ایودھیا تنازعہ: استدلال بنام عقیدہ

افتخار گیلانی 

6 دسمبر 1992 کو جب ایودھیا شہر میں بابری مسجد کو مسمار کیا جا رہا تھا، میں ان دنوں صحافتی کریئر کا آغاز کرکے دارلحکومت دہلی میں ایک ٹرینی کے طورپر میڈیا کے ایک ادارہ کے ساتھ وابستہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ دن کے 11 بجے تک رپورٹرز وشو ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے منعقدہ پروگرام کی خبریں بھیج رہے تھے، پھر ایک دم سے ایودھیا سے خبروں کی ترسیل کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ رات گئے تک بس حکومتی ذرائع سے یہی خبر تھی کہ انتظامیہ مسجد کو بچانے کے لیے مستعد ہے اور خاصی تعداد میں مرکزی فورس وہاں بھیجی گئی ہے۔ دو دن قبل ہی ریاست اتر پردیش کے وزیرا علیٰ کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ دائر کرکے مسجد کی حفاظت کی گارنٹی دی تھی، جس کے بعد عدالت نے شہر میں کار سیوا تقریب کے انعقاد کی اجازت دی تھی۔ ریڈیو پر ہم مسلسل بی بی سی کی نشریات سن رہے تھے۔

رات گئے بی بی سی نے اپنی نشریات روک کر اعلان کیا کہ ان کے نمائندے قربان علی ابھی ابھی ایودھیا سے لکھنؤ پہنچے ہیں۔ ریڈیائی لہروں پر اگلی آواز قربان علی کی تھی۔ جن کا کہنا تھا کہ مسجد کو مسمار کردیا گیا ہے۔ جس وقت وہ ایودھیا سے بڑی مشکل سے جان بچا کر نکلے، اس وقت مسجد کے ملبہ پر ایک عارضی مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا تھا اور بھگوان رام کی مورتی کو ایک شیڈ کے نیچے اس جگہ منتقل کیا جا رہا تھا، جہاں مسجد کا مرکزی گنبد چند گھنٹوں قبل موجود تھا۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ کس طرح مسجد کی طرف چڑھائی کرنے سے قبل صحافیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مندروں اور کئی مکانوں میں مقفل کر دیا گیا تھا۔ ان کے کیمرے توڑ دئیے گئے تھے۔ کئی صحافیوں کے ساتھ مارپیٹ بھی کی گئی تھی۔ قربان علی اور بی بی سی کے شہرہ آفاق نمائندے مارک ٹلی کو ایک مندر کے بوسیدہ کمرے میں بند کردیا گیا تھا۔ دوپہر بعد ا ن کو وشو ہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل کے دربار میں حاضر کردیا گیا، جس نے ان کی رہائی کے احکامات صادر کر دئے۔

 کھیتوں اور کھلیانوں سے ہوتے ہوئے قربان علی فیض آباد کی طرف روانہ ہوئے، کیونکہ ہندو انتہا پسندوں یا کارسیوکوں نے سڑکوں پر ناکے لگائے ہوئے تھے اور وہ کسی بھی صحافی کو باہر جانے نہیں دے رہے تھے۔قربان علی کے بقول فیض آباد کے پاس ٹرک اور پھر کسی اور سواری کے ذریعے وہ لکھنو پہنچے، جہاں سے انہوں نے دنیا کو بتایا کہ 1528 میں مغل فرمانروا ظہیر الدین بابر کے جنرل میر باقی کی تعمیر کردہ تاریخی بابری مسجد مسمار کر دی گئی ہے۔ دہلی میں ہماری رہائش سے متصل ہندوستانی فلم انڈسٹری کے ایک معروف کیمرہ مین سلیم شیخ رہتے تھے۔ ان کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ بس نام کا رشتہ تھا۔ اس کے علاوہ شب برأت کے موقع پر اپنی والدہ کو یاد کرکے نماز پڑھتے تھے۔ جونہی شب برأت ختم ہوئی وہ شراب کی بوتل نکال کر پینا شروع کردیتے تھے۔ سال بھر جب بھی ان کے پاس کام نہیں ہوتا تھا، وہ ہاتھوں میں مسلسل بوتل تھامے رہتے تھے۔ شب برات سے ایک روز قبل و ہ بوتل الماری میں بند کردیتے تھے۔

