اترپردیش کے ضلع فتح پور کے گاؤں بہٹا میں منگل کو اس وقت کشید گی پھیل گئی جب کچھ لوگوں نے ایک تالاب کے نزدیک سے گوشت کی برآمدگی پر جم کر ہنگامہ و توڑ پھوڑ کیا اور مدرسہ میں آگ لگا دی۔
مبینہ گؤ کشی کے نام پر ہنگامہ اب کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے۔ تازہ معاملہ اتر پردیش کے فتح پور ضلع کا ہے جہاں مبینہ طور پر گائے کا گوشت ایک تالاب کے کنارے سے برآمد ہونے کے بعد حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ 16 جولائی کو جب ایک مدرسہ کے قریب گوشت برآمد ہونے کی خبر پھیلی تو ہنگامہ مچ گیا۔ کئی مشتعل افراد نے لاٹھی ڈنڈوں کے ساتھ مدرسہ کو ہی نشانہ بنا دیا۔ انھوں نے مدرسہ کی عمارت میں توڑ پھوڑ کی اور پھر وہاں آگ بھی لگا دی۔
میڈیا ذرائع کے مطابق مدرسہ کو نذرِ آتش کیے جانے کی خبر ملنے پر پولس وہاں پہنچی اور مشتعل لوگوں کو کھدیڑ کر وہاں سے دور بھگایا۔ کسی طرح اس وقت پولس نے ماحول کو قابو کر لیا لیکن حالات ہنوز کشیدہ ہیں۔ کشیدگی کو دیکھتے ہوئے پولس نے جائے وقوع پر پولس فورس تعینات کر دی ہے۔ شر پسند عناصر کی گرفتاری کے لیے پولس کی کوششیں بھی تیز ہو گئی ہیں۔ لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ہنگامہ پولس کی لاپروائی کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔
خبر رساں ادارہ ’یو این آئی‘ کے مطابق اترپردیش کے ضلع فتح پور کے گاؤں بہٹا میں منگل کو اس وقت کشید گی پھیل گئی جب کچھ لوگو ں نے ایک تالاب کے نزدیک سے گوشت کی برآمدگی پر جم کر ہنگامہ اور توڑ پھوڑ کیا اور مدرسہ میں آگ لگا دی۔ دراصل پیر کے دن یعنی 15 جولائی کو ہی صبح گاؤں میں تالاب کے نزدیک سے کچھ خواتین کو گوشت کا بیگ ملا تھا جس کے بعد سے گاؤں میں حالات کشیدہ ہو گئے تھے، لیکن برآمد گوشت کو گڈھے میں دفنا کر ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن ایک بار پھر جب منگل کے روز بیگ میں گوشت برآمد ہوا تو لوگوں کا غصہ مدرسہ پر پھوٹ پڑا۔
ذرائع کے مطابق گوشت کا بیگ برآمد ہونے کی خبر دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کے گاؤں ادرولی، شہباز پور،کھنجہل پور، فرید پور، دھن مئو اور گوری میں پھیل گئی ۔گوشت کی برآمدگی کی خبر ملتے ہی ان سبھی گاؤں کے افراد اکٹھا ہوگئے اور پرتشدد احتجاج کرتے ہوئے قریب کے مدرسے میں توڑ پھوڑ کر دی۔ اس سے قبل کہ پولس کوئی کارروائی کرتی، انہوں نے مدرسے میں آگ لگا دی۔ تشدد پر آمادہ افراد کا الزام ہے کہ برآمد گوشت مدرسے میں رکھا گیا تھا۔