احساس نایاب
ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے کا جو خواب آر ایس ایس نے دیکھا تھا وہ آزادی کے 72 سالوں بعد 2019 میں دوبارہ مودی کی جیت کے ساتھ رنگ لاتا دکھائی دے رہا ہے۔
سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگاتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے والے دیکھتے ہی دیکھتے کس طرح سے پورے ہندوستان پہ قابض ہوچکے ہیں اس کا اندازہ انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کی بری طرح سے ہوئی ہار اور راجیہ سبھا سے آر ٹی آئی, یو اے پی اے, این آر سی جیسے بل کی منظوری سے لگایا جاسکتا ہے
جمہوری ملک کہلانے والا ہندوستان آج مکمل طور سے بھاجپا کے ہندوتوا کے ایجنڈے پر گامزن ہے اور جس تیزی سے بی جے پی اپنے مقصد کو پورا کرنے کی جدوجہد کررہی ہے اس میں کوئی حیرانگی نہیں ہونی چاہئیے کہ بہت جلد پورے ملک کو ہندو راشٹر قرار دے دیا جائے گا اور اس خواب تعبیر کی قیمت ہر ہندوستانی کو چکانی پڑے گی۔
یوں تو اس کی شروعات 2014 نومبر کو راتوں رات کالا دھن لانے کی آڑ میں نوٹ بندی جیسے جاہلانہ فیصلے کو جبراً عوام پہ تھوپ کر کیا گیا. اور اُس وقت جس فیصلے کو بےبنیادی ٹہرایا جارہا تھا دراصل اُس کا اصل مقصد آج سمجھ آرہا ہے کہ مودی سرکار نے کیوں راتوں رات بنا کسی کو اطلاع کئے نوٹ بندی کا اعلان کردیا ؟
دراصل بی جے پی کی منشا عوام کے ساتھ ساتھ سیکولر کہلانے والی اپوزیشن جماعتوں کی بھی کمر توڑنی تھی جس سے پورے ہندوستان کی اقتصادی حالت پست ہوتی چلی گئی. وہیں بھاجپائیوں کا سارا کالا دھن سفید ہوگیا جس سے وہ مستقل طور پہ مضبوط ہوگئے اور اس نوٹ بندی کے وار سے عوام ابھی سنبھلی بھی نہیں تھی کہ جی ایس ٹی لاکر عوام کا جینا محال کردیا گیا تاکہ عوان روزمرہ کی جدوجہد میں اتنی مصروف ہوجائے کہ سرکار کی کالی کرتوتوں کی اور اُس کی نظر نہ پڑے لیکن جب پانی سر سے اوپر چڑھنے لگا اور اس طرح کے غیر جانبدارانہ فیصلوں کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت دن بہ دن خستہ ہونے لگی تو اس کی زد میں کسانوں سے لے کر ہر عام و خاص انسان آنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں بےروزگاری عام ہوگئی …… دوسری طرف سرحد پہ تعینات جوانوں کی زندگیاں بھی داعو پہ لگ گئیں کئی سپاہیوں نے سوشیل میڈیا کے ذریعہ سرکار کے خلاف غصہ کا اظہار کیا اس سے مودی سرکار کی اور سے کئے گئے 15 لاکھ, ایک سر کے بدلے دس سے جیسے دعوے بےبنیاد, جملے بازی و جھوٹے ثابت ہوئے. ایسے میں اپنی کرتوتوں کو چھپانے کے خاطر ملک میں مذہب کے نام پہ ہندو مسلم کا زہر گھولا گیا جس کے لئے آئے دن رام مندر اور طلاق جیسے غیر ضروری مدعوں کو ہوا دی گئی نتیجتاً عوام اصل مدعوں سے بھٹک ہندو مسلمان میں الجھ گئی …… اسی بیچ 2019 کے عنقریب حب اپوزیشن پارٹی 4 سالہ کمبھ کرن کی نیند سے جاگی تو اُس کے ہاتھ رفائیل ڈیل گھوٹالہ کی حقیقت آگئی اور ہندوستان بھر میں