شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
۳ – زندگی کے تمام مسائل میں تربیت کا نظام قائم ہے، بچوں کو بالغ ہونے سے پہلے نماز کا طریقہ سکھایا جاتا ہے، حج کے لئے جانے والوں کو حج کا طریقہ بتایا جاتا ہے، فنی کام انجام دینے والے لوگ اپنی لائن کے کسی ماہر آدمی سے کام سیکھتے ہیں، ٹیچروں کے لئے تربیتی کورس کو لازم قرار دیا گیا ہے، آج کل پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کے نام پر تعمیر ِشخصیت کا کورس پڑھایا جاتا ہے، جو ہر شخص کے لئے ہوتا ہے، مگر افسوس کہ ازدواجی زندگی جس سے انسان کا تعلق زندگی کے آخری لمحے تک قائم رہتا ہے، جس سے خاندان کی تعمیر، بال بچوں کی پرورش اور صرف شوہر و بیوی ہی کا نہیں؛ بلکہ دونوں کے خاندان اور اولاد کا ذہنی سکون بھی جُڑا ہوا ہے، اس کے لئے پہلے سے لڑکوں اور لڑکیوں کو تیار نہیں کیا جاتا، نہ والدین اس نقطۂ نظر سے ان کی تربیت کرتے ہیں، نہ خاندانی تقریبات میں اس پر بات ہوتی ہے، نہ مسجدوں کے بیانات میں یہ گفتگو کا موضوع ہوتا ہے، نہ دینی جلسوں اور اجتماعات میں اس کو قابل توجہ سمجھا جاتا ہے، یہ ایک بڑا سبب ہے ازدواجی رشتوں میں تلخیوں کا، ناکامیوں کا اور طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات کا۔
اس حقیر کو جن ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا، ان میں ایک ملیشیا بھی ہے، میں نے وہاں مسجدوں میں دیکھا کہ نوشادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے تربیتی ورکشاپ منعقد کئے جا تے ہیں، میں نے بعض احباب سے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہاں مستقبل قریب میں جن لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی ہونے والی ہے یا ماضی قریب میں جن کی شادی ہوئی ہے، ان کے لئے حسب ضرورت تین روزہ پانچ روزہ تربیتی پروگرام رکھے جاتے ہیں، اور بعض پروگرام تو ان کے والدین کے لئے بھی رکھے جاتے ہیں، اس میں ان کو نکاح کی اہمیت، نکاح کے بعد آنے والی ذمہ داریاں، طلاق کے احکام، رشتوں کو پائیدار اور خوشگوار رکھنے کے طریقے، ایک دوسرے کی نفسیات کا ادراک وغیرہ جیسے موضوعات پر گفتگو کی جاتی ہے، اور لوگ اس میں بڑے اہتمام سے شریک ہوا کرتے ہیں، بعض اور ملکوں کے بارے میں بھی اس طرح کی بات سننے میں آئی، کیا بہتر ہو کہ ہم ہندوستان میں بھی ایسے تربیتی پروگرام رکھیں، تربیت ایسی چیز ہے جو شیر جیسے سرکش اور ہاتھی جیسے طاقتور جانور کو انسان کے تابع کر دیتی ہے، تو کیا ہم تربیت کے ذریعہ مزاج و سلوک میں بہتر بدلاؤ نہیں لا سکتے؟ مسلمان مذہبی تنظیموں کو خاص طور پر اس جانب توجہ دینی چاہئے۔
۴ – اگر کسی آبادی میں ہر وقت علاج کا انتظام نہ ہو تو ظاہر ہے کہ بیماریاں بڑھیں گی، بیماری فطری چیز ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا علاج بھی رکھا ہے، اسی طرح انسان کے باہمی تعلقات میں نشیب و فراز کا آنا بھی فطرت کا حصہ ہے، کتنا بھی پڑھا لکھا سمجھدار اور بااخلاق معاشرہ ہو، ممکن نہیں کہ کبھی اس میں کوئی اونچ نیچ پیدا نہ ہو، شوہر و بیوی کا تعلق تو ۲۴؍گھنٹے کا تعلق ہے، اور خلوت و جلوت ہر جگہ وہ ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں؛ اس لئے ان کے درمیان بعض دفعہ نااتفاقی پیدا ہوجانا قریب قریب یقینی ہے، یہ بات چوں کہ ہر شخص کی زندگی میں پیش آنے والی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے ہر مرحلے میں پوری انسانیت کے لئے اسوہ ہیں؛ اس لئے خود آپ کی حیات طیبہ میں بھی ایسے بعض چھوٹے موٹے واقعات پیش آئے۔
لیکن ضرورت ہے ایسے سماجی اداروں کی جو اختلافات کو پاٹ سکیں، اور شوہر و بیوی کے درمیان پیدا ہونے والے فاصلوں کو پُر کر سکیں، جیسے معالج نہ ہو تو بیماری بڑھتی چلی جاتی ہے، اسی طرح اگر اختلاف کو دور کرنے والے لوگ نہ ہوں تو اختلاف بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ طلاق کی نوبت آجاتی ہے، قرآن نے اس بات کو مسلمانوں کا اجتماعی فریضہ قرار دیا ہے کہ دو مسلمانوں کے اختلاف کو دور کیا جائے اور ان کے درمیان صلح کرائی جائے: فأصلحوا بین أخویکم (حجرات: ۱۰) اور یہ بھی فرمایا گیا کہ صُلح بہتر ہے: ألصلح خیر (نساء:۱۲۸) کیوں کہ عدالت اور پولیس اسٹیشن کے ذریعہ جو فیصلے ہوتے ہیں، وہ چاہے حق دار کو اس کا حق دلا دیں؛ لیکن اس سے دلوں کے فاصلے ختم نہیں ہوتے، مفاہمت کے ذریعہ دلوں کے فاصلے دور ہو جاتے ہیں، اور الفت ومحبت کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے، یہ کام کاؤنسلنگ سینٹروں کے ذریعہ ہو سکتا ہے، بہت سی مرتبہ کوئی معمولی سی بات اختلاف کی موجب ہوتی ہے، کسی فریق کی اَنا کا مسئلہ ہوتا ہے، اگر دونوں کو بِٹھا کر بات کی جائے، اور پھر الگ الگ گفتگو کر کے ان کوسمجھایا جائے تو بہت کم مدت میں یا بعض دفعہ فوری طور پر دوریاں ختم ہو جاتی ہیں، ضرورت ہے کہ ہر مسجد میں کاؤنسلنگ سینٹر ہو اور تمام اہل محلہ کے ذہن میں یہ بات بیٹھادی جائے کہ کوئی بھی اختلاف ہو تو آپ اس سینٹر سے رجوع کریں، اس طرح بہت سے اختلافات کو ہم طلاق تک پہنچنے سے روک سکتے ہیں۔
۵ – اگر خدانخواستہ طلاق کی نوبت آہی جائے تو اب آگے کا مسئلہ دارالقضاء میں پہنچنا چاہئے، مسلمان جہاں بھی ہوں، خواہ وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں، شرعاً ان پر واجب ہے کہ وہ قضاء کا نظام قائم کریں، اور اپنے تمام نزاعات کو قاضی کے پاس لے جائیں، اور قاضی جو فیصلہ کرے خوش دلی کے ساتھ اس کو قبول کریں، قرآن میں نہایت تاکید کے ساتھ قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مسلمان جب تک اپنے باہمی نزاعات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں نہیں لائیں ، اور جو فیصلہ یہاں سے ہو، ان کے موافق ہو یا ان کے خلاف، اس سے وہ تنگی محسوس نہیں کریں اور اس کے سامنے سر نہ جھکالیں، اس وقت تک وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتے۔ (نساء: ۶۵) اور ہر مسلم حکومت یا مسلمانوں کے ارباب حل و عقد جس کو قاضی مقرر کر لیں، یا مسلم سماج جس کو قاضی منتخب کر لے، وہ دراصل اس معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے؛ اس لئے ان کے سامنے اپنے معاملات کو پیش کرنا اور فیصلے کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرنا واجب ہے۔
