی ان شرکیہ کلمات کی نہ صرف تلقین کرتے ہیں، بلکہ اپنا ” تحقیقی فتویٰ ” جاری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام میں کہیں اس کی ممانعت نہیں ہے، اس حمام میں کچھ مولوی نما حضرات بھی ننگے نظر آتے ہیں، ایک ” مولوی نما ” شخص نے تو ” یوگ ” کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی، کیا انہیں پتہ نہیں کہ یہ شرکیہ کلمات ہیں؟ بالکل انہیں معلوم ہے، لیکن اس کے باوجود وہ حمایت کرتے ہیں ، وجہ صرف یہی ہے کہ انہیں اپنا وجود بچانا مقصود ہوتا ہے، انہیں یہ بھی توفیق نہیں ہوتی کے اپنے ہندو ساتھی سے ان شرکیہ کلمات کے معنی و مفہوم ہی دریافت کرلیں ، لیکن نہیں، کیوں کہ آقا کی ناراضگی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
الغرض یہ لوگ دنیا کے دوسرے تمام امور میں علم و تحقیق کے سارے اصول و ضوابط کی پابندی کرتے ہیں کوئی لفظ اس وقت تک منہ سے نکالنا گناہ یا علمی خیانت سمجھتے ہیں جب تک کہ اس کی پوری تحقیق نہ کرلیں، لیکن اسلام کے متعلق کچھ دریافت کیا جائے تو کسی مسئلہ پر رائے دینے کے تمام علمی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فورا حکم لگاتے ہیں، کہ یہ اسلام میں ہے یا نہیں ،اگرچہ زندگی بھر انہوں نے کسی سے نہ سنا ہو، نہ انہیں خود پڑھنے کی توفیق ہوئی ہو، ان پڑھے لکھے جاہلوں کا یہ دوہرا رویہ ہے ، جو اپنی جہالت کی وجہ سے اور ایک مذہب کی دشمنی میں ایسا کرتے ہیں، ورنہ علمی دیانت داری کا تقاضا تھا کہ اسلامی تعلیمات سے متعلق کسی بھی رائے کو یا تو اسلامی علوم کے ماہرین پر چھوڑ دیتے، یا ماہرین کی تحقیقات کا سہارا لیتے یا خود تحقیق کرنے بیٹھ جاتے، پھر ایک رائے قائم کرتے، لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے، اسلامی تعلیمات سے متعلق ان کا یہ دوہرا رویہ اس وقت کا بدترین المیہ ہے۔