مودی چور ہے کہ نعرے گونجنے لگے اور مودی سرکار چاروں اور سے اپوزیشن جماعت کے گھیرے میں آگئی …… ان حالات میں جہاں بی جے پی کو اپنی نیئا کنارے پر ہی ڈوبتی نظر آنے لگی , یہاں تک کہ ہندو راشٹر کا خواب دم توڑتا نظر آرہا تھا ……. ایسے میں سیاسی بساط پہ بڑے ہی شاطر طریقے سے پلوامہ نامی حکم کا ایکا دوڑایا گیا اور بھولی بھالی عوام کے آگے سرجیکل اسٹرائک کا جھوٹا ڈرامہ رچ کر مودی جی ایک بار پھر سے مہان ہوگئے , اتنے مہان کے اُن کی اگلی پچھلی تمام ناکامیاں کرتوت پلوامہ میں شہید ہوئے شہیدوں کے لہو میں دُھل کر بی جے پی کا پھر سے شُدھی کرن ہوگیا اور ایک بار پھر 2019 کی جیت کا سہرا مودی جی کے سر بندھ گیا جس کے ساتھ ہی مودی سرکار ایک نئے جوش و عزائم کے ساتھ میدان میں کود پڑی اور اب اُن کے نشانہ پہ سیدھے سیدھے مسلمان ہیں کیونکہ ہندو راشٹر بنانے کے لئے جو منصوبہ بندی کی گئی ہے جو ایجنڈے تیار کئے گئے ہیں اُس کو انجام دینے کے لئے انہیں ہر لحاظ سے مسلمانوں کو کمزور بنانا ہوگا جس کے لئے مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کا زور آزمایہ جارہا ہے اور اندیشہ ہے کہ اس مرتبہ ہر وہ پینترے آزمائے جائینگے جو کسی کے بھی سوچ و گماں سے پرے ہیں …..
جس کی شروعات فی الحال این آر سی نامی وباء سے ہوچکی ہے جو 7 جون کو بی جے پی گڑھ کے چانکیہ کہلانے والے وزارت داخلہ امت شاہ کے نئے حکم نامہ کے تحت جاری کیا گیا ہے این آر سی یعنی ( نیشنل رجسٹر آف سرٹیفکیٹ) جس کی چپیٹ میں آسام کے 40 لاکھ باشندے آچکے ہیں جنہیں غیر ملکی قرار دیا گیا ہے اور اس بل سے متاثر ہونے والوں میں غریب, لاعلم مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن میں کسی نے اپنی زندگی کے 30 سال فوج میں ملازمت کی ہے کارگل میں حصہ لیا اور صدر جمہوریہ کے ہاتھوں اپنی کارگردگی کے لئے اعزاز حاصل کیا اور 2017 کے بعد آسام بارڈر پولس میں سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہیں , ان کے علاوہ آسام کی چیف منسٹر رہ چکی انورہ تیمور بھی این آر سی کی چپیٹ میں آچکی تھیں، جسے دیکھتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اس بل کی سختی کا پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیسے اس بل کو استعمال کر مسلمانوں کے رسوخ و دبدبہ کو بھی سرکار کی اور سے دبایا جاسکتا ہے، ویسے تو اس بل کے متعلق سرکار کا کہنا ہے کہ یہ بل ہندوستان کی سیکورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے بیحد ضروری ہے کیونکہ سرحد پار کر گھُس بیٹھئے ہندوستان میں داخل ہورہے ہیں جو ہندوستان کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں پر بھی سرکار کا دوغلہ رویہ صاف نظر آتا ہے جہاں ہندوؤں کو شرنارتھی کہہ کر ہندوستانی شہریت دی جارہی ہے وہیں مسلمانوں کو سیدھے سیدھے گھُس بیٹھئے کہہ کر ہراساں کیا جائیگا انہیں بانگلہ دیشی و پاکستانی کہہ کر غیر ملکی قرار دیا جائیگا کیونکہ اس بل کا سیدھا ٹارگیٹ مسلمان ہی ہونگے اور آسام سے ہوئی شروعات بہت جلد پورے ہندوستان میں اپنے پیر پسارے گی اور ماں باپ کے آگے اولاد تو اولاد کے آگے ماں باپ کو غیر ملکی کہا جائیگا ………