ہندوستان میں جہاں امارت کا نظام قائم ہے، وہاں امارت دارالقضاء قائم کرتی ہے، اور جہاں امارت کا نظام قائم نہیں ہے، وہاں مسلمانوں کا متفقہ پلیٹ فارم ہونے کی وجہ سے ” آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ‘‘ قاضی مقرر کرتا ہے، اور موجودہ حالات کے پس منظر میں بورڈ اس کام کو ایک تحریک کے طور پر آگے بڑھارہا ہے، تو اگر خدانخواستہ تین طلاق کے واقعات بھی پیش آجائیں تو اس کے بعد کے حقوق کے لئے فریقین کو چاہئے کہ دارالقضاء سے رجوع کریں، اور دارالقضاء کو چاہئے کہ صلح کا ایسا راستہ نکالے کہ بالخصوص تین طلاق کی صورت میںمعاملہ عدالت تک نہ پہنچے؛ بلکہ گفت و شنید کے ذریعہ مطلقہ کو سابق شوہر سے ایک ایسی رقم دلائی جائے کہ عورت کے مستقبل کے مسائل کو حل کرنے میں سہولت ہو۔
دارالقضاء سے اپنے معاملات کو حل کرانا شرعی فریضہ تو ہے ہی؛ لیکن بہت سے سماجی اور دینی مسائل کا بھی حل ہے، اس طرح فریقین مقدمہ کے کثیر صرفہ سے بچ جاتے ہیں، عدالت میں جا کر جھوٹی قسمیں کھانے کے گناہ سے بچے رہتے ہیں، مقدمہ کی پیروی میں جو ہراسانی ہوتی ہے، اس سے بھی محفوظ رہتے ہیں، نفرت کی آگ بجھتی ہے اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔
۶ – مسئلہ پر غور کرنے کا ایک فقہی پہلو بھی ہے، تین طلاق کی دو شکلیں ایسی ہیں، جن میں روافض اور اہل حدیث کے نزدیک ایک ہی طلاق ہوتی ہے، ایک یہ ہے کہ تین کے عدد کی صراحت کے ساتھ طلاق دی جائے، جیسے کہے: میں نے تین طلاق دی یا ایک دو تین طلاق دی، دوسری صورت یہ ہے کہ تین کے عدد کی صراحت کے بغیر تین بار طلاق کے الفاظ استعمال کئے جائیں، جیسے :طلاق، طلاق، طلاق، اور کہے کہ میری نیت تین طلاق دینے کی تھی، ان دونوں صورتوں میں دیگر فقہاء احناف، مالکیہ، شوافع، حنابلہ اور امام بخاری وغیرہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔
لیکن اگر اس کے لئے تین کے عدد کی یا تین کی نیت ہونے کی صراحت نہیں کی گئی ، صرف طلاق کے لفظ کو یا طلاق کے فقرہ کو تین بار دہرایا جیسے: وہ کہتا ہے طلاق، طلاق، طلاق، یا طلاق دیا، طلاق دیا، طلاق دیا، اور کہتا ہے کہ میری نیت تین طلاق دینے کی نہیں تھی، میں ایک ہی طلاق دینا چاہتا تھا، یا میں صرف طلاق دینا چاہتا تھا، یا میں سمجھتا تھا کہ تین بار بولنے سے ہی طلاق پڑتی ہے، تو ان صورتوں میں مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک مفتی اور قاضی دونوں اس کی نیت کا اعتبار کریں گے، اور ایک طلاق تسلیم کریں گے، اور احناف و شوافع کے نزیک مفتی تو اس کی نیت کا اعتبار کرے گا، اور ایک طلاق واقع ہونے کا فتویٰ دے گا؛ لیکن اگر معاملہ قاضی کے پاس چلا گیا تو قاضی ظاہری الفاظ کو دیکھتے ہوئے تینوں طلاق واقع ہونے کا حکم لگائے گا (دیکھئے: الموسوعۃ الفقہیہ:۱؍۲۱۱، مادہ: اتحاد المجلس)
موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اگر ارباب افتاء اس پر عمل کریں اور تین کے عددکی صراحت کے بغیر لفظ طلاق یا فقرۂ طلاق کو مکرر بولنے کی صورت میں اس پرایک طلاق کا حکم لگائیں؛ بشرطیکہ صاحب معاملہ خود دعویٰ کرتا ہو کہ اس کی نیت تین طلاق دینے کی نہیں تھی، تو اندازہ ہے کہ پچانوے فیصد واقعات میں ایک ہی طلاق واقع ہوگی اور مشکلات پیدا نہیں ہوں گی۔