گرونانک نے جوکہاوہ کرکے دکھایا ۔ ان کی پوری زندگی عرفان ذات کی عملی تفسیر تھی

اردواکادمی ،دہلی کے زیراہتمام منعقدیک روزہ سمیناربعنوان ’گرونانک صاحب:روحانی ادب اوراردو‘میں دانش وروں کااظہارخیال
نئی دہلی(ملت ٹائمز)
اردواکادمی ،دہلی کے زیراہتمام منعقدیک روزہ سمیناربعنوان ’گرونانک صاحب:روحانی ادب اوراردو‘ کے افتتاحی اجلاس میںسامعین ومہمانان کرام کااستقبال کرتے ہوئے عہدکے معروف وممتازشاعراوراردواکادمی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپررسول نے قمررئیس سلورجبلی ہال میں کہا کہ جو لوگ دوسروں کے لیے جیتے ہیں ان میں گرونانک دیو کا نام اہم ہے۔انہوں نے جو کچھ کہا وہ کرکے دکھایا۔اخوت وبھائی چارہ،محبت والفت کا انہوں نے پیغام دیا اور اس پر عمل کرکے بھی دکھایا،گرونانک دیو صاحب ہندوستان کی مٹی سے اٹھنے والی مو¿ثرترین شخصیات میں ایک ہیں ۔ان کی خدمات اورصلح کل کے رویے نے ہندوستان کودنیا میں سیکولرکردارکے لیے شہرت دی ۔میں تمام لوگوں کا استقبال کرتاہوں،میں صمیم قلب سے آپ سب کا شکریہ ادا کرتاہوںکہ آپ سب نے اس پروگرام میں شرکت کی اور پروگرام کی کامیابی کو یقینی بنایا۔اس موقع پرمعروف شاعرمتین امروہوی نے باباگرونانک دیو کی خدمت میں منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔
کلیدی خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ناشر نقوی،سابق ڈائرکٹربابافریدصوفی سینٹر،پنجابی یونیورسٹی،پٹیالہ نے کہا کہ گرو نانک صاحب صرف پنجابی زبان کے سربراہ نہیں ہیں وہ تمام زبانوں کے سربراہ ہیں۔گرونانک کی شخصیت ہر زمانے میں کشش کا سبب تھی اور ہمیشہ رہے گی۔گروجی کے مطابق سب سے اہم مذہب وہ ہے ،جو خدا سے عشق پر ابھارتا ہے۔ نانک صاحب کی بھگتی کی بنیاد خدا کی وحدانیت ہے۔خدا نے ہندوستان کو نانک کی شکل میں انسانیت کا رہنما دیا،جنہوں نے ذات پات چھوت چھات کو ختم کیا ۔وہ ایک عظیم شاعر بھی تھے۔اردو میں بھی نانک جی پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔زیادہ تر کتابوں میں بابانانک کو ہندو¿وں اور مسلمانوں کے درمیان صلح وآشتی کاپل قرار دیاگیا ہے ۔نانک جی کی پوری زندگی عرفان ذات کی عملی تفسیر ہے۔نانک دیو کی شان میں مہدی نظمی صاحب کی شاعری کو آڈیو ویڈیو میں ہم پیش کریں گے ، تاکہ اردو والوں کی طرف سے نانک دیو جی کو شایان شان خراج عقیدت پیش کرسکیں۔
ماہرتعلیم ڈاکٹرجی آر کنول نے کہا کہ دراصل اردو پیدابھی پنجاب میں ہی ہوئی تھی،نانک جی نے دس برس کی عمر میں ہی اپنی تعلیم مکمل کرلی تھی۔اوشو اور خشونت سنگھ نے ایک اومکار کو اہم قرار دیا ہے۔گرو گرنتھ صاحب ایک گلدستہ ہے،جس میں بہت سارے شعرا کا کلام ہے،بابا فرید کا ایک دیوان لاہور سے چھپا ہے،اس دیوان کو ہم سب کو دیکھنا چاہئے۔اس سے ہمیں بہت فائدہ ہوگا۔اس سمینارکے انعقادکے لیے اردو اکادمی ،دہلی کے وزیراعلی اروندکیجریوال صاحب اورنائب وزیراعلی واردواکادمی کے چیئرمین منیش سسودیا صاحب کا بھی شکریہ کہ انہی کی کوششوں سے ہمیں اس پروگرام میں شرکت کا موقع ملا ہے ۔
افتتاحی اجلاس کے صدرپروفیسر جسپال سنگھ،سابق وائس چانسلر،پنجابی یونیورسٹی،پٹیالہ نے کہا کہ سب سے پہلے میں اردو اکادمی کا شکریہ ادا کرتاہوں اورمبارک باد پیش کرتاہوں۔اردو اکادمی میںجو کچھ ہم سن رہے ہیں اس سے اندازہ ہورہاہے کہ ہم ابھی تک نانک جی کے بارے میں سب کچھ نہیں جانتے ہیں۔میں جاننے کی کوشش کرتارہتاہوں کہ دیگر زبابوں میں بابانانک کے بارے میں کیاکچھ لکھا جارہاہے۔بابا نانک نے اپنی زبان یعنی پنجابی میں بہت کچھ کہا ہے لیکن انہوں نے ملٹی لنگول شاعری بھی کی ہے۔نانک دیو ساری دیوار توڑ دیتے ہیں ان کے سامنے کوئی دیوار کھڑی نہیں رہ سکتی۔اردو زبان میں جو کچھ بابانانک کے حوالے سے لکھا گیا ہے وہ شاندار ہے اور دیر پا بھی۔گروگرنتھ صاحب کا پہلا بیانیہ ایک اومکار ہے اور اس میں عقیدہ¿ توحیدپرزوردیاگیا ہے ۔گروگرنتھ میں جو بھی ابواب شروع ہوتا ہے ایک اومکاراس میں پہلے لکھا جاتا ہے ۔ گرو نانک صاحب خدا کی وحدانیت کا اعلان کرتے ہیں اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ دنیا بڑی خوبصورت ہے۔نانک جی کہتے ہیں کہ خدا نے ایسی خوبصورت دنیا بسائی ہے، جس میں کوئی کسی سے نہیں ملتا، دوسروں کی شناخت کا احترام کرنا انتہائی ضروری ہے۔بلکہ دوسروں کی شناخت کے تحفظ کویقینی بناناناگزیرہے ۔نانک جی چمن میں اختلاط رنگ و بو کی عملی تفسیر ہیں۔گرو نانک دیو جی نے بائیس برس تک گھر کے باہر زندگی گزاری،جب نانک مکالمہ کرتے ہیں تو وہ سننے اور بولنے کی تاکید کرتے ہیں،صرف بولنا کافی نہیں ہے نانک جی پہلے سننے کی صلاحیت پیدا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔نانک جی نے خدا کی راہ پر چلنے کی تلقین کی ہے ۔نانک جی کا دائرہ کار کافی وسیع ہے۔بابافرید کے جو کلام گروگرنتھ صاحب میں ہیں ،اس سے نانک جی مکالمہ بھی کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت بابا فریدگنج شکر پہلے پنجابی شاعر ہیں۔افتتاحی اجلاس کی نظامت جواہرلعل نہرویونیورسٹی کے استاذ ڈاکٹرشفیع ایوب نے کی ۔
ظہرانے کا بعدمقالوں پر مشتمل اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے آرٹس فیکلٹی کے ڈین اورماہرتصوف پروفیسروہاج الدین علوی اورماہرتعلیم ڈاکٹر جی آر کنول نے اورنظامت نورین علی حق نے کی۔پہلے اجلاس میں گرونانک دیوپرپانچ مقالات پیش کیے گئے ۔پروفیسرمحمدرفیع نے گرونانک صاحب کے کلام میں اردووفارسی الفاظ،ڈاکٹرندیم احمدنے اردواورگرونانک صاحب،ڈاکٹرمحمدصادق نے گرونانک دیو:زبان وادب کے آئینے میں،مطاہرحسین نے نوشہ نے نذرنانک(اردو)کاادبی اورلسانی مطالعہ اورڈاکٹرریحان حسن نے ذکرگرونانک جی اورمسلم شعراکے عناوین پرمقالات پیش کیے ۔اپنی صدارتی تقریرمیں ڈاکٹر جی آرکنول نے کہا کہ نانک کے نزدیک موسیقی روح کی غذا ہے،اردو گرنتھ صاحب کے اندر ایک ابدی زبان بن گئی ہے۔مجھے نہیںپتہ کہ دیوان غالب رہے گا یا نہیں لیکن یہ جانتا ہوں کہ گرو گرنتھ صاحب رہے گی اور اس میں اردو بھی رہے گی۔اردو،فارسی اور عربی میں اخلاقی قدریں بہت ہیں۔اقبال کے یہاں گرو جی کے حوالے سے جو مرد کامل کا نظریہ ہے، وہ شاندار ہے۔
پروفیسر وہاج الدین علوی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ تمام مقالے اچھے تھے تمام مقالوںمیں روحانیت شامل تھی اورجہاں روحانیت ہوتی ہے اس کا اثر دل پر ہوتا ہے،جب احساس سودوزیاں ختم ہوجاتا ہے تو گرونانک پیدا ہوتے ہیں۔لنگر پر صوفیا نے بہت زور دیا ہے،جب انسان خود کو نثار کردیتا ہے تب وہ آباد ہوتا ہے۔نانک جی نے خدا کے پیغام کو عام کیا،خدا ایک اور اس نے کائنات بھی ایک بنائی دوئی کا تصور خدا کا نہیں ہمارا ہے۔جو خوشی غم کے ساتھ نہ ہو وہ دیر پا نہیں ہوتی۔پنجاب کی مٹی میں ہی الفت ومحبت پائی جاتی ہے، گرو نانک جی اپنی بھگتی میں خدا کو واحد کہتے ہی نہیں تھے بلکہ دل سے مانتے بھی تھے۔جو زبان چلن میں ہوتی ہے اس زبان کو سارے لوگ اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔گرو نانک نے اپنے زمانے کی رائج زبان یعنی اردو کو استعمال کیا۔نانک جی قلی قطب شاہ سے سینئر تھے۔آج ایک بار پھر ضرورت ہے کہ کوئی نانک کوئی صوفی کوئی کبیر پیدا ہو۔تاکہ آپسی تفریق ختم ہو۔اس موقع پر دہلی کی تمام جامعات کے اساتذہ ،طلبہ وطالبات اوراردواکادمی کی گورننگ باڈی کے اراکین شریک تھے ،جن میں فریدالحق وارثی اورفرحان بیگ قابل ذکر ہیں ۔شام کو چھ بجے قمررئیس سلورجبلی ہال ،اردواکادمی میں انوررحمت قوال نے قوالی پیش کی ،جس سے تمام سامعین محظوظ ہوئے ۔