کشمیر بحران پر مسلم جماعتوں کی میٹنگ میں ملی کونسل ،مشاورت اور پی ایف آئی سمیت کئی اہم جماعتوں کو دعوت نہیں دی گئی ۔ مسلم پرسنل لاءبورڈ اور ایم جے خان کی شرکت پر بھی سوال

مسلم جماعتوں کا یہ موقف سامنے آنے کے بعد کشمیریوں کو نقصان ہوگا اور عالمی سطح پر حکومت اسے اپنے حق میں استعمال کرے گی کہ ہندوستان مسلمان بھی کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے خلاف نہیں ہیں
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
گذشتہ کل جمعیت علماءہند کے میل کے ذریعہ ایک پریس ریلیز جاری کی گئی ہے جس میںکشمیر بحران پر مسلم قائدین کی قرار داد پیش کی گئی ہے ۔ اس قرار داد کو مسلم جماعتوں کی متفقہ قرار داد بتایاگیاہے حالاں کہ اس میٹنگ میں ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی وفاقی تنظیم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کو دعوت ہی نہیں دی گئی جس کا مقصد ہی مسلم تنظیموں کو باہم متحد کرنا اورمشترکہ رائے حاصل کرناہے۔ مشاورت کے صدر نوید حامد نے ملت ٹائمز سے بتایاکہ مذکورہ میٹنگ کے حوالے سے ہمیں کوئی خبر نہیں ہے ۔ایک سوال کے جواب میںانہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ قرارداد میںجن لوگوں کا نام ہے اس میں مجتبی فاروق صاحب کے نام کے ساتھ جنرل سکریٹری مشاورت لکھاگیاہے لیکن ان کی شرکت ذاتی طور پر تھی مشاورت کے نمائندہ کے طور پر نہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی ایک اور باوقار تنظیم آل انڈیا ملی کونسل کو بھی میٹنگ میںشر کت کی دعوت نہیں دی گئی ۔ ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے بتایاکہ اس میٹنگ کے حوالے سے ہمیں کوئی خبر نہیں ہے ۔ معروف تنظیم پاپولرفرنٹ آف انڈیا سے وابستہ اور ایس پی ڈی آئی کے سکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہاکہ پی ایف آئی کو بھی اس میٹنگ کے حوالے سے نہیں بتایاگیا ۔ میٹنگ میں شریک کمال فاروقی کے نام کے ساتھ بھی رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ لکھاگیاہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی بھی اس میں نمائندگی ہوئی ہے حالاں کہ بورڈ کے ترجمان اور جنرل سکریٹری کی طرف سے ا س بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیاہے اور عموما بورڈ عائلی مسائل کے علاوہ کسی اور مسئلے میں اپنی رائے دینے سے ہمیشہ انکار کرتاہے ۔ کئی لوگوں نے بورڈ سے وضاحت بھی طلب کی ہے ۔ جمعیت علماءہند کے مولانا ارشدمدنی گروپ کی بھی اس میٹنگ میں کوئی نمائندگی نظر نہیں آرہی ہے اور نہ ہی مولانا شریک ہیں ۔ آل انڈیا علماءمشائخ بورڈ اور اتحاد ملت کونسل جیسی تنظیموں کو بھی نظر انداز کیاگیاہے ۔
ملت ٹائمز کو معتبر ذرائع سے ملی خبر کے مطابق گذشتہ 4اگست کو جمعیت علماءہند کے دفتر میں مشاورت کے صدر نوید حامد نے کشمیر کے مسائل پر مسلم لیڈروں کی ایک میٹنگ طلب کی تھی جس میں مولانا سید ارشد مدنی سمیت تقریبا سبھی ملی تنظیموں کے قائدین ورہنما شریک تھے لیکن گذشتہ 22اگست کو مولانا محمود مدنی کی جمعیت کی طرف جو میٹنگ ہوئی ہے اس میں ان تمام مسلم قائدین کو مدعو نہیں کیا گیاجنہوں نے پہلی میٹنگ میں شرکت کی تھی ۔
قابل ذکر ہے کہ پریس ریلیز میں ایم جے خان کا بھی نام شامل ہے جن کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ راج ناتھ سنگھ کے بیحد قریبی ہیں اور اکثر وہ مسلم جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ حکومت کے اقدامات کی تائید کریں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ ایم جے خان کی شرکت پر کئی لوگوں نے اعتراض بھی ظاہر کیا ہے ۔
معروف دانشور ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے مسلم تنظیموں کی قرارداد کو سرکار کی زبان قرار دیاہے ۔ انہوں نے بتایاکہ مسلم جماعتوں کا یہ موقف سامنے آنے کے بعد کشمیریوں کو نقصان ہوگا اور عالمی سطح پر حکومت اسے اپنے حق میں استعمال کرے گی کہ ہندوستان مسلمان بھی کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے خلاف نہیں ہیں ۔
جمعیت سے جاری پریس ریلیز میں آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کی مخالفت کرنے سے گریز کیاگیاہے تاہم کرفیو اور متعدد طرح کی پابندیوں کو ہٹانے کا مطالبہ شامل ہے ۔
یہاں پیش پریس ریلیز کا مکمل متن
ملک کی موجودہ صورت حال پر غور کرنے کے لیے منتخب جماعتوں اور قائدین کی ایک مشاورتی مجلس جمعیت علماء ہند کے صدر دفتر میں بتاریخ 22 اگست 2019ئ بروز جمعرات منعقد ہوئی۔
جس میں مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری صاحب صدر جمعیت علماء ہند، جناب سعادت اللہ حسینی صاحب امیر جماعت اسلامی ہند،مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی صاحب امیر جمعیت اہل حدیث ہند، مولانا محموداسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیت علماء ہند، ڈاکٹر ظفر محمود صاحب چیئرمین آل انڈیا زکوة فاو¿نڈیشن، ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں صاحب چیئرمین اقلیتی کمیشن دہلی، مولانا تنویر ہاشمی صاحب صدر جماعت اہل سنت کرناٹک، جناب مجتبی فاروق صاحب جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت، جناب کمال فاروقی صاحب رکن آل انڈیا مسلم پر سنل لاء بورڈ،جناب ایم جے خاں صاحب چیئرمین انڈیا کونسل آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر، ایڈوکیٹ شکیل احمد سید صاحب، مولانا نیاز احمد فاروقی صاحب ایڈوکیٹ، مولانا شبیر ندوی صاحب مہتمم مدرسہ اصلاح البنات بنگلو ر، مولانا معز الدین احمد صاحب، مولانا عبدالحمید نعمانی صاحب، مولانا حکیم الدین صاحب نے شرکت کی۔
مجلس نے کشمیر کے سلسلے میں کافی بحث و تمحیص کے بعد درج ذیل قرار داد منظور کی۔
” ملک کا استحکام اور سالمیت ہر شہری کا اولین فریضہ ہے،کسی بھی حال میں اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔
ستورمیں برابری، سب کے ساتھ انصاف اور حقوق انسانی کا مقصد بھی ملک کے استحکام و سالمیت کا تحفظ ہے۔ دستوری تقاضوں کو نظر انداز کرکے ہم ملک میں نہ امن و امان قائم رکھ سکتے ہیں اور نہ زبردستی وفاداری خرید سکتے ہیں۔
کشمیر میں دفعہ 370کو دستوری طور پر نافذ کیا گیا تھا اور اسے دستوری طور پر ہی ہٹایا جاسکتاہے، اس وقت جو طریقہ اختیار کیا گیا، اس پر اہم سوالات اور اعتراضات کئے گئے ہیں جو کہ فی الحال سپریم کور ٹ میں زیر سماعت ہیں، ہمیں سپریم کورٹ پر اعتماد کرنا چا ہیے اور اس کے فیصلے کے مطابق اقدام کرنا چاہیے۔
جب تک کہ یہ بات نہ واضح ہو جائے کہ دفعہ 370کا ہٹایا جانا پوری طرح دستوری تقاضے کے مطابق ہے یا نہیں، ہمیں کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کی پاسبانی، امن و امان کے قیام اور نارمل زندگی کی بحالی کے لیے حکومت کو متوجہ کرنا چاہیے۔
کرفیو کا خاتمہ، مواصلات پر پابندی کا ہٹایا جانا اور طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا آغاز فوری طور پر بحال ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے حکومت جلد ازجلد اقدامات کرے۔
اسی کے ساتھ ہم موجودہ حالات میں نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مخالف طاقتوں، دشمنوں اور غیر ذمہ دار میڈیا کے بہکاو¿ے میں آکر سوشل میڈیا پر بے بنیاد خبروں اور افواہوں کو نشر کرنے میں حصہ نہ لیں۔ ان کا یہ رویہ نہ ان کے لیے نہ ان کے خاندان اور نہ ان کی کمیونٹی کے لیے فائدہ مند ہے