باقی عید ہو یا کوئی اور دن، ان کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تھا۔ شب برأت کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ بچپن میں اس رات بڑی اہتمام کرتی تھی اور پوری رات عباد ت میں صرف کرتی تھی۔ اللہ کے بجائے اپنی والدہ کو یاد کرنے کےلیے سلیم بھائی بھی اس رات پینا موقوف کرکے کچھ گھنٹوں کے لیے مسلمان بن جاتے تھے۔ خیر جونہی بابری مسجد کی مسماری کی خبر نشر ہوئی، ہمارے کمرے کے دروازے پر بڑی زور زور سے دستک ہوئی۔ دروازہ کھولنے پر دیکھا کہ سلیم بھائی بوتل پکڑے خاصے غصہ میں ہندوستانی حکومت اور اس کے آئین کو گالیوں سے نواز رہے تھے۔ میرے کتابوں کے شیلف سے اس نے ہندوستانی آئین کی کتاب نکال کر اس کو پھاڑا اور پھر نیچے گلی میں لے جاکر آگ کے حوالے کردیا۔ ایک تو وہ پورا علاقہ ہندوؤں کا تھا، دوسرا مجھے کتاب کے تلف ہونے پر بھی افسوس ہو رہا تھا۔ خدشہ یہ بھی تھا کہ ان کی حرکت سے فساد پھوٹ پڑسکتا تھا۔ خیر ہوگئی کہ رات خاصی بیت چکی تھی اور باہر جن لوگوں نے بھی ان کی حرکت دیکھی وہ یہی سمجھے کہ شراب کے نشے میں دھت وہ اپنی کوئی کتاب جلا رہے ہیں۔

ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں بابری مسجد کا سانحہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ تھا۔ کہ سلیم شیخ جیسے فرد کو بھی اس دن ا پنی مسلم شناخت یاد آگئی اور مسجد کی مسماری پروہ اس قدربے چین ہوگیا۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ایک سابق لیڈرمرحوم جاوید حبیب نے مجھے ایک بار کہا تھا کہ بابری مسجدکا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے پانچ بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ پہلا 1857 کی جنگ آزادی، دوسرا 1920 میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ، تیسرا 1947 میں تقسیم ہند اور آزادی، چوتھا 1971میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا‘ اور پانچواں 1984 میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور 1992 میں بابری مسجد کا انہدام‘جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔ اب اس میں چھٹا واقعہ اب ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرکے اس کو مرکزی انتظام والا علاقہ بناکر اس کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنا ہے۔

سپریم کورٹ نے اب حال ہی میں بابری مسجد پر سماعت مکمل کرکے دنیا کے سب سے پرانے عدالتی دیوانی تنازعہ پر فیصلہ محفوظ کردیا ہے۔ امید ہے کہ 18 نومبر سے قبل جب موجودہ چیف جسٹس رنجن گگوئی ریٹائرڈ ہورہے ہیں، اس قضیہ کا فیصلہ سنایا جائےگا۔ یہ معاملہ سب سے پہلے 1853 میں فیض آباد کی عدالت کے سامنے آیا، جب ایک ہندو مہنت نے دعویٰ کیا کہ مسجد کے گنبد اور محراب کے پاس کئی لاکھ سال قبل بھگوا ن رام پیدا ہوئے تھے۔ برطانوی جج نے کئی سماعتوں کے بعد اس دعویٰ کو خارج کر دیا۔ اس کے بعد 1949 میں مقامی وقف بورڈ اور ایک شخص ہاشم انصاری نے کورٹ میں فریاد کی، کہ رات کے اندھیرے میں چند افراد نے دیوار پھلانگ کر محراب کے پاس ایک مورتی رکھ دی ہے اور مقامی انتظامیہ نے مورتی کو ہٹانے کے بجائے مسجد پر تالہ لگاکر مسلمانوں کی عبادت پر پابندی لگائی ہے۔ کورٹ سے درخواست کی گئی تھی کہ اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے۔ ضلعی عدالت میں کئی برسوں تک اس قضیہ پر جب کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو اس کو الہ آباد ہائی کورٹ میں ریفر کردیا گیا، جس نے 2010 میں ایک عجیب و غریب فیصلہ سنایا، جس نے کسی بھی فریق کو مطمئن نہیں کیا۔ فریقین نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔

