وہ پابندیوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ ہمار مقصد واضح ہے۔ ہم کسی بھی پابندی سے پریشان ہونے والے نہیں ہیں
انقرہ (ملت ٹائمز)
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے شمالی شام میں فوری جنگ بندی کی امریکی اپیل کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ترکی کی پیش رفت جاری رہے گی۔ان کا یہ بیان امریکی نائب صدر مائک پینس اور امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو کے بیان کے بعد آیا ہے۔یہ دونوں ترکی جانے کے لیے تیار ہیں تاکہ انقرہ کو جنگ بندی پر راضی کر سکیں۔دوسری جانب منگل کو روس نے متنبہ کیا کہ وہ ترک اور شامی فوجوں کے درمیان تصادم کی اجازت نہیں دیں گے۔جبکہ ترکی کا کہنا ہے کہ وہ سرحدی علاقے سے کرد فوجوں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے یہ کارروائی کر رہی ہے۔ترکی کرد قیادت والی شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کو دہشت گرد تنظیم مانتا ہے۔انقرہ کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائیوں کا مقصد کرد افواج کو سرحدی علاقے سے پیچھے ڈھکیلنا ہے اور انقرہ کی حکومت کے مطابق وہ وہاں ایک ‘محفوظ زون’ کے قیام کا خواہاں ہے۔’سیف زون’کے قیام سے ترکی شام کے اندر 30 کلومیٹر تک پہنچ جائے گا، جہاں وہ 20 لاکھ شامی پناہ گزینوں کی آباد کاری کا منصوبہ رکھتا ہے۔ان پناہ گزینوں میں کرد تعداد میں بہت تھوڑے ہیں۔
بہر حال روس کی حمایت میں ہفتے کے دنوں شامی فوج نے سرحد کی جانب کوچ کیا ہے۔ کردوں کے ساتھ معاہدے کے بعد وہ ترک آپریشن کو روکنے کے لیے بڑھ رہی ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ گذشتہ ہفتے خطے سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے اعلان نے ترکی کو اس حملے کے ‘ہری جھنڈی’ دکھا دی ہے۔امریکہ نے بار بار اسے مسترد کیا ہے اور پیر کو واشنگٹن نے ترکی کی وزارتوں اور سینیئر حکومتی اہلکاروں پر پابندی عائد کر دی ہے۔
صدر اردوغان نے منگل کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘وہ جنگ بندی کے اعلان کی بات کہتے ہیں۔ ہم کبھی بھی جنگ بندی کا اعلان نہیں کریں گے۔’وہ ہم پر آپریشن بند کرنے کے لیے دباو¿ ڈال رہے ہیں۔ وہ پابندیوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ ہمار مقصد واضح ہے۔ ہم کسی بھی پابندی سے پریشان ہونے والے نہیں ہیں۔’
ترکی وائی پی جی کو کردستان ورکرز پارٹی کی ایک شاخ سمجھتا ہے جس نے پچھلی تین دہائیوں سے ترکی میں کردش خود مختاری کے حوالے سے آواز اٹھائی ہے
اامریکی وزیر خزانہ سٹیون منوشن نے پیر کو واشنگٹن ڈی سی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پابندیوں کے بارے میں کہا کہ وہ ‘بہت سخت ہیں’ جن کے ترکی کی معیشت پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔
وزارت خزانہ نے ایک بیان شائع کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ترکی کی وزارت دفاع اور وزارت توانائی کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اس کے ساتھ دفاع، توانائی اور داخلہ امور کے وزیروں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘ترکی حکومت کے اقدامات معصوم شہریوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور خطے کو غیر مستحکم کر رہے ہیں اس کے ساتھ دولت اسلامیہ کے شکست دینے کی مہم کو بھی زک پہنچا رہے ہیں۔’سٹیون منوشن کے ساتھ ہی نائب صدر پینس نے متنبہ کیا کہ ‘پابندیاں اس وقت تک جاری رہیں گی اور مزید شدید ہوتی جائیں گی جب تک کہ ترکی فوری طور پر جنگ بندی قبول نہیں کرتا، تشدد نہیں روکتا ہے اور شام کے ساتھ سرحد کے قدیمی مسئلے کے طویل مدتی حل پر رضامند نہیں ہوتا۔’پینس نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے فون پر صدر اردوان کے ساتھ بات چیت میں بھی اس کا اعادہ کیا ہے۔نائب صدر نے ایک بار پھر کہا ہے کہ امریکہ ‘ترکی کو شام پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔’اس سے قبل امریکہ نے کہا تھا کہ ترکی کی شام میں مداخلت ‘ناقابل قبول’ ہے جس کے نتیجے میں دولت اسلامیہ کے کئی گرفتار جنگجو رہا ہو گئے ہیں۔(بی بی سی اردو کے ان پٹ کے ساتھ)