بابری مسجد اور رام جنم بھومی پر آج پھر سماعت ہوئی ۔ 6دسمبر سے ا س مسئلہ کی روزانہ سماعت ہورہی ہے ۔ بیچ دنوں میں چھٹیوں کی وجہ سے چار دنوں کیلئے یہ سماعت ملتوی ہوگئی تھی ۔
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
بابری مسجد اور رام جنم بھومی پر آج پھر سماعت ہوئی ۔ 6دسمبر سے ا س مسئلہ کی روزانہ سماعت ہورہی ہے ۔ بیچ دنوں میں چھٹیوں کی وجہ سے چار دنوں کیلئے یہ سماعت ملتوی ہوگئی تھی ۔
بابری مسجد ملکیت مقدمہ کی سماعت آج اکیسواں دن تھا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ اور جمعیت کے وکیل ڈاکٹر راجیودھون نے اپنی نا مکمل بحث کا آغاز کرتے ہوئے پانچ رکنی آئینی بینچ کو بتایا کہ 22 اور 23 دسمبر 1949 کی درمیانی شب کو ایک منصوبہ بند سازش کے تحت مورتیوں کو مسجد کے اندورنی حصہ میں رکھاگیا تھا جو ایک غیر قانونی عمل تھا۔
یہ مورتی 6 دسمبر 1992 بابری مسجد کی شہادت کے دن تک رکھی رہی ۔اس معاملہ کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو ڈاکٹر راجیو دھون نے مزید بتایا کہ نرموہی اکھاڑہ والے ہمیشہ سے باہری صحن میں پوجا پراتھنا کیا کرتے تھے لیکن 1949 کے غیر قانونی عمل کے تحت انہیں اندرون صحن میں داخلہ ملا ۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کی توجہ Continuous Wrong یعنی کے لگاتار ہونے والے غیر قانونی عمل کی جانب دلاتے ہوئے عدالت کو 22 اور 23 دسمبر 1949 کی درمیانی شب میںا نجام دیئے گئے عمل کی جانب مبذول کرائی اور کہاکہ 1949 سے قبل نرموہی اکھاڑہ کا اندرونی صحن پر کوئی دعوی ہی نہیں تھا لہذا آج وہ اندرونی صحن پر دعو ی کرکے اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں انہوں نے وضاحت کی کہ 1989میں نرموہی اکھاڑہ نے اندرونی صحن پر اپنا دعویٰ پیش کیا ، ڈاکٹرراجیودھون نے دلیل دی کہ نرموہی اکھاڑہ کی جانب سے داخل کیا گیا سوٹ معینہ مدت میں داخل نہیں کیا تھا لہذا اسے خارج کردینا چاہئے ۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ نرموہی اکھاڑہ نے اپنی عرضداشت میںلکھا ہے کہ متنازعہ اراضی ان کی ہے یعنی کہ وہ ان کو Belong کرتی ہے لیکن شبعیت اور ٹرسٹی میں فرق ہوتا ہے اور شبیعت کو صرف انتظامی امور کی ذمہ داری ہوتی ہے اس کا پراپرٹی پر حق نہیں ہوتا ہے دوسرے متنازعہ اراضی کبھی نرموہی اکھاڑہ کی تھی ہی نہیں لہذا لفظ belongingکا وہ استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔ڈاکٹر راجیو دھون نے 1950 میں مجسٹریٹ کی جانب سے کئے گئے فیصلہ پر بھی سوال کھڑے کئے اور عدالت سے کہا کہ کیا اب مجسٹریٹ کے خلاف مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے؟
آج ڈاکٹر راجیو دھون کی بحث نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی 12 ستمبر تک ملتوی کردی۔
ہم آپ کو بتادیں کہ الہ آبادہائی کورٹ کافیصلہ آنے کہ فورابعد آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ سنی سینٹرل وقف بورڈ ، نرموہی اکھاڑہ ، اکھل بھارتیہ ہندومہاسبھا کی جانب سے دائر کی گئی رٹ پٹیشن پر پہلی سماعت مئی 2011 میں عدالت عظمی کی دورکنی بینچ نے کی ۔جس میں جسٹس آفتاب عالم اورجسٹس لودھا شامل تھے ۔مسلم فریق نے مطالبہ کیاتھا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ خارج کردینا چاہئے کیونکہ وہ ثبوتوں پر نہیں آستھاپر مبنی ہے ۔مسلمانوں نے یہ موقف بھی پیش کیا کہ متنازعہ زمین پر مسلمانوں ہندووں اور نرموہی اکھاڑہ کے دعویٰ الگ الگ ہیں جنہیں مشترک نہیں کیا جاسکتا، اپیل میں یہ بھی کہا گیاتھا کہ ہائی کورٹ میں اس طرح کا کوئی مقدمہ تھاہی نہیں جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہوکہ مسلمانوں ہندووں اورنرموہی اکھاڑہ کا متنازعہ زمین پرمشترکہ حق ہے بلکہ تینوںمیں سے ہر ایک نے پوری ملکیت پر دعویٰ کیا تھا، کسی نے بھی زمین کی تقسیم کی بات نہیں کہی تھی ، عدالت عظمی نے پینتالیس منٹ تک جاری دونوں فریق کے وکلاءکی بحث سننے کے بعد بابری مسجد ملکیت معاملہ پر ہائی کورٹ کے فیصلہ پر روک لگادی تھی اور متنازعہ مقام کی ملکیت اور اکوائر آراضی پر اسٹیٹس کو کا حکم جاری کردیاتھا۔ اب سپریم کورٹ میں ملکیت اور ٹائٹل سوٹ کا مقدمہ زیر سماعت ہے کہ آیا کہ متنازع جگہ کی ملکیت کے ثبوت کس کے پاس ہیں ۔






