گذشتہ دنوں چیف جسٹس آف انڈیا نے حکم دیا تھا کہ عدالت سب سے پہلے رام للا (سوٹ نمبر 5) اور نرموہی اکھاڑہ (سوٹ نمبر 3) کاموقف سنے گی
نئی دہلی(ایم این این )
بابری مسجد ملکیت تنازعہ کی سپریم کورٹ کی زیر نگرانی مصالحتی کمیٹی کی جانب سے فریقین کے مابین گفت و شنید کے ذریعہ معاملہ حل کرانے کی کوشش نام ہونے کے بعد آج بالآخیر حتمی سماعت شروع ہوئی جس کے دوران سب سے پہلے نرموہی اکھاڑہ کے وکیل نے بحث کا آغاز کیا اور دعوی کیا کہ گذشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے مسجد کے اندرونی صحن پر اس کا قبضہ ہے۔
اس معاملہ کی سماعت کرنے والی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس اے ایس بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو سینئر ایڈوکیٹ سشیل کمار جین نے بتایا کہ انہیں باہری صحن (مسجد کے)پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ رام جنم بھومی استھان اندرونی احاطہ میں ہے۔انہوں نے عدالت سے گذارش کی کہ عدالت کورٹ ریسیور کو فوراً ہٹا کر متذکرہ اراضی کو نرموہی اکھاڑہ کے قبضہ میں د ے جو درجنوں مندروں اوراداروں کو چلاتی ہے۔
اسی درمیان جب چیف جسٹس آف انڈیا نے ایک سوال پوچھا جس کا جواب دینے کے لیئے جیسے ہی جمعیةعلماءہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون کھڑے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا نے انہیں خاموش رہنے کو کہا جس پر ڈاکٹر راجیو دھون برہم ہوگئے اور کہا کہ وہ عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوال کا جواب دینا چاہتے تھے لیکن عدالت انہیں اجازت نہیں دے رہی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ان کا نمبر بھی آئیگا بحث کرنے کے لیئے پہلے نرموہی اکھاڑہ کی بحث مکمل ہوجائے۔
واضح رہے کہ گذشتہ دنوں چیف جسٹس آف انڈیا نے حکم دیا تھا کہ عدالت سب سے پہلے رام للا (سوٹ نمبر 5) اور نرموہی اکھاڑہ (سوٹ نمبر 3) کاموقف سنے گی جس پر جمعیة علماءہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے اعتراض کیا تھا اور کہا تھا کہ اس معاملہ میں جمعیة علماءہند کی اپیل پہلے داخل کی گئی تھی جس پر سماعت پہلے ہونی چاہئے لیکن عدالت نے ان کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے حتمی بحث شروع کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔
آج فریقین کی بحث نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی کل تک ملتوی کردی۔
بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 پر بحث کے دوران جمعیة علماءکی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیودھون کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ جارج، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراة العین، ایڈوکیٹ محمد عبداللہ و دیگر موجود تھے۔






