کیا جمہوریت اپنی حیثیت کھو چکی ہے!

محمد آصف ا قبال، نئی دہلی
آج دنیا تشدد سے پریشان ہے۔تشدد کے علمبردار ہر زمانے میں تشدد کا فروغ امن و امان کے قیام کے نام کر تے آئے ہیں اور یہی کچھ آج بھی جاری ہے۔فی الوقت “امن و امان “کے نام پر تشدد کے فروغ کی مثال امریکہ سے ہے۔ وہی امریکہ جو چاہتا ہے کہ دنیا میں جس کو وہ امن کہے اسے سب امن کہیں اور جس کو وہ تشدد کہے اسے سب تشدد کہیں۔اس سے قطع نظر کہ دنیا امریکہ اور اس کی کاروائیوں سے کس قدر پریشان ہے۔سوال یہ ہے کہ جو ملک عرصہ دراز تک انسانوں کو رنگ و نسل کی بنیادوں پر تقسیم کرتا رہا اور انہیں بنیادوں پر ظلم و زیادتیاں اور استحصال میں اضافہ کرتا آیا ہے،وہ خود اپنے گریبان میں جھانکنے اور اس میں بہتری لانے کی کوشش کیوں نہیں کرتا ہے؟افسوس در افسود ایسے شطرمرغ اور اس کے ہمنواؤں پر جو خود کو چھوڑ کر دوسروں کے مسائل اپنے ہاتھ میں لینے ، ان کو حل کرنے اور ان میں کمیاں نکالنے کے درپے ہیں۔برخلاف اس کے واقعہ یہ ہے کہ آج کے “مہذب ترین “دور میں ،جبکہ حقوق انسانی کی باتیں ہر فرد و گروہ بڑے زور و شور سے اٹھاتا ہے،اپنے ہی ملک میں ہو رہی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔کچھ اسی طرح کا معاملہ ایک با ر پھر نسلی تعصب کے نتیجہ میں امریکہ میں سامنے آیاہے۔جس کے نتیجہ میں ایک طرف مہذب افراد اور ان کا ملک سیاہ فاموں کا قتل کررہا ہے تووہیں تشدد کا جواب تشدد سے دیا جا رہا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ حقوق انسانی کا علمبردار اور امن و امان کے قیام کے خواہش مند امریکہ کی ریاست ڈیلاس میں صرف 32گھنٹوں کی بد امنی میں 7افراد لقمۂ اجل بن گئے ۔فی الوقت ان حملوں سے امریکی غمزدہ ہیں اور مشکل کی اس گھڑی میں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں امریکی عوام کی حمایت درکار ہے۔یہ پورا واقعہ اس وقت پیش آیا جبکہ دو سیاہ فام افراد کو پولیس کے ہاتھوں قتل کیا گیا ،بعد میں امریکی ریاست مینسوٹا میں سیاہ فام شخص فیلینڈوکاسٹل کوگاڑی سے ڈرائیونگ لائسنس نکالتے وقت پولیس نے گولی ماردی نیز اگلے ہی دن ایلٹن اسٹرلنگ نامی ایک اور سیاہ فام شخص کو ریاست لوسیانا میں ہلاک کر دیا گیا۔وہیں سیاہ فام امریکی صدر بارک اوبا ما نے سیاہ فام امریکی شہریوں کیخلاف پولیس کے تشدد کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پولیس کے ہاتھوں تشدد ایک ‘سنگین مسئلہ’ہے۔سیاہ فام اوباما کے مطابق اداروں اور عوام کے درمیان اعتماد کی کمی ہے ۔جس کے نتیجہ میں اس طرح کے سانحات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے متعصب افراد کو برطرف کردیں۔متذکرہ واقعہ تکلیف دہ اور افسوسناک ہے اور ہمیں بھی انسانوں کے درمیان رنگ و نسل کی بنا پر برتری اور حقیر جاننے پر افسوس ہے۔ساتھ ہی ہلاک شدگان اور زخمیوں سے ہمدردی بھی ہے۔اس سب کے باوجود یہ ایک واقعہ ان تمام افراد و گروہ کوغور و فکر کا موقع فراہم کرتا ہے، جو امریکہ اور وہاں موجود آزادئ اظہار وحقوق انسانی کے گن گاتے نہیں تھکتے ۔