بابر نے جس ڈھنگ سے اجودھیا میں یہ عمارت بنائی وہ اسلام کے خلاف ہے اس لئے یہ مسجد کے بجائے صرف ایک عمارت کہلائے گی :رام جنمی بھومی کے وکیل کی دلیل

وئی بادشاہ پراپرٹی وقف کرسکتاہے تو پی این مشرا نے کہا کہ امام ابو حنیفہؒ کے مطابق فتح کرنے کے بعد بادشاہ پراپرٹی کو لے نہیں سکتا لیکن وہ اس کا جزیہ لے سکتا ہے
نئی دہلی(ملت ٹائمز)
بابری مسجد ملکیت مقدمہ کی سماعت کا آج پندرہواں دن تھا عدالت میں ، رام جنم بھومی سمیتی کے وکیل پی این مشرا نے اپنی کل کی بحث کو آگے بڑھاتے جیسے ہی بحث شروع کی جمعیة علماءہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون اور اعجاز مقبول نے عدالت کو بتایا کہ گذشتہ کئی دنوں سے جاری ایڈوکیٹ پی این مشرا کی بحث کے دوران ایسے 24 مواقع آئے ہیں جب پی این مشرا نے عدالت کے سامنے ایسی بات کہی یا دستاویز ات پیش کرنے کی کوشش کی جو ماضی کی عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں تھے لہذا عدالت کو ان تمام باتوں کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ نرموہی اکھاڑہ، رام للا اور رام جنم بھومی سمیتی کے درمیان تضاد پر ابھی تک ہندو فریقین نے ایک دوسرے کا جواب نہیں دیاہے جس پر چیف جسٹس آ ف انڈیاجسٹس رنجن گگوئی نے کہا کہ ہم نے انہیں اس موضوع پر بحث کرنے کو کہا تھالیکن اگر وہ نہیں کرنا چاہتے ہیں تو عدالت انہیں مجبور نہیں کرے گی ۔قابل ذکر ہے کہ بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت لیڈمیٹرسول پٹیشن نمبر10866-10867/2010 پر بحث کے دوران آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ اور جمعیة علماءہندکی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیودھون کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول،کے علاوہ ایڈوکیٹ کنورادتیہ سنگھ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراة العین ، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا، ایڈوکیٹ ایشامہرو دیگرآج بھی موجود تھے۔ڈاکٹر راجیو دھون کے اعتراض کے بعد ایڈوکیٹ پی این مشرا نے عدالت کو بتایاکہ یہ صحیح بات ہے کہ یہ الہ آباد ہائی کورٹ نے 10-3-2010کو ان کی جانب سے عدالت میں تاریخی کتابوں کو پیش کرنے کی عرضداشت خارج کردی تھی لیکن عدالت نے انہیں اجازت دی تھی کہ وہ ان کتابوں کی اصل نقل عدالت میں پیش کرسکتے ہیں لہذا انہوں نے عدالت میں آئین اکبری ، بابر نامہ، تزک جہانگیری وغیرہ کتابوں کا حوالہ دیا تھا۔اس پر جسٹس چندرچوڑ نے ایڈوکیٹ پی این مشرا کو حکم دیا کہ اگر وہ کوئی نئی بات عدالت کو بتانا چاہتے ہیں تو انہیں عدالت کے ریکارڈ کا حوالہ دینا چاہئے تاکہ عدالت بھی اس پر نظر ثانی کرسکے۔مشرانے آج اپنی بحث کے دوران کہا کہ اسلام میں جائز وقف کی یہ تشریح بتائی گئی ہے کہ وقف کے لئے واقف کا اس زمین پر مالکانہ حق ہونا ضروری ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک حدیث شریف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آ ﷺ نے بھی اپنے وقت میںلوگوں کو یہ کہا تھا کہ مسجد یا وقف کےلئے زمین پر واقف کا مالکانہ حق ہونا ضروری ہے اگر کوئی اس میں شک ہے تو اس پر مسجد نہیں بنانی چاہئے ان حدیثوں کا حوالہ دیتے ہوئے مشرانے بینچ کے سامنے یہ بھی کہاکہ چونکہ بابر ایک مسلمان راجہ تھا ان پر شریعت پر عمل کرنا لازمی تھا اور شریعت میںیہ ہے کہ مسجد یا کسی اور چیز کےلئے وقف کرتے وقت واقف کا اس پر مالکانہ حق ہونا چاہئے بابرکے پاس مالکانہ حق نہیں تھا انہوں نے بینچ کے سامنے وہ فرمان بھی دکھایا جس میں لکھا تھا کہ شاہجہاں نے تاج محل کےلئے مہاراجہ جے سنگھ سے زمین لی تھی ،اس وقت شاہجہاں نے معاوضہ دینے کی بات کی تو مہاراجہ جے سنگھ نے لینے سے انکارکیا اور کہا کہ میں بلامعاوضہ دیناچاہتاہوں لیکن شاہجہاں نے اس کے بدلے مہاراجہ کو بہت ساری جائداددی، مشرانے کہا کہ اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ مغلوں کے وقت میں بھی کوئی مسجد یا وقف پراپرٹی بنانے سے پہلے اس کو جائز طریقہ سے خریداجاتاتھا ، سید امیر علی کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اس میں یہ لکھا ہواہے کہ کسی دوسرے کی ناجائز طریقہ سے لی گئی زمین پر نہ مسجد بنانا جائز ہے اور نہ ہی اس جگہ پر نماز قبول ہوتی ہے ، مشرا نے کہا کہ ان حدیثوں سے یہ پتہ چلتاہے کہ متنازعہ جگہ پر اگر کوئی مسجد بنائی گئی ہے تو وہاں نماز نہیں ہوگی بابر نے جس ڈھنگ سے یہ عمارت بنائی ہے وہ اسلام کے خلاف ہے اس لئے وہ مسجد نہیں کہلائے گی ایک عمارت کہلائے گی ۔مشرا نے الہ آبادہائی کورٹ کہ جسٹس سدھیر اگروال کے فیصلہ کے کچھ حصوں پراعتراض کیا اورکہا جسٹس سدھیر اگروال کا یہ کہنا ہے کہ اگر مسلمان ایک لمبے وقت سے متنازعہ پراپرٹی میں نماز پڑھ رہے تھے اور اسے مسجد مان رہے تھے اور ہندووں نے بھی ہر نااتفاقی کے باوجود اسے مسجد ہی کہا ہے اس صورت میں متنازعہ پراپرٹی کا وقف ٹھیک سے ہوا تھا یا نہیں ہواتھا اسے پھر بھی مسجدماناجائے گا ، مشرانے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ جسٹس سدھیر اگروال نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ بابر ایک راجہ تھااور راجہ ہونے کی حیثیت سے اپنی ریاست پر بابر کو پوراحق تھا کیونکہ یہ واقعہ کئی سوسال پہلے کا ہے تو اس وقت کورٹ اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتی کہ متنازعہ پراپرٹی کی تعمیر کے وقت بابر کا اس زمین پر مالکانہ حق تھا یانہیں تھا ایڈوکیٹ پی این مشراکا یہ کہنا تھاکہ صرف یہ بات کہہ کرکہ مسلمان اسے مسجد مانتے ہیںاور بابر کا ریاست پر پوراحق تھا جسٹس سدھیر اگروال اپنا فیصلہ کرنا نہیں چھوڑ سکتے تھے اس پر جسٹس چندچورنے مشراسے کہا کہ ایسا ممکن نہیں ہوسکتاہے کہ کورٹ آج کے وقت میں بیٹھ کر پانچ سوسال پہلے کے پرانے واقعہ اور ایک عمارت کی تعمیر کس طرح سے کی گئی ہے اس پر بحث کرے انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ دونوں مذہبوں کے لئے ایک سی بات ہے انہوں نے پی این مشراسے یہ بھی پوچھا کہ اگر کل کو کوئی یہ کہے کہ تروپتی میں بالاجی کا مندرجس وقت بناتھا اس وقت اس کا ڈیڈی کیشن صحیح ڈھنگ سے نہیں ہوا تھا توکیا اتنے سال پرانے ثبوت حاصل کرنے ہوںگے ؟،ایڈوکیٹ پی این مشرانے ان اسلامی باتوں کو مدلل کرنے کے لئے مسلم سائڈ کے گواہوں کے بیانات بھی پڑھے جس میں تمام لوگون نے یہی کہا ہے کہ شریعت میں غصب کی ہوئی جگہ پر یا کوئی مذہبی عمارت کو توڑکر مسجدبنائی گئی ہے تو وہ ناجائز ہے گواہوں کے نام محمد ادریس ، محمد برہان الدین ، مولانا عتیق احمد ، مولانامحمد خالد ندوی ہیں بعد ازاںپی این مشرا نے عدالت کو بتایا کہ اگر شرعی طریقے سے مسجد کی تعمیر نہیں گئی تو وہ مسجد نہیں ہوگی بلکہ وہ بابر کا مینشن ہوگا اور اس معاملے میں یہ ہی ہوا ہے ، بابر نے مندر مہندم کرکے مسجد کی تعمیر کرائی جو غیر شرعی ہے انہوں نے مزید کہا کہ زبرستی کسی سے زمین حاصل کرکے مسجد کی تعمیر نہیں کی جاسکتی ہے۔اس پر جسٹس بوبڑے نے پی این مشرا سے پوچھا کہ آیا کوئی بادشاہ پراپرٹی وقف کرسکتاہے تو پی این مشرا نے کہا کہ امام ابو حنیفہؒ کے مطابق فتح کرنے کے بعد بادشاہ پراپرٹی کو لے نہیں سکتا لیکن وہ اس کا جزیہ لے سکتا ہے ۔

SHARE