اور اسی کے ساتھ ہی دوسرے طرف مودی سرکار کی جانب سے آر ٹی آئی ترمیمی بل کو بھی پارلیمنٹ سے منظور مل گئی ہے۔
آر ٹی آئی یعنی ( ریووٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ) اردو زبان میں کہیں تو حق اطلاعات، جس کو ہندوستانی عوام کا سب سے طاقتور قانونی ہتھیار مانا جاتا تھا جس کے استعمال سے سیاسی, سرکاری شعبوں کے ساتھ ہر تنظیم, ادارے, جماعتیں, این جی او اور سرکاری اسکیموں کے متعلق سماجی و صحافتی رضاکاروں کے ذریعے عوام تک سچائی پہنچتی تھی لیکن اس ترمیم کے بعد سیاستدانوں کی چوری, ڈکیتی اور اُن کے کالے چٹھے سات پرتوں میں چھپے رہ جائینگے کیونکہ ہندوستانی عوام کے ہاتھوں سے سچائی جاننے والا یہ برہمہ شستر بھی چھین لیا گیا ہے ……..
اور اس پہ ستم ظریفی تو دیکھیں 2 اگست 2019 کو راجیہ سبھا میں “یو اے پی اے” جیسا خطرناک بل پاس کروالیا گیا ہے جس کا مطلب …….
( Unlawful activities prevention Amendment Bill ) ……
جس کے بارے میں ڈی ایم سی کی محوا موئترا نے کہا تھا “سب تیرے سوا کافر” ……. انہیں کی طرح ڈگ وجے سنگھ نے کہا تھا کہ ” آپ مجھے ہی دہشتگرد اعلان کردیجئیے” ……. ان دونوں کے بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بل آنے والے دنوں میں مسلمانوں کے لئے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس بل کے تحت کسی بھی شخص کسی بھی تنظیم کو محض شک کے بنا پر دہشتگرد قرار دے دیا جائے گا چاہے وہ کوئی صحافت سے جڑا ہو رائٹر ہو سوشیل ایکٹویسٹ ہو انقلابی پوئیٹ ہو یا کوئی بھی تنظیم, ادارہ اور جماعت ہی کیوں نہ ہو ……
ویسے بھی آئے دن کئی مسلم نوجوانوں کو دہشتگرد کہہ کر سالوں سال زندانوں میں ڈالا جارہا ہے, مدرسوں و مساجدوں کو دہشتگردی کا اڈا کہہ کر تفتیش کے نام پہ وہاں بےحرمتی کی جارہی ہے اور کئی مسلم تنظیموں و جماعتوں کو دہشتگردی کے جھوٹے الزامات لگاکر بین کرنے اُس سے جُڑے نوجوانوں کے حوصلے توڑنے کی بھی کوشش جاری ہے ایسے میں یو اے پی اے جیسی بل کا راجیہ سبھا سے منظور ہونا مطلب مودی سرکار کی تمام مسلم مخالف سازشوں کو کلین چٹ ملنے کی طرح ہے تاکہ وہ اس کا استعمال کر اپنی گندی سیاست کرتے ہوئے اپنے گھٹیہ منصوبوں کو انجام دے سکے
یہاں پہ غور طلب بات یہ بھی ہے. جدھر مودی سرکار نے آناً فاناً میں کئی سارے بل پاس کروادئے وہیں کشمیر سے 70 سالہ پرانہ 370 بل و 35A کو اچانک ہٹاکر کشمیر کی خصوص اہمیت کو ہی ختم کرنے کا فیصلا لیا گیا ہے جو بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتا ہے کیونکہ آرٹیکل 370 کے ہوتے ہوئے وادی کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل تھا وہاں کی سرکار خودمختار تھی اور انہیں اپنے فیصلے آپ لینے کا