یہ ٹھیک ہے کہ جس طرح ہمارے وطن میں تشدد پایا جاتاہے اور جس طرح یہاں بدکلامی جاری ہے،لوگوں کی عزت نفس کے کھلواڑ کی جارہی ہے،اور جس طرح حقوق انسانی کا گھلاگھوٹا جا رہا ہے،بالمقابل اس کے وہاں ظاہراً وہ کچھ نہیں ہوتا ،اس کے باوجود نہ وہاں کے حالات بہتر ہیں اور نہ یہاں کے۔کیونکہ ایک فکر و نظریہ ،انسانوں کا انسانوں ہی کے خلاف ظلم و زیادتیوں کا یہاں بھی ہے اور وہاں بھی۔یہاں اس کا واستہ منووادی فکر ہے ،جس میں ایک برہمن ہے تو دوسرا شودر تو وہاں رنگ و نسل کی برتری کی بنا پر عزت و ذلت کے پیمانہ قائم کیے گئے ہیں۔یہ الگ با ت ہے کہ دونوں ہی مقامات پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کچھ انسانی حقوق کے پیمانہ بھی قائم کیے گئے ہیں۔اس سب کے باوجود عملی مظاہر یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی فطر ت میں ظلم و زیادتیاں رچی بسی ہیں،نتیجہ میں ہر دو مقام پر انسانوں کا ایک گروہ دوسرے گروہ پر ظلم و زیادتیوں میں مصروف ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں اسلام کے سورج طلوع ہونے سے قبل ہر قسم کی زیادتیاں جاری تھیں۔فرعون وقت اپنی رعیت پرہر قسم کی زیادتیوں میں مصروف تھے۔مشہور یہی تھا کہ ملک کا بادشاہ ،خدا کا پرتو ہے،لہذا حکم خدا وندی یا حکم اقتدار ہم معنی سمجھا جاتا تھا۔ہندوستان کی تاریخ میں سب سے بڑی اور سب سے پہلی ،سلطنت موریہ تھی۔جس کا بانی چندر گپت موریہ تھا۔موریہ برہمنوں کی بالا دستی کو نہیں مانتے تھے۔ وہ ہندو مذہب کے روایتی، سماجی مذہبی اور سیاسی نظریات کی مخالفت کرتے تھے اور ذات پات کے مخالف تھے۔اس کے باوجود موریا حکومت اس دور کی دوسری ہندو حکومتوں کی طرح شخصی، مورثی اور مطلق العنان تھی۔ راجہ دیوتا کا نائب اور اس کی طاقتوں کا مظہر تھا۔ تمام عدالتی، انتظامی اور فوجہ اختیارات صرف اسے حاصل تھے۔وہیں ہندوستان میں اسلام سے قبل بدھ مذہب کے پیروکار تھے، نیز اس دور میں بہت ہی قلت کے ساتھ برہمنی مذہب کا یہاں پتہ چلتا ہے، لیکن اتنی بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اس وقت آرین مذہب کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی، بلکہ بدھسٹ اپنی خیرات تقسیم کرتے وقت جہاں دیگر مستحقین کو لائن میں لگاتے تھے وہیں برہمنوں کی قطار بھی ہوتی تھی (مختصر تاریخ ہند ۱۱۷؍۱-۱۱۸، از مسٹر ہنٹر) اس کے باوجود برہمن “بدھ”مذہب کو ختم کرکے آرین مذہب قائم کرنا چاہتے تھے۔ مورخ اسلام اکبرشاہ خاں کے حوالے سے چین کے مشہور عالم “ہیونگ شیانگ” نے ہندوستان کی سیاحت میں پندرہ سال (۶۳۰-۶۴۵ء) گزارے اوراس مدت میں ہندوستان کی سیر کی، وہ ہرمقام پر اپنے ماننے والوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ چناں چہ دوران سفر کئی جگہ ڈاکوؤں کے پنجے میں گرفتاری کا ذکر بھی کرتا ہے، اور ہمیشہ ان (لٹیروں) کو کافر اور بے دین بتاتا ہے حالانکہ وہ برہمنی مذہب کے پیروکار اور بدھ کے مخالف تھے (آئینہ حقیقت نما،ص:۸۴)۔گوتم بدھ اور اشوک کے بعد کے زمانے میں معاشرہ بت پرستی و بد عقیدگی اور شدت پسندی کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔جادو کا عام طور پر رواج تھا، غیب کی باتیں اور شگون کی تاثیرات بتانے والوں کی بڑی گرم بازاری تھی، محرمات ابدی کے ساتھ شادیاں کرلینے میں تامل نہ تھا، چناں چہ راجا داہر نے اپنی حقیقی بہن کے ساتھ پنڈتوں کی ایما ء سے شادی کی تھی، راہزنی اکثر لوگوں کا پیشہ تھا، ذات باری تعالیٰ کا تصور معدوم ہوکر اعلیٰ و ادنیٰ پتھر کی مورتوں اور بتوں کو حاجت روا سمجھتے تھے (آئینہ حقیقت نما،ص:۱۷۴-۱۷۵)۔اسی دور کا تذکرہ کرتے ہوئے علی میاں ندویؒ “منو شاستر”کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اس وقت عام طورپر ہندو مذہب نت نئے دیوتاؤں یہاں تک کہ آلۂ تناسل تک کا پوجا جانا بھی بڑی اہمیت رکھتا تھا (اورآج بھی یہ طریقہ ہندوؤں میں رائج ہے)۔ طبقہ واریت بے انتہا تھی یہاں تک کہ ایک قوم”شودر”نامی ، جس کے متعلق منوشاستر،ص:۶ پر ہے: “اگر کوئی شودر کسی برہمن کو ہاتھ لگائے یا گالی دے تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جائے، اگر اس کا دعویٰ کرے کہ اس کو (کسی برہمن) کو وہ تعلیم دے سکتا ہے تو کھولتا ہوا تیل اس کو پلایا جائے، کتے، بلی، مینڈک، چھپکلی، کوے، الو اور”شودر”کے مارنے کا کفارہ برابر ہے۔ یعنی اگر برہمن کا کوئی شخص دوسری ذات والے کو قتل کردے تو فقط اس کی اتنی سی سزا کہ اس کا سرمنڈوادیا جائے اوراس کے برعکس دوسری قوم کے لوگ برہمن کے سامنے لب کشائی بھی کریں تو ان کی جان کے لالے پڑجائیں۔یہ اس وقت کے حالات تھے جو شاید وطن عزیز کا ماضی تھا لیکن دور جدید میں کمزور طبقات اور دلتوں کے ساتھ نیز ملک کی اقلیتوں کے تعلق سے جو خیالات پائے جاتے ہیں، وہ بھی کچھ اچھے نہیں ہیں۔ساتھ ہی جو معاملات سامنے آتے رہے ہیں وہ مزید تشویشناک ہیں۔
دوسری جانب واقعہ یہ ہے کہ جدید امریکہ ہویا جدید ہندوستان،دونوں ہی ممالک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتی ہیں۔اس پس منظر میں ان ممالک میں جو واقعات رونما رو رہے ہیں اور جن سے یہاں کے لوگ نبر دآزما ہیں،وہ کیسے اس بات کو ثابت کریں گے کہ جمہوریت واقعتا مخصوص فکر و گرہوں کے گھر کی لونڈی نہیں بن چکی ہے؟واقعات کی روشنی میں کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جمہوریت اپنی اصل کے ساتھ ، عدل و انصاف کے پیمانہ برقرار رکھتے ہوئے لوگوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے؟اور اگر یہ مانا جائے کہ آج جمہوریت جس کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے وہ استعماریت اور آمریت میں تبدیل ہوچکی ہے تو پھر عوام کے پاس متبادل کیا ہے؟خصوصاً ان حالات میں جبکہ اسلام،اسلامی تعلیمات اور داعیان اسلام پر پابندی کی بات کی جا رہی ہو!(ملت ٹائمز)

maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com

یہاں کلک کرکے ملت ٹائمز کا فیس بک پیج جوائن کریں اوررہیں ہر تازہ اپڈیٹ سے باخبر