ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
یکم جنوری ۲۰۱۶ کو حکومت ہند کے وزیر قانون شری سدانند گوڑانے لاء کمیشن کے چیرمین کو ایک خط لکھ کر ان سے مطالبہ کیاہے کہ وہ جلد از جلد یونیفارم سول کوڈ کے اطلاق کے بارے میں حکومت ہند کو ایک رپورٹ بناکر پیش کرے اور اس سلسلے میں وسیع پیمانے پر تمام متعلقہ طبقات کے ذمہ داران سے تبادلہ خیال کریں۔اس سے قبل سپریم کورٹ آف انڈیانے اتراکھنڈ کی رہنے والی ایک مسلم خاتون کی پٹیشن پر سنوائی کرتے ہوئے حکومت ہند کو ڈیڑھ مہینے کا نوٹس دے کر یہ پوچھا تھاکہ وہ یکساں سول کوڈ کے نفاذکے لیے کیا اقدام کررہی ہے،اسی کے جواب میں وزارت قانون نے لاء کمیشن کو یہ خط لکھاہے،معاملے کی اگلی سنوائی اسی سال ستمبر کے مہینے میں ہوگی،اس کا مطلب یہ ہے کہ یاتو ستمبر تک کمیشن اپنی رپورٹ حکومت کو سونپ دے گا یا حکومت سپریم کورٹ کو یہ جواب دے دیگی کہ اس سلسلے میں اقدام کرلیاگیاہے اور رپورٹ آنے پر کوئی مناسب جواب دیاجائے گا،اس طرح حکومت کو کافی مہلت مل جائے گی۔اس واقعہ نے ملک میں یکساں سول کوڈ کی بحث کو پھر تازہ کردیاہے اور اس مرتبہ ہر بار سے زیادہ بڑے پیمانے پر اس معاملے پر بحث ہونے کی توقع ہے۔بھارتیہ جنتاپارٹی جوابھی سرکار میں ہے ،اس کی شروع سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ملک میں یکساں سول کوڈ قائم کرے،اس کے ہر انتخابی منشور میں اس کا وعدہ بھی کیاجاتارہاہے۔پچھلی باجپائی سرکار نے اس معاملے کو یہ کہہ کر چھوڑ دیاتھاکہ سرکار کے پاس واضح اکثریت موجود نہیں ہے ،لیکن اس مرتبہ پارٹی کے پاس یہ بہانا بھی نہیں ہے اور ایسامحسوس ہوتاہے کہ ارباب اقتدار یہ محسوس کررہے ہیں کہ یہی صحیح موقع جب یکساں سول کوڈ نامی اونٹ کو آگے دھکیلاجاسکتاہے۔ملک کا ماحول بھی سازگار ہے،سیاسی طور پر بھی اکثر جماعتیں کسی نہ کسی پس وپیش کے ساتھ اس کے حق میں ہے۔ہندواکثریت اور بہت سے دیگر مذہبی طبقات بھی اب اس معاملے میں زیادہ بحث کرنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے۔ایسے میں موقع غنیمت جان کر پارٹی کے کچھ ارکان اپنی سطح پر عدالتوں سے رجوع کرکے سول کوڈ کی بحث کو تازہ کرنے کی کوشش میں مصروف رہے ہیں اور عدالتوں کو مجبور کررہے ہیں کہ وہ یاتو خود اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کرے یاحکومت کو کوئی فیصلہ کرنے کے لیے جواز فراہم کرے۔مثال کے طور پر دہلی پردیش بی جے پی کے ایک ترجمان اشونی اپادھیائے جو سپریم کورٹ کے وکیل بھی ہیں،انھوں نے دسمبر ۲۰۱۵میں سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی داخل کرکے یہ مطالبہ کیاتھاکہ ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کیاجائے۔اس عرضی کو خود چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی بینچ نے سناتھا اور خارج کردیاتھا،مگر خارج کرتے وقت چیف جسٹس نے یہ ضرورکہہ دیاکہ یہ ایک ایسامعاملہ ہے جس میں عدالتی حکم نامہ کارگر نہیں ہوسکتا،اس کے لیے حکومت اور پارلیمنٹ کو ہی فیصلہ کرناہوگا۔ہاں البتہ کچھ متأثرین اگر عدالت سے رجوع کرتے ہیں تو اس پر غور کیاجاسکتاہے۔عدالت بہر حال پارلیمنٹ سے یکساں سول کوڈ لانے کا مطالبہ نہیں کرسکتی ،یہ قانون سازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آپس میں بحث کریں اور کوئی مناسب فیصلہ لیں۔