اختیار حاصل تھا لیکن جیسے ہی اس کو ہٹایا گیا جمو کشمیر دو حصوں میں تقسیم ہوجائیگا اور آنے والے دنوں میں کشمیریوں پہ طلاق ثلاثہ سے لے کر وہ تمام قوانین عائد ہوجائینگے جو فی الوقت ہندوستانیوں پہ نافذ ہیں …….. اور خاص کر یو اے پی اے جیسی بل کشمیری نوجوانوں کے مستقبل کے لئے بیحد خطرناک ثابت ہوسکتی ہے, ساتھ ہی 35A کے مطابق کل تک جو کشمیر کی سرزمین پہ صرف کشمیریوں کا حق ہوا کرتا تھا اب غیر کشمیری بھی اُس سرزمین کے مالک بن سکتے ہیں جس سے غریب کشمیریوں کو مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے سرکاری ملازمت سے لے کر سرکاری اسکیم و دیگر سہولیات جو صرف کشمیریوں کے لئے ہوا کرتی تھیں اب اُس کا فائدہ غیر کشمیری بھی اُٹھا سکتا ہے اور یہاں پہ کئی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جیسے جمو میں کچھ سال قبل ہندوؤں کو بساکر مسلمانون کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیا گیا تھا ٹھیک اُسی طرح کشمیر میں بھی ہندو آبادی کو بڑھا کر مسلم اکثریت کو گھٹانے کی کوشش کی جائے گی ساتھ ہی 40 فیصد مسلم آبادی والے لداخ کا بھی یہی حال ہوسکتا ہے تاکہ مستقبل میں بی جے پی وہاں پہ اپنا ووٹ بینک قائم کرسکے اور اسی کے ساتھ شدت پسند ہندوؤں و سیکولر کہلانے والوں کو اپنا مداح بناسکے ……… ان سورتحال میں 2024 تک بی جے پی کا جو دعوی تھا ہندوراشٹر منانے کا اُس کے لئے ایک طرح سے یہ اقدام کارآمد ثابت ہوسکتا ہے، ویسے بھی اندازہ تو یہ بھی لگایا جارہا ہے کہ اس طرح کے سیاسی داعوپیج کا استعمال کرکے بی جے پی مستقل کئی سالوں کے لئے ستہ کی کرسی اپنے لئے مضبوط کرچکی ہے …….. اور اس طرح کے قوانین کے چلتے شاید مستقل مسلمانوں کو بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑیگا, کئی قسم کی قربانیاں دینی پڑینگی بھلے وہ کشمیری مسلمان ہوں یا ہندی مسلمان ویسے بھی آج کے وقت میں بھاجپا کے لئے مسلمان کسی حکم کے ایکا سے کم نہیں ہے جن کے نام پہ وہ لگاتار اپنی سیاسی روٹیاں سیک رہے ہیں ……… اگر انہیں حقیقتاً ہندی مسلمانوں و کشمیری مسلمانوں سے ہمدردی ہوتی تو آج ملک بھر میں مآب لنچنگ کے خلاف سخت سے سخت قانون نافذ کئے جاتے ساتھ ہی ہندوستان میں تجارت و تعلیم کے لئے رہائش پزیر کشمیریوں کو ہراساں نہیں کیا جاتا نہ ہی. نہ ہی کشمیر سے محبت و کشمیریوں سے بےرخی کا مظاہرہ کیا جاتا جس کے چلتے کشمیری عوام کو کئی دنوں سے نظربند کیا گیا ہے, کرفیو لگاکر انٹرنیٹ اور رابطہ کی دیگر سہولیات بند کردی گئی ہیں جو بیحد افسوسناک ہے ……… آج ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں و خود کو سیکولر کہنے والی جماعتوں کو اپنے و ملک کے مستقبل کو لے کر بہتر رائے عامہ تیار کرنا ہوگا ورنہ آج مسلمان تو کل دیگر اقلیتی طبقات بھی بھاجپائیوں کی نفرت سے بچ نہیں پائینگے …….. کیونکہ
لگے گی آگ تو آئینگے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے