سری نگر ی (ڈی ڈبیلو)
بی جے پی حکومت کی طرف سے بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے اب تک ہونے والی پہلی مسلح جھڑپ میں دو افراد مارے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک پولیس اہلکار تھا اور دوسرا ایک مشتبہ عسکریت پسند حالاں جھڑپ اور احتجاج کے واقعات اس سے پہلے بھی پیش آئے ہیں جس کی جس کی حکومت تردید کرتی رہی ہے ۔
بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں سری نگر سے بدھ اکیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پولیس نے بتایا کہ جب سے نئی دہلی حکومت نے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے بعد سے اب تک پہلی مرتبہ ریاست میں بھارتی سکیورٹی دستوں اور کشمیری عسکریت پسندوں کے مابین ایک خونریز جھڑپ ہوئی ہے۔ اس لڑائی میں ایک مشتبہ عسکریت پسند کے علاوہ ایک بھارتی سکیورٹی اہلکار بھی مارا گیا۔
اسی دوران دو ہمسایہ لیکن حریف ایٹمی طاقتوں کے طور پر پاکستان اور بھارت کے مابین سرحدی کشیدگی بھی زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستانی حکام کی طرف سے کہا گیا ہے کہ کشمیر میں کنٹرول لائن کے پار سے بھارتی دستوں کی طرف سے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تین عام شہری مارے گئے۔
دریں اثناءپریس ٹرسٹ آف انڈیا نے بھارتی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ کل منگل کے روز کشمیر کے پونچھ سیکٹر میں کنٹرول لائن کے قریب پاکستانی دستوں کی طرف سے بھارتی فوجی پوزیشنوں پر کی گئی فائرنگ میں ایک بھارتی فوجی ہلاک اور چار دیگر زخمی ہو گئے۔
اس طرح بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح جھڑپوں اور کنٹرول لائن پر دونوں حریف ممالک کے دستوں کے مابین ہونے والے فائرنگ کے تبادلے میں کشمیر سے متعلق مودی حکومت کے فیصلے کے بعد سے ایک بار پھر متعدد افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور یہ ہلاکتیں خراب سے خراب تر ہوتی ہوئی صورت حال کی عکاسی کرتی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ کشمیر کی صورت حال ‘دھماکا خیز‘ ہے اور وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ایک بار پھر گفتگو میں اس تنازعے میں اسلام آباد اور نئی دہلی کے مابین ممکنہ ثالثی کے بارے میں بات چیت کریں گے۔
امریکی صدر نے وائٹ ہاو¿س میں منگل کی شام صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”کشمیر ایک بہت پیچیدہ جگہ ہے۔ وہاں ہندو بھی رہتے ہیں اور مسلمان بھی۔ اور میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کے باہمی تعلقات بہت شاندار ہیں۔“ ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا، ”میں ثالثی کے لیے اپنی وہ بھرپور کوشش کروں گا، جو میں کر سکتا ہوں۔“
اس ماہ کے اوائل میں جب سے مودی حکومت نے نئی دہلی کے زیرانتظام جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور اپنے زیر انتظام اس خطے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں بھارت کے یونین علاقے بنا دینے کا فیصلہ کیا ہے، تب سے اب تک خود بھارتی حکومتی اور سکیورٹی ذرائع کے مطابق کم از کم بھی چار ہزار کشمیری سیاستدانوں، سماجی رہنماو¿ں اور سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
اس کے علاوہ کشمیر میں عوامی نقل و حرکت کی آزادی بھی تاحال انتہائی محدود ہے جبکہ وادی میں مواصلاتی رابطوں کی دستیابی کے حوالے سے بھی ایک ‘بلیک آو¿ٹ‘ نافذ کیا جا چکا ہے۔ اس صورت حال کو کئی بین الاقوامی ماہرین علاقائی اور عالمی سطح پر شدید تشویش کی وجہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
امریکی دفتر خارجہ کا موقف
ان حالات میں واشنگٹن میں امریکی دفتر خارجہ کے ذرائع نے کہا ہے، ”ہمیں کشمیر میں بے تحاشا گرفتاریوں، نقل و حرکت کے انتہائی محدود کیے جانے اور خطے کے عوام پر لگائی جانے والی پابندیوں پر گہری تشویش ہے۔“امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر اے ایف پی کو بتایا، ”ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کشمیر میں شہریوں کے شخصی حقوق کا احترام کیا جائے، قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھا جائے اور ایسی مکالمت شروع کی جائے، جو تنازعے کی شدت میں کمی کا سبب بن سکے۔“(بشکریہ ڈی ڈبلیو )