حال ہی میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے 40 روز تک مسلسل اس معاملہ کی سماعت کی، جس کے دوران عدالت میں 11500 دستاویزات پیش کئے گئے۔ ان میں کئی دستاویزات سنسکرت اور فارسی میں تھے۔ اتر پردیش کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف جب اپیل کو سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کیا، تو الہ آباد سے 15 بڑے ٹرنکوں میں دستاویزات دہلی پہنچا دی گئی۔ ہائی کورٹ کا ٖفیصلہ ہی 8170 صفحات پر مشتمل تھا اور اس کے ساتھ 14385 صفحات ضمیمہ کے طور پر منسلک تھے۔ چالیس دن کی اعصاب شکن بحث کے دوران مسلم فریقین نے بار بار لاہور کے شہید گنج گوردوارہ کی مثال دیتے ہوئے، دلیل دی کہ بابری مسجد کا معاملہ ایک سیدھا سادہ ملکیتی معاملہ ہے۔ وہاں پر مندر یا مسجد طے کرنے کا معاملہ شامل بحث ہی نہیں ہے۔ میجر جنرل الیگزندر کنیگہم کے مطابق 1500 قبل مسیح میں اس شہر کو تباہ و برباد کردیا گیا تھا اور پھر 1300 برسوں تک یہ غیر آباد رہا۔ تب تک عیسائی نہ مسلمان ہی جنوبی ایشیا میں آئے تھے۔

اس دورا ن دریائے سورو نے بھی کئی رخ بدلے ہوں گے۔ آخر اب ہی کیسے طے ہوسکے گا کہ بھگوان رام کئی لاکھ برس قبل اسی مسجد کے محراب کے پاس پیدا ہو گئے تھے؟ مسلم فریقین کے وکیل راجیو دھون نے کورٹ کو بتایا کہ صرف پچھلے پانچ سو سالوں میں ہی دریا نے کئی رخ بدلے ہیں۔ بنچ کے ایک رکن جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے ہندو فریقین سے کہا کہ دنیا کا ایک دستور ہے تہذیبں دریا کے کناروں پر بستی چلی آئی ہیں، اور جب ان کا دور ختم ہو جاتا تھا تو دیگر تہذیبں کھنڈرات کو دوبارہ آباد کرتی آئی ہیں۔ اس کی واضح مثال ازبکستان کا شہرسمر قند ہے۔ اب آپ کیسے یہ ثابت کرو گے کہ مسجد کے نیچے کے کھنڈرات کسی عبادت گاہ کے ہی تھے اور وہ بھگوان رام کی رہائش گاہ بھی تھی۔ جب جج نے ہندو فریق نرموہی اکھاڑہ سے زمین کے دستاویزات کے بارے میں پوچھا، تو ان کا جواب تھا کہ یہ نزول زمین ہے، مگر ٹیکس ریکارڈ میں یہ اکھاڑہ کی جائیداد ہے۔ جب جج نے ٹیکس ریکارڈ پیش کرنے کے لیے کہا تو جواب ملا کہ 1982 میں ایک ڈکیتی کی واردات میں وہ ضائع ہو گئے ہیں۔

سماعت کے دوران راجیو دھون نے بار بار لاہور کے شہید گنج گرودوارہ کا ذکر کر کے عدالت کو بتایا کہ وہ حد قانون یعنی Law of Limitation کا اطلاق کرکے زمین کے اس رقبہ کو مسلمانو ں کے حوالے کردے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قضیے کا لاہور کی مسجد شہید گنج کیس کے ساتھ موازنہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں لاہور کے کوتوال عبداللہ خان نے 1654 میں شہید گنج مسجد تعمیر کی۔ 1791 میں جب سکھوں نے لاہور پر قبضہ کیا تو وہاں فوجی کیمپ نصب کردیا اور اس کو گرودوارہ میں تبدیل کیا۔ 1849 میں جب پنجاب برطانوی عملداری میں شامل ہوا تو مسلمانوں نے اس مسجد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ 1850 میں مسجد کے متولی نور احمد نے عدالت میں فریاد کی اور وہ 1880 تک قانون کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار Law of limitation کا حوالہ دے کر عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔ اس دوران اس مسجد کے حصول کے نام پر پنجاب میں فرقہ وارانہ فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔

عدالت نے سوال کیا کہ آخر پچھلے 51 سالوں میں مسلمانوں نے دعویٰ کیوں پیش نہیں کیا؟ 1935 میں پنجاب کے انگریز گورنر سر ہربرٹ ایمرسن نے ثالثی کرکے درمیانہ راستہ نکالنے کے لیے اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے کی تجویز دی تھی‘ جس پر ابھی رائے عامہ ہموار ہو ہی رہی تھی کہ سکھوں نے مسجد کی عمارت ہی ڈھا دی۔ جب بادشاہی مسجد سے ناراض مسلمانوں نے جلوس نکالا تو کئی افراد گولیوں سے ہلاک ہوئے۔ پورے لاہور میں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ ایک سال بعد پنجاب میں یونینسٹ پارٹی نے اقتدار سنبھالا، تو عدالتی فیصلے کو رد کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکان نے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے یہ جگہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کی تحویز پیش کی۔ اسی طرح کی تجویز حال ہی میں ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس اور شیوسینا نے بھی دی ہے۔

ان کے مطابق اگر سپریم کورٹ حد قانون کا حوالہ دےکر یہ زمین مسلمانوں کے حوالہ کرتی ہے تو دسمبر کے پارلیامنٹ سیشن میں قانون سازی کے ذریعے بابری مسجد کی املاک کو ہندوؤں کے حوالے کرکے وہاں ایک عالی شان مندر تعمیر کرنے کا کام شروع کیا جائے۔ جس کا افتتاح اگلے عام انتخابات سے قبل کیا جائےگا۔ ان کا کہنا ہے عقیدے سے متعلق فیصلے عدالتوں پر نہیں چھوڑ دینے چاہئیں۔ معروف قانون دان اور مؤرخ اے جی نورانی کے بقول جب اسی طرح کی تجویز مسلم لیگ کے کئی ارکان نے 1937 میں پنجاب اسمبلی میں پیش کی تو بانی پاکستان محمد علی جناح نے اس کو رد کر دیا۔ جناح کے شدید ناقد ہونےکے باوجود نورانی کا کہناہے کہ انہوں نے اس قضیے کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا، بلکہ قانون کی عملداری کا پاس کیا۔ پاکستان بننے کے 70 سال بعد بھی یہ گرودوارہ آب و تاب کے ساتھ لنڈا بازار میں کھڑا ہے۔

لاہور میں جس طرح اس مسئلے نے جذباتی رخ اختیار کیا تھا، آزادی کے بعد اندیشہ تھا کہ پاکستان میں اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے مگر کسی پاکستانی سیاستدان نے انگریز عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہ کی۔ ہندوستان کے ایک مشہور دانشور امریک سنگھ نے ایک بار سوال کیا تھا کہ جب اسلامی پاکستان میں ایک ایسے گرودوارہ کو تحفظ مل سکتا ہے، جس پر خون کی ندیاں بہہ گئی ہوں، تو حد قانون کا اطلاق کرتے ہوئے سیکولر ہندوستان میں بابری مسجد کو بازیاب کروا کے ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر کیا آگے نہیں بڑھا جاسکتا ہے؟

معروف قانون دان اور مصنف اے جی نورانی نے اس موضوع پر اپنی کتاب Destruction of Babri Masjid: A National Dishonour میں 30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کے بنچ کے فیصلہ کے حوالے سے لکھا ہے، کہ اس نے ہندوستانی عدلیہ کی شبیہ مجروح کی ہے۔ ججوں نے قانون اور شواہد کو طاق پر رکھ عقیدے اور یقین کو بنیاد بنا کر بابری مسجد پر حق ملکیت کا فیصلہ ہندوؤں کے حق میں سنادیا۔ ایک جج نے زمین کے بٹوارہ کی بھی تجویز دی۔ نورانی کے مطابق ایسے فیصلہ کی نذیر دنیا بھر کی عدلیہ کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس بنچ نے ان نکات پر بھی فیصلہ دیا جو شامل بحث تھے ہی نہیں۔ انہوں نے قانون اور آئین کی پروا کئے بغیرکہا کہ Law of Limitation کا اطلاق ہندو دیوی دیوتاؤں پر نہیں ہوتا اور نہ ہی ان جگہوں پر جہاں ان دیوتاؤں کی نشانیاں ہوں؛یعنی کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی بھی مورتی، چاہے وہ پتھر کا ٹکڑا ہو یا کسی درخت کی شاخ یا پتہ، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتا سکتا ہے۔

چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی کیوں نہ مقیم ہو۔ اس فیصلہ کی اعتباریت اور بھی مضحکہ خیز بن جاتی ہے، جب جج صاحبان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بھگوان رام کا جنم اسی مقام پر ہوا جہاں بابری مسجد کا منبر واقع تھا اور یہ بھی کہا کہ ان کے مطابق شری رام چندر 8 لاکھ سال قبل مسیح میں اس جگہ پر موجود تھے۔ دنیا بھر کے تاریخ دان اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اتنی پرانی آبادی کے کوئی آثار ابھی تک نہیں ملے ہیں۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اپنے طویل فیصلہ میں مسلم حکمرانوں کے خلاف بھی ایک لمبا چوڑا تبصرہ کیا، اور ان کے ذریعہ ہندو عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے عمل کو بھی اپنے فیصلہ کا جواز بنایا ہے۔ یہ بات اگر صحیح ہے تو ہندو حکمرانوں کے ذریعے لاتعداد بدھ خانقاہوں کی بے حرمتی اور ان کی مسماری کس کے کھاتے میں ڈالی جائے۔ کشمیر کے ایک ہندو بادشاہ ہرش دیو نے اپنے خالی خزانوں کو بھرنے کے لیے مندروں کو لوٹا اور جب پجاریوں نے مزاحمت کی، تو ان کو تہہ تیغ کیا۔ اگر تاریخ میں ہوئے واقعات کے موجودہ دور میں انتقام کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، تو اس کا اختتام کہیں نہیں ہوگا کیونکہ ہر قوم نے ماضی میں جب وہ غالب رہی ہو کوئی نہ کوئی ایسی حرکت تو ضرور کی ہے، جس سے کسی کو آزار پہنچا ہو، مگر اب آباؤ اجداد کے گناہوں کے سزا اولادں کو تو نہیں دی جا سکتی۔

سپریم کورٹ نے سماعت سے قبل معاملہ کو ایک تین رکنی ثالثی کمیٹی کے حوالے کرکے عدالت کے باہر فریقین کو کسی تصفیہ تک پہنچنے کی گزارش کی۔ سابق جج جسٹس خلیفۃ اللہ کی قیادت میں ہندو گرو سری سری روی شنکر اور ایڈوکیٹ سری رام پنچو پر مشتمل اس کمیٹی نے فریقین کے ساتھ کئی ملاقاتیں کی، جو بے سود رہیں۔ اس کمیٹی کی کارروائی خفیہ رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی اور میڈیا کو بھی اس کو کور کرنے سے منع کردیا گیا تھا۔ مگر جو خبریں اب چھن چھن کر آرہی ہیں، ان کے مطابق ایک مسلم فریق سنی وقف بورڈ نے بابری مسجد کے معاملے سے دستبرداری کی پیش کش کی تھی اگر حکومت اور ہندو فریقین چند شرائط تسلیم کرتے ہیں۔ ان میں ایودھیا کی کچھ مسجدوں کی مرمت کے علاوہ محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام مسجدوں میں عبادت کی منظوری اور تمام مذہبی مقامات پر 1947 سے پہلے والی صورت حال برقرار رکھنے کے قانون کے نفاذ کی شرط بھی شامل تھی۔ جس کو 1991 میں وزیر اعظم نرسمہا راؤ حکومت نے پاس کیا تھا۔ معروف صحافی معصوم مراد آبادی کے بقول ان میں آثارِ قدیمہ کے زیر انتظام سینکڑوں تاریخی مسجدوں میں نماز کی آزادی دینے کی شرط سب سے اہم تھی۔

دہلی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں موجود مسلم دورحکومت کی تعمیر شدہ یہ مساجد زبان حال سے اپنی بے کسی کا نوحہ بیان کررہی ہیں جہاں سیاحوں کو جوتوں سمیت گھومنے کی تو آزادی ہے لیکن مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وشو ہندو پریشد کے پاس تین ہزار مسجدوں کی فہرست ہے جو اس کے خیال میں مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔ بابری مسجد کے بعد وہ ان مسجدوں کے معاملے کو اٹھا کر عوامی جذبات بھڑکا نے کے فراق میں ہے۔ ان میں بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ سب سے اہم ہیں‘ جہاں آج بھی باقاعدہ نماز ہوتی ہے۔اکھاڑہ پریشد نے تو پہلے ہی دھمکی دی ہے کہ رام مندر کے بعد اب کاشی اور متھرا کے لئے بھی تحریک تیز کی جائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ کمیٹی کے سامنے ایک اور تجویز یہ آئی تھی کہ اگر حکومت آئین کی دفعہ 341 میں ترمیم کرکے عیسائت یا اسلام اختیار کرنے والے دلتوں کے لیے ریزرویشن یعنی کوٹہ برقرار رکھتی ہے، تو اس صورت میں بھی مسلمان مسجد سے دستبردار ہو سکتے ہیں۔

آئین کی اس شق کی رو سے اگر کوئی دلت اسلا م یا عیسائیت اختیار کرتا ہے، تو وہ تعلیمی اداروں و نوکریوں میں ریزرویشن کا حق کھو دیتا ہے۔ یہ شق ہندو مذہب کے پسماندہ طبقات اور نچلی ذاتوں کو تبدیلی مذہب سے روکنے کے لیے آئین میں رکھی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے اس شرط کو ہندو فریقین نے خارج کردیا۔ غالباً ان کو خدشہ رہا ہوگا کہ اگر آئین کی اس شق میں ترمیم کی جاتی ہے، تو دلت اور دیگر نچلی ذاتوں کے ہندو عیسائت یا اسلام کی طرف جوق در جوق رجوع کرسکتے ہیں۔ مگر معصوم مراد آبادی کے مطابق اگر بابری مسجد طشتری میں سجا کر ہندوؤں کو پیش کردی گئی تو اس ملک میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت خطرے میں پڑ جائے گی۔ ” اس کے بعد کوئی بھی شرپسند عددی طاقت کے بل پر یہاں کی اقلیت کو دبانے اور کچلنے کی کوشش کرے گا۔ عدالتیں ثبوتوں اور شہادتوں کی بجائے عقیدے اور آستھا کی بنیاد پر فیصلے کرنے لگیں گی اور اس ملک سے انصاف اور انسانیت کا جنازہ نکل جائے گا۔“ بابری مسجد کے مقدمے کی پیروی ایک ہندو وکیل راجیو دھون نے کی۔ اس کام کے لئے انہوں نے کسی فریق سے کوئی پیسہ وصول نہیں کیا۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے آخری دن ایک ہندو فریق نے رام مندر کا ایک فرضی نقشہ پیش کر کے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ دھون نے بھری عدالت میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔ بابری مسجد پر عدالت کا فیصلہ یہ طے کرےگا کہ کیا اصول حکمرانی میں عقیدہ کو استدلال پر فوقیت حاصل ہے۔ لاہور کی شہید گنج مسجد واقعہ میں برطانوی عدالت پریوی کونس نے تسلیم کیا تھا کہ 1799سے قبل وہ ایک مسجد تھی اور اس میں عبادت بھی ہوتی تھی، مگر Law of Limitations کا اطلاق کرتے ہوئے عدالت نے استدلال کو فوقیت دی۔ جب انسان ہی فانی ہے تو عدالت کے مقدمے اور تنازعے کیسے لافانی ہوسکتے ہیں؟ اپنی بحث سمیٹتے ہوئے راجیو دھون نے عدالت کے سامنے علامہ اقبالؒ کے یہ شعر بھی پڑھے۔

وطن کی فکر کر نا داں مصیبت آنے والی ہے

تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے ہندوستاں والو

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں