خورشید عالم داؤد قاسمی
زمانۂ جاہلیت میں عرب کے لوگ سال کے دومخصوص دنوں میں دوتہوار: “نیروز” اور “مہرجان” مناتے تھے۔ یہ دونوں تہوارموسم بہار کی آمد ورفت سے متعلق تھے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منوّرہ تشریف لائے؛ تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان تہواروں کے بارے میں ذکر کیا کہ وہ ان دو مذکورہ دنوں میں زمانۂ جاہلیت میں کھیل کود کرتے اور خوشیاں منایا کرتے تھے، اس پر نبی کریم –صلی اللہ علیہ وسلم– نے کہا کہ اللہ تعالی نے ان دو دنوں کو ان سے بہتر دو دوسرےدنوں :”یوم الاضحی اور یوم الفطر” سے بدل دیا ہے۔ حضرت انس -رضی اللہ عنہ- اس واقعہ کو اس طرح نقل کرتے ہیں:
(ترجمہ) رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم-مدینہ تشریف لائے، (اس وقت) ان کے دو دن (مخصوص) تھے، جن میں وہ کھیلتے کودتے تھے۔ آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے ان سے پوچھا: “یہ دو دن کیا ہیں؟” انھوں نے جواب دیا: ہم ان دو دنوں میں زمانۂ جاہلیت میں کھیلاکرتے تھے۔ پھر رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے ارشاد فرمایا: “اللہ تعالی نے تمھارے لیے ان دو دنوں کو ان سے بہتر دو دنوں : یوم الاضحی اور یوم الفطر سے بدل دیا ہے۔” (ابو داؤد، حدیث نمبر: 1134، مسند احمد، حدیث نمبر: 12006)
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ زمانۂ جاہلیت میں جو لہو و لعب کے دو دن تھے اور مدینہ کے لوگ ان میں مخرب اخلاق اعمال کا ارتکاب کرتے تھے؛ لہذا اللہ تعالی نے ان دو دنوں کو” ذکر و شکر اور معافی و بخشش” کے دو دنوں سے بدل دیا۔ اس فرمان بنی -صلی اللہ علیہ وسلم- کے بعد، مسلمانوں کے لیے صرف یہ دو دن خوشی و مسرت اور جشن کے رہ گئے۔ یہ ہیں مسلمانوں کی عیدیں۔ ایک تیسری عید بھی ہے، جو ہر ہفتہ میں ایک بار آتی ہے اور وہ جمعہ کا دن ہے۔
آج کل کچھ مسلمان کئی کئی عیدیں مناتے ہیں اور ان عیدوں کے جواز میں من گھڑت دلائل بھی پیش کردیتے ہیں۔لوگ ان عیدوں میں بغیر کسی خوف الہی کے بدعات و خرافات کا ارتکاب کرتے ہیں اور اسے کارثواب سمجھتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے صرف دو عیدیں: عید الفطر اور عید الاضحی ہیں جیسا حدیث شریف سے معلوم ہوا۔ ان عیدوں کو بھی سادگی سے منایا جانا چاہیے؛ مگر معلوم نہیں کہ لوگوں نے عید کا مطلب کیا سمجھ لیا ہے! شاید کچھ لوگ عید کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ عید کے دن وہ اپنے قیمتی اوقات ضائع کریں اور دن بھر اور دیر رات تک لہو و لعب میں مست رہیں، ہر طرح کے بدعات وخرافات اور خرمستیوں کا ارتکاب کریں! بس یہی عید ہے؛ حال آں کہ عید کا یہ مطلب نہیں ہے؛ بل کہ مسلمانوں کے لیے عید کا مطلب تو یہ ہےکہ اللہ سبحانہ و تعالی کا ذکر و شکر ادا کرے، اللہ کی عطا کردہ عظیم نعمت کا اظہار کرے، اللہ تعالی کی بڑائی و بزرگی بیان کرے، رمضان کے مہینے میں نیک اعمال کی توفیق وہدایت کا شکرانہ ادا کرے، اس پاک ذات کی تکبیر و تہلیل میں رطب اللسان رہے اور “اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، واللہ اکبر، اللہ اکبر و للہ الحمد” کا ترانہ گنگنائے۔ یہ ہے عید کا حقیقی جشن۔
آج جشنِ عید کا مطلب ہمارے معاشرے میں اور خاص طور پر جوان طبقہ میں ہر طرح کے مخرب اخلاق اعمال کا ارتکاب ہے۔ عید کی نماز کے بعد، کوئی پارک جاتا ہے،کوئی سنیما گھر کا رخ کرتا ہے، تو کوئی لہو و لعب کے اڈے کا رخ کرتاہے، دیر گئے رات تک وہ ان بیہودہ چیزوں میں خود کو مشغول رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں ان سے فرائض و واجبات اور سنن و نوافل کے ادائیگی کی کیا امید کی جاسکتی ہے! رمضان کے پورے مہینے میں جو کچھ حاصل کیا، چند گھنٹوں میں ان سب پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے یہاں جشنِ عید کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں۔
کچھ لوگ عید کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ قیمتی اور عمدہ لباس زیب تن کیا جائے، لباس کی خریداری میں مبالغہ سے کام لیا جائے اورعید کے دن ضرورت سے زیادہ بڑھ چڑھ کر خرچ کیا جائے؛ جب کہ یہ “اسراف” کے دائرہ میں آتا ہے، اس سےبچنا چاہیے۔ فضول خرچی اور اسراف کی ہماری شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمیں خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔ مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم اپنے اہل و عیال، ماں باپ، بھائی بہن اور رشتے داروں پر خرچ کرنے سے گریز کریں یا اس طرح ہمارے ہاتھ بند ہوجائیں کہ ہم بخل کی حد تک پہنچ جائیں! ہمیں اپنی وسعت کے مطابق، ان کے کھانے پینے اور لباس وپوشاک پر بغیر کسی تردّد کےخرچ کرنا چاہیے۔ یہ ایک قابل تحسین عمل ہے۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ عید رمضان المبارک کا جشن ہے۔ رمضان کا عظیم مہینہ، جس میں قرآن کریم لوح محفوظ سے سماءِ دنیا پر نازل کیا گیا، دوسرے کتبِ آسمانی نازل کیے گئے،جس مہینہ میں ایک نفل کا ثواب ایک فرض اور ایک فرض کا ثواب ستّر فرض کے برابر کردیا جاتا ہے، جس میں “شب قدر” جیسی قدر و منزلت کی رات ہے، جس میں ایک رات کی عبادت، ہزار مہینوں کی عبادت و بندگی کی راتوں سے بہتر ہے ، عید تو دربار خداوندی میں انھیں چیزوں کا شکرانہ ہے۔ عید تو اس بات کا شکرانہ ہے کہ اس ذات بر حق نے ہمیں رحمت و مغفرت اور آگ سے چھٹکارا پانے والے ایام، اس رمضان کے مبارک مہینہ میں عطا فرمائے۔
عید اس شخص کے لیے ہے جس نے رب ذو الجلال والاکرام کی عبادت کی، اس کے احکام کی اطاعت کی، دن میں روزے رکھے، رات میں تراویح پڑھی اور پھر راتوں میں قرآن کریم کی تلاوت اور نفلی اعمال میں ہمہ دم مشغول رہا۔ جس نے اس پاک ذات کی رمضان کے مہینے میں بھی نافرمانی کی، لہو و لعب میں خود کو مشغول رکھا، پھر تو ایسے شخص کے لیے حسرت اور کف افسوس ملنے اور شرمشار ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں، ایسے شخص کے لیے عید کا کوئی مطلب ہی نہیں۔ عید تو اس شخص کی ہے جس نے رمضان کے مہینہ میں اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری میں اضافہ کیا، جس نے اپنے رب کی صفت غفاری کا فائدہ اٹھایا اور اس غفور و غفار رب کے سامنے گرگرا کر اپنے سارے گناہوں کی بخشش کروالی۔
حسن بصری –رحمہ اللہ– فرماتے ہیں: “مومن کا ہر وہ دن جس میں اس نے گناہ کا ارتکاب نہیں کیا، اپنے رب کی گستاخی نہیں کی؛ بل کہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی، اس کے ذکر و شکر میں گزارا، اس کو خوش کرنے میں لگا رہا، وہ دن اس کی عید ہے۔
رمضان کا جشن یہ بھی ہے کہ ماہ شوال کے چھ روزے رکھے جائیں! ہمارے پیارے نبی -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ہمیں یہ سکھلایا کہ تم رمضان کے متصلا بعد والا مہینہ: “شوال” کے چھ روزے رکھو! اللہ کے نبی محمد –صلی اللہ علیہ وسلم-کا فرمان ہے : “مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ.” [مسلم شریف، حدیث نمبر: 1164، ترمذی شریف، حدیث نمبر: 759] یعنی جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد ماہ شوّال کے چھ روزے رکھے، تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے۔
ایک روایت مسند احمد میں اس طرح ہے: “مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، وَسِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، فَكَأَنَّمَا صَامَ السَّنَةَ كُلَّهَا” (مسند احمد، حدیث نمبر: 14302) یعنی جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے رکھے، گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔ ایک اور روایت مسند ابو داؤد طیالسی میں ہے جس میں “فَذَلِكَ صِيَامُ السَّنَةِ” (یعنی وہ پورے سال کا روزہ ہے) کا ذکر ہے۔ (مسند ابو داؤد طیالسی، حدیث نمبر: 595)
مسند احمد اور مسند ابو داؤد طیالسی میں ذکر کردوہ روایات میں رمضان کے بعد ماہ شوال کے چھ روزے رکھنے کو پورے سال روزے رکھنے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ علماء نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ جب آدمی رمضان کے پورے مہینے کے روزے رکھتا ہے؛ تو “الحسنة بعشر أمثالهَا” (ایک نیکی کے بدلے دس گنا اجر دیا جاتا ہے) کے قاعدہ کے تحت ایک مہینے کے روزے، دس مہینے کے برابر ہوگئے۔ پھر شوال کے چھ روزے اسی مذکورہ قاعدہ کے تحت دو مہینے کے روزے کے برابر ہوگئے۔ اب نتیجہ یہ نکلا کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر ماہ شوال میں چھ روزے رکھے؛ تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔ اب دوسری حدیث کی وضاحت سے حدیث اول کی بھی وضاحت ہوجاتی ہے کہ جب ایک مسلمان اس طرح ہر سال رمضان کے روزے کے بعد، ماہ شوال میں چھ روزے رکھتا ہے؛ تو گویا اس نے پورے زمانے کا روزہ رکھا اور اس شخص نے اپنی پوری زندگی روزوں کے ساتھ گزاری۔
حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں کی عید یہ نہیں ہے کہ وہ عید کے جشن میں لغویات اور لہو ولعب میں اپنے قیمتی اوقات اور مال و متاع کو ضائع کریں؛ بل کہ عید کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی کا ذکر ، اس کی تسبیح و تحمید اور اس ذات کی طرف سے عطاکردہ بے انتہا نعمتوں اور ماہ رمضان میں نیک اعمال کی توفیق پر اس کا شکریہ ادا کریں!۔(ملت ٹائمز)
مضمون نگار معروف کالم نویس اور اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا کے ہیڈ ہیں
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in