سپریم کورٹ کے اس تبصرے کے فورابعد اشونی اپادھیائے نے وزیر قانون کو خط لکھااور ان سے اس معاملے پر لاء کمیشن کی رائے لینے کا مطالبہ کیا۔اس کے بعد کچھ متأثرین نے بھی عدالت سے رجوع کیا،جس میں سائرہ بانو کا کیس بھی شامل ہے ۔اس عرضی میں ایک نشست کی طلاق ثلاثہ اور تعدد ازدواج پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ کہاگیاہے کہ یہ طریقہ کار صنفی امتیاز کا مظہر ہے۔اسی عرضی کی سنوائی کرتے ہوئے ایک طرف عدالت نے حکومت کو نوٹس بھیج دیااور دوسری جانب ملک کی متعدد خواتین تنظیمیں جن میں کچھ آر ایس ایس سمیت کچھ مسلم خواتین کی تنظیمیں بھی شامل ہیں،کھڑی ہوگئیں اور طلاق ثلاثہ پر پابندی کی آڑ میں یکساں سول کوڈ پر بحث کا آغاز ہوگیا۔
حکومت کی جانب سے لاء کمیشن کو بھیجے گئے خط پر ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں نے اس کا خیر مقدم بھی کیا لیکن یہ بھی کہاکہ سردست اترپردیش کے انتخابات کے پیش نظر یہ انتخاب جیتنے کی ایک حکمت عملی ہے،یہی جواز کچھ مسلم تنظیموں نے بھی دیاہے لیکن ان تمام حالات کے پس منظر میں اگر غور کریں تو معاملہ اتنا آسان نہیں ،انتخابات آتے جاتے رہتے ہیں ہوسکتاہے کہ اس حرکت سے حکومت کی منشاء بھی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی رہی ہو،لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتاکہ آزاد ی کے بعد سے اب تک یکساں سول کوڈ کا پرزور مطالبہ کرنے والی سیاسی جماعت اب حکمراں ہے اور پارلیمنٹ میں اسے واضح اکثریت حاصل ہے۔ایسے میں یکساں سول کوڈ کے لیے مناسب ماحول سازی کرنے میں بھی حکومت کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔درحقیقت ایسا ایک ماحول بنابھی دیاگیاہے،چنانچہ معاملہ بہت سنگین ہوجاتاہے اور اسے سیاسی جست وخیز کہہ کر نظر انداز نہیں کیاجاسکتا اور ملک کے تمام طبقات کو اس پر سنجیدگی سے غور کرناپڑے گا اور اگر بحث شروع ہوتی ہے تو بحث میں مضبوط دلائل کے ساتھ حصہ لینا پڑے گا۔یکساں سول کوڈ کے معاملے کو یکسر مسترد کردینا،یااسے ہندوقانون کے نفاذ کی سازش قراردینااب کام نہیں دے گاکیوں کہ اس سے قبل بھی ملک کی مختلف عدالتیں باصرار یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا مطالبہ اور سرزنش حکومت سے کرتے رہے ہیں۔۲۰۱۴میں اس حکومت کے قیام کے بعد عدالتوں کی یہ فہمائش بڑھتی چلی جارہی ہے ۔اکتوبر ۲۰۱۵میں بھی سپریم کورٹ نے کہاتھاکہ ملک میں مروج مختلف مذہبی عائلی نظاموں کی وجہ سے مکمل کنفیوژن کی صورت حال ہے۔اس کے دوہفتے بعد ہی اس وقت کے چیف جسٹس ایچ ایل دتوکی عدالت نے بھی حکومت سے صنفی امتیازات کے سلسلے میں جواب طلب کیاتھا اور اسے دستور کی دفعہ ۱۴،۱۵ اور ۲۱کی مخالفت ماناتھا۔
حکومت ہند کے اس اقدام کے فورا بعد لاء کمیشن کے سابق چیرمین جسٹس لکشمن نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ انھوں نے تو ۲۰۱۴میں ہی اپنی رپورٹ نمبر ۲۱۲میں میرج ایکٹ میں ترمیم کرکے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی جانب ایک مثبت پیش قدمی کرنے کی تجویز سابقہ یوپی اے حکومت کو پیش کردی تھی لیکن حکومت نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جس سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ حکومتیں اس معاملے کو سیاسی بازیگری کی نذر کرنا چاہتی ہے۔یہ تمام حالات اس جانب واضح اشارہ کررہے ہیں کہ پورا ملک یکساں سول کوڈ کے نام پر اب کچھ نہ کچھ کرنے پر آمادہ دکھائی دیتاہے۔
دستور کے راہنما اصولوں کی شق ۴۴؍حکومت ہند سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ملک میں ایک ایساماحول قائم کرنے کی کوشش کرتی رہے کہ بالآخر تمام طبقات یکساں سول کوڈ کو قبول کرنے پر آمادہ ہوجائیں،بظاہر گزشتہ حکومتوں نے اس سلسلے میں کوئی عملی اقدام نہیں کیالیکن ۱۹۵۰سے لے کر اب تک مختلف عدالتوں نے مختلف مواقع پر یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا مطالبہ کرکے باربار اس بحث کوتازہ کیاہے،نیز ایسے بھی بہت سے فیصلے کیے گئے ہیں جس میں مختلف مذاہب کے عائلی نظاموں کی نفی اور تضحیک ہوتی ہے ۔حکومتوں نے ان فیصلوں کو قبول بھی کیاہے۔۱۹۸۵کے شاہ بانوکیس کے دوران بھی یہ بحث عدالتوں سے نکل کر سڑکوں تک اور سڑکوں سے پارلیمنٹ تک پہنچ گئی تھی اور بالآخر حکومت کو ایک قانون پاس کرکے چیف جسٹس کے فیصلے کو بدلنا پڑا تھا۔لیکن اس فیصلے کے منفی اثرات بھی پورے ملک نے محسوس کیے اور اس کے نتیجے میں ایک رد عمل کی سیاست کو بھی فروغ حاصل ہوا۔بابری مسجد کی تحریک سے لے کر اس کی شہادت تک کے واقعات اسی شاہ بانو کیس کے رد عمل کاسیاسی نتیجہ رہے ہیں۔اس معاملے پر جب بھی بحث کی جاتی ہے تو عام طور پر ملک کے مسلمان اس کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں اور فوری طور پر کسی بھی یکساں سول کوڈ کو قبول کرنے کا یکسر انکار کردیتے ہیں جس سے برادران وطن میں یہ پیغام جاتاہے کہ اس کی راہ میں صرف مسلمان ہی سد راہ ہیں جب کہ سچ یہ ہے کہ اس ملک کے عیسائی،سکھ،مختلف قبائل اور خود ہندوؤں کا بڑاطبقہ بھی یکساں سول کوڈ کا اتناہی مخالف ہے جتنا کہ مسلمان ہیں،لیکن انکار میں مسلمانوں کی پہل کی وجہ سے مسئلہ فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرجاتاہے اور ملک کی کرپٹ سیاسی جماعتوں کو اس بہانے فرقہ وارانہ سیاست کا موقع بآسانی دستیاب ہوجاتاہے۔گزشتہ ۷۰؍سال میں دفعہ ۴۴؍کا یہی سیاسی استعمال مختلف سیاسی جماعتیں کرتی رہی ہیں اور مسلمان بھی اس نام پر ہمیشہ ہی چڑتے رہے ہیں،یہ مطالبہ کبھی کسی جانب سے نہیں کیاگیاکہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ رائے عامہ ہموار کرنے کے بعد حکومت وقت کی ذمہ داری ہے،لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ یکساں سول کوڈ کا نقشہ اور اس کے نفاذ کا طریقۂ کار مرتب کرکے ملک کے سامنے پیش کرے اور ملک کو یہ بتائے کہ یہ مشترکہ کوڈ کیاہوگا؟کس مذہب کے عائلی نظام کی بنیاد پر ہوگا؟اور دیگر مذاہب کے عائلی نظاموں کو اس مشترکہ نظام میں کیسے سمویاجاسکے گا؟ایساکوئی بھی نقشہ تیار کرنا کسی بھی حکومت کے بس کا روگ نہیں ہے۔اسی لیے حکومتیں اس معاملے کو ٹالتی رہی ہیں۔دستور اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ ایساکوئی بھی نظام عوامی رائے عامہ کی منظوری کے بغیر نافذ نہیں کیاجاسکتا۔مگر یہ طے نہیں ہے کہ وہ رائے عامہ کیسے حاصل کی جائے گی اور اس کے اظہار کا طریقہ کوئی ریفرنڈم ہوگا یا محض چند نمائندوں کی رائے کو ہی رائے عامہ سمجھ لیاجائے گا۔یہ بھی ایک دلچسپ تماشہ ہے کہ یکساں سول کوڈ کی بحث ۷۰؍سال پہلے جس انداز میں ہماری دستور ساز اسمبلی میں ہوئی تھی اس میں ابھی تک کوئی فرق نہیں آیاہے۔۲۳؍نومبر ۱۹۴۸کو اس معاملے پر دستور ساز اسمبلی نے طویل بحث کی تھی جس میں مدراس کے مسٹر اسماعیل ،بنگال کے نظیر الدین احمد ، مدراس کے ہی محبوب علی بیگ،بہار کے حسین امام صاحب نے اپنی ترمیمات پیش کرتے ہوئے اسے پورے ملک کے لیے خطر ناک قرار دیاتھااور آئین کے بنیادی حقوق کی دفعہ ۲۵؍سے متصاد م بھی قرار دیاتھا۔انھوں نے یہ دلیل دی تھی کہ ۷۰۰؍سوسال مسلمانوں کی حکومت اور ڈیڑھ سوسال انگریزوں کی حکومت نے ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے عائلی نظام سے کبھی کسی چھیڑ خانی کی ضرورت محسوس نہیں کی،جب اتنے لمبے عرصے تک یہ تمام مختلف مذہبی طبقات اپنے اپنے عائلی نظام کو مانتے ہوئے ملک کو پرامن رکھ سکتے ہیں تو اب کسی یکساں عائلی نظام کی کیاضرور ت ہے۔اس بحث کا تفصیلی جواب کے ایم منشی اور ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے دیاتھا اور مذکورہ حضرات کی تمام دلیلوں کو خارج کرتے ہوئے اس دفعہ کو آئین کے رہنما اصولوں کے طورپر پاس کردیاگیاتھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت بھی اس کی مخالفت میں صرف مسلمان کھڑے ہوئے تھے اور کسی غیر مسلم رکن اسمبلی نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی اور آج بھی انھیں دلیلوں کے ساتھ صرف مسلمان ہی میدان میں ہیں،دیگر مذاہب کے لوگ یکساں سول کوڈ کو ناپسند کرنے کے باوجود خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں،ایسے میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتہائی حکمت کا مظاہرہ کریں اور اپنے اوپر الزام نہ لیتے ہوئے ملک کے ان تمام طبقات جو اس کے حق میں نہیں ہیں،انھیں کو پہل کرنے کا موقع دیں۔حال ہی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی اس سلسلے میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے سخت الفاظ میں کہاہے کہ یکساں سول کوڈ کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیاجائے گااور اسے نظام شریعت میں مداخلت تصور کیاجائے گا۔اس قسم کے بیانات قبل از وقت اور غیر ضروری محسوس ہوتے ہیں ،خصوصا ان حالات میں جب حکومت خود ہی یکساں سول کوڈ کا نقشہ کار پیش کرنے سے عاجز ہواور منطقی طور پر بھی یہ بات صحیح ہے کہ جو چیز ابھی تک عدم سے وجود میں نہیں آئی ہے اس کا انکار کیوں کر ممکن ہے۔اس کا نقشہ کار ہی ترتیب دینا ایک کار دارد ہے۔ہمیں حکومت کو یہ موقع دینا چاہیے کہ وہ پہلے اپنا کام مکمل کرلے اس کے بعد ظاہر ہے کہ اس کے نقشے پر بحث تو ہوگی ہی۔اس کے بعد اگر کوئی غیر شرعی چیزیں سامنے آتی ہیں تو اس پر بحث کرنے کا بھی موقع ہے ،احتجاج کرنے کا بھی موقع ہے اور واضح دلیلیں دینے کا بھی موقع مل جائے گا،تب اس کا انکار منطقی بنیادوں پر ہوگااور دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی اس پر اعتراضات کے مواقع مل جائیں گے ۔بہرحال!مسلمانان ہند کو اس سلسلے میں جلد بازی میں کوئی فیصلہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور ملک میں اگر کوئی عام بحث چھڑتی ہے تو منطقی دلائل کے ساتھ اس میں حصہ بھی لینا چاہیے اور متعلقہ سرکاری اداروں سے رابطے بھی کرنے چاہئیں۔اس دوران یہ بھی بہت ضروری ہے کہ مسلمانوں کے ارباب حل وعقد مسلم قانون کی تدوین کا کام جنگی پیمانے پر پوراکرلیں۔یکساں سول کوڈ سے قرار واقعی مقابلہ آرائی کے لیے ایک مدون مسلم قانون سے بڑا کوئی دوسراہتھیار نہیں ہوسکتا۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں )