ڈاکٹرراجیودھون نے عدالت سے کہا کہ جس ڈھانچہ کو توڑاگیا وہاں پہلے سے مندرہونے کا کوئی پختہ ثبوت نہیں ملا تھا ایڈورس پوزیشن کو لیکر بھی اب تنازعہ کھڑاکیا جارہا ہے
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
بابری مسجد ملکیت مقدمہ کا آج انیسواں دن تھا جس کے دوران آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے وکیل ڈاکٹر راجیودھون نے کل کی اپنی نا مکمل بحث کا آغاز کرتے ہوئے پانچ رکنی آئینی بینچ کو بتایاکہ باہری احاطہ تو شروع سے ہی نرموہی اکھاڑے کے قبضہ میں رہا ہے لہٰذا اب کیوں الہ آبادہائی کورٹ کی بنیادپر دلیلیں دی جارہی ہیں جو تنازعہ ہے وہ اندرونی احاطہ کو لیکر ہے جس پر جبراًقبضہ کیا گیا ہے ، ڈاکٹرراجیودھون نے عدالت سے کہا کہ جس ڈھانچہ کو توڑاگیا وہاں پہلے سے مندرہونے کا کوئی پختہ ثبوت نہیں ملا تھا ایڈورس پوزیشن کو لیکر بھی اب تنازعہ کھڑاکیا جارہا ہے ، الہ آبادہائی کورٹ کے فیصلہ کے حوالہ سے ڈاکٹرراجیودھون نے کہا کہ درمیان والے گنبدکے نیچے جبرا ًرام للاکی مورتی رکھ کر تنازعہ کھڑاکیا گیا تھا، اسی دوران ڈاکٹر راجیودھون نے نرموہی اکھاڑہ پر سخت حملہ کیا اور کہا کہ نرموہی اکھاڑہ نے باہری احاطہ نہیں بلکہ اندرکے احاطہ پر دعویٰ کیا ہے اس پر جسٹس چندچوڑنے کہا کہ اگر آپ اکھاڑہ کے پوجاکے حق کی بات تسلیم کرتے ہیںتو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ مان رہے ہیں کہ وہاں پر مورتیاں تھیں ایسے میں یہ حصہ سامنے نہیں آتاہے جس پر آپ مسجد کا دعویٰ کرتے ہیں ، اس پر ڈاکٹرراجیودھون نے کہا کہ نرموہی اکھاڑہ کو صرف پوجاکا حق دیا گیا تھا ایسے میں زمین اس کی ملکیت نہیں ہوسکتی انہوں نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ سے بھی صاف ہے کہ مسلمان عمارت کے اندراور ہندواحاطہ کے باہر پوجاکرتے تھے باہر چبوترے پر پتھرپر بنی چرن پادکائیںبھی تھیں ، مہنت رگھوبر داس کی اپیل عدالت نے خارج بھی کردی تھی ، ڈاکٹرراجیودھون نے آگے کہا کہ نرموہی اکھاڑہ رام گھاٹ پر چلاگیا تھا اور ایک مرتبہ جب متنازعہ عمارت کو مرمت کی ضرورت پیش آئی تب رام چبوتراہی رام جنم استھان ماناجاتاتھا ، ڈاکٹردھون نے نرموہی اکھاڑہ کی تحریری دلیل کا حوالہ دیتے ہوئے ٹریفن تھیلرکی کتاب کے حصوں کو پڑھا اور کہا کہ اس وقت ایسا اعتقادتھا کہ رام چبوترے والی جگہ پر پیداہوئے تھے اور یہ جگہ باہری احاطہ میں ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ رام چبوترہ کوہی ویدی بھی کہا جاتاتھا تاریخ میں نرموہی اکھاڑہ کے کئی اقدامات اور کئی احکامات سے یہ ثابت ہوتاہے کہ مسجد تھی اوراس وقت کے مہنت رگھورداس نے صرف رام چبوترے پر رام للاکی خدمت اور پوجاکرنے کی درخواست کی تھی انہوں نے مزید کہا کہ اکھاڑہ کے رخ اور انتظامیہ کے احکامات سے نرموہی اکھاڑہ کا یہ دعویٰ باطل ثابت ہوتاہے کہ وہاں مسجد نہیں تھی ،ڈاکٹرراجیودھون نے کہا کہ اگر اپیل وقت سے داخل نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں مسجد نہیں تھی مورتیاں رکھ دینے سے مسجد کا وجود ختم نہیں ہوتا، اور نہ ہی مسلسل نمازنہیں پڑھنے سے مسجد کے وجودپر سوال کھڑے ہوسکتے ہیں۔ آج ڈاکٹر راجیو دھون نے نرموہی اکھاڑہ اور شبعیت یعنی کے اس کے متولی ہونے کی قانونی حیثیت پر سوال کھڑے کرتے ہوئے اس معاملہ کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبدالنظیرشامل ہیں کو بتایا کہ نر موہی اکھاڑہ نے ہمیشہ سے کہا کہ وہ مسجد کے باہری صحن میں واقع مندر کے متولی ہیں لیکن آج وہ اپیل میں حق ملکیت اور اندورنی صحن پر دعوی کررہے ہیں حالانکہ ان کے پاس اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے کوئی دستاویز نہیں ہے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو نرموہی اکھاڑہ کے وکیل ایس کے جین کی جانب سے عدالت میں داخل کیئے دستاویزوں کی قانونی حیثیت پر مدلل بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ بیشتر دستاویز کو ہائی کورٹ نے ماننے سے انکار کردیا اور بقیہ دستاویزہائی کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ نہیں ہیں جس پر چیف جسٹس نے ڈاکٹر دھون کو یقین دہانی کرائی کہ عدالت ایسے کسی بھی دستاویزکو قبول نہیں کریگی جو ہائی کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ نہیں ہیں ۔چیف جسٹس کے اس ریمارک پر ایڈوکیٹ ایس کے جین نے انہیں کچھ بتانے کی کوشش کی جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ عدالت کے کام میںدخل اندازی نہ کریں ، ان کے دلائل کی سماعت عدالت کرچکی ہے ، اب ڈاکٹر راجیو دھون کو بحث کرنے دیاجائے۔ڈاکٹر دھون نے عدالت کو بتایا کہ سوٹ نمبر 3 یعنی کہ نرموہی اکھاڑہ کے سوٹ میں داخل دستاویزات عدالت کے ریکارڈ کا حصہ نہیںہیں یعنی کہ انہیں ایگزیبیٹ نہیں کیا گیا ہے جس پر جسٹس بوبڑے نے ایڈوکیٹ ایس کے جین سے دریافت کیا اس پر انہوں نے عدالت کو گول مول جواب دیتے ہوئے بتایا کہ وہ چیک کرکے عدالت کو مطلع کریں گے اس پر ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے پورا ریکارڈ چیک کرنے کے بعد ہی یہ دعوی کیا ہے ۔ڈاکٹر راجیو دھون نے دوران بحث عدالت کو مزید بتایا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں جسٹس سدھیر اگروال اور جسٹس دھرم ویر شرما نے یہ قبول کیا ہے کہ ان دستاویزات سے نرموہی اکھاڑہ کو کوئی فائد ہ نہیں پہنچے گا نیز ان دستاویزات کے ذریعہ یہ واضح ہوتا ہے کہ رام چبوترا اور سیتاکی رسوئی باہری صحن میں تھی۔دھون نے مزید بتایا کہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوﺅں کی عبادت کی جگہ باہری صحن میں تھی اور اسی جگہ کو رام کا جنم استھان مانا گیا ہے۔ڈاکٹر دھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ پہلے ہندوﺅںنے 1885 میں مہنت رگھو رداس کوقبول کرنے سے انکار کیا پھر بعد میں انہیںقبول کرلیا نیز رات کے اندھیرے میں مورتی کو باہری صحن سے اندورنی صحن میں منتقل کردیاگیااور بعد میں اسے جنم استھان کا نام دیا گیا حالانکہ اس جگہ کو رام جنم استھان کہنا بے معنی ہے ۔ڈاکٹردھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مسلمانوں نے 1934 سے نماز ادا نہیں کی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ قبضہ مسلمانوں سے لے لیاگیا۔انہوں نے مزید کہا کہ گزٹ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ1858 سے قبل گزٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے تیار کیئے جاتے تھے او ر اس مقصد سے تیار کیئے جاتے تھے کہ دو فرقوں کے درمیان تفرقہ برقرار رہے نیز مورخ پی کنرجی کی کتاب سے واضح ہوتاہے کہ مسجدکے اندورنی صحن میں مسلمان نماز ادا کیا کرتے تھے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ نرموہی اکھاڑہ کی اپیل میں اندرونی صحن پر حق کا دعوی نہیں ہے بلکہ پہلے انہوں نے باہری صحن میںواقع رام چبوترے کے انتظامی امور کی ذمہ داری یعنی کہ شبیعت (متولی) ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ نرموہی اکھاڑہ کا دعویٰ حکومت کے خلاف تھا جو 145سی آر پی سی کے تحت داخل کیا گیا تھا ، دعوی صرف انتظامی امور کے لیئے تھااور نرموہی اکھاڑہ نے 1959 میں جاکر اپنا دعوی اندورنی حصہ پر پیش کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ 1949 سے پہلے پوجا صرف رام چبوترے پر ہوتی تھی جو کہ باہری صحن میں تھا نیز1949 میں مورتیاں رام چبوترے سے اٹھاکر غلط طریقے سے مسجد کے اندر رکھی گئیں تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نرموہی اکھاڑہ نے اپنے مقدمہ میں کہیںبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا ہے کہ رام کی پیدائش کی جگہ مسجد کے درمیانی گنبد کے نیچے تھی۔ عدالت کو مزید بتایا گیا کہ نرموہی اکھاڑہ سے ایک متولی کی حیثیت سے ان کے انتظامی امور واپس لے لیئے گئے تھے۔اگر کوئی نیا مندر بھی بنتا ہے تو نرموہی اکھاڑہ اس کا متولی نہیں ہوسکتا ۔نرموہی اکھاڑہ اس سے پہلے یہ کہہ چکا تھا کہ رام جنم استھان سے کوئی مطلب نہیں ہے لیکن اب جنم استھان کوفریق مانتا ہے ۔ آج جیسے عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو بتایا کہ انہیں خبر موصول ہوئی کہ اس معاملے کے ایک فریق ہاشم انصاری کے لڑکے اقبال انصاری پر گذشتہ شب بندوق بردار نے حملہ کیا اور ان سے کہاکہ وہ مقدمہ واپس لے لیں ۔ڈاکٹر دھون نے عدالت کو بتایا کہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ وہ عدالت میں روز توہین عدالت کی پٹیشن داخل کریں نیز انہیں ذاتی طور پر سیکوریٹی کی کوئی ضرروت نہیں ہے تاہم اگر عدالت کی جانب سے کوئی حکم دیا جا ئے گا تو اس کا اچھا اثر پڑے گا ۔ڈاکٹر راجیو ن کی گذارش پر چیف جسٹس نے کارروائی کرنے کی انہیں یقین دہانی کرائی۔صدرجمعیةعلماءہند مولانا سیدا رشدمدنی نے مقدمہ کے تناظر میں کہا کہ یہ کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک کے آئین اور قانون کے وقار کی بالادستی سے جڑاہوا معاملہ ہے ،محض اعتقادکی بنیادپر کوئی فیصلہ نہیں ہونا چاہئے۔ مسلمان اس ملک کے پر امن شہری ہیں اورملک کے آئین اورقانون کاحترام کرتے ہیں یہی وجہ ے کہ فرقہ پرست طاقتوں کی تمام تراشتعال انگیزیوںاوردھمکیوں کے باوجود انہوں نے صبروتحمل کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے ہمیں اس بات کا مکمل یقین ہے کہ اس معاملہ میں ثبوت وشواہد اور تاریخی دستاویزات کی بنیادپر ہی فیصلہ دے گی نہ کہ آستھا کی بنیادپر جیسا کہ پہلے ہی عدالت اپنے تبصرہ میں یہ بات کہہ چکی ہے کہ یہ ٹاٹئٹل سوٹ ملکیت کا مقدمہ ہے نہ کہ آستھا کا۔
آج ڈاکٹرراجیودھون کی بحث نامکمل رہی اس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی کل تک کےلئے ملتوی کردی ، کل صبح ساڑھے دس بجے راجیودھون اپنی بحث شروع کریںگے۔






