کچڑے میں سوئی لگائی کم و بیش 900 بچے ایڈس کے شکار

پاکستان میں ایک عجیب و غریب معاملہ منظر عام پر ایا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ رتوڈیرو شہر میں مقیم مظفر گھنگھرو ایک جھولا چھاپ ڈاکٹر ہے جس نے اپنے کئی غریب مریضوں کو ایک ہی سیرینج سے سوئی لگا دی جس کی وجہ سے شہر میں ایچ ائی وی کا قہر بری طرح برپا ہو گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس شہر میں کم و بیش 900 بچے ایڈس کے شکا رہیں۔ معاملے کا انکشاف ہونے کے بعد مظفر گھنگھرو کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر پر کام میں لاپروائی برتنے اور انسانی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔ حالانکہ ملزم ڈاکٹر اس سلسلے میں خود کو بے قصور بتا رہا ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق ناراض مریضوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مظفر گھنگھرو اکثر بچوں کو سوئی دینے کے لیے پہلے سے استعمال کی گئی سیرینج استعمال کرتا تھا۔ ایک امتیاز جیلانی نامی شخص نے اپنے چھ بچوں کا علاج اس ڈاکٹر کے پاس کرایا تھا اور بتایا جاتا ہے کہ سبھی کو ایچ ائی وی یعنی ایڈس ہو گیا ہے۔ انگریزی روزنامہ ’نیو یارک ٹائمز‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں جیلانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ڈاکٹر گھنگھرو نے اس کے سامنے کچرے کے ڈبے سے سوئی نکالی اور ان کے چھ سالہ بچے کو انجکشن لگایا۔ جیلانی نے بتایا کہ انھوں نے جب ڈاکٹر کو روکنے کی کوشش کی تو اس نے پوچھا کہ کیا نئی سوئی کے لیے اس کے پاس پیسے ہیں۔ اس کے بعد وہ خاموش ہو گئے۔
امتیاز جیلانی نے انگریزی روزنامہ کو بتایا کہ سوئی دئیے جانے کے بعد ان کا بچہ مزید بیمار پڑ گیا اور پھر اس کے ایچ ائی وی سے متاثر ہونے کا پتہ چلا۔ جیلانی کے دو بچوں کی موت ہو چکی ہے جب کہ باقی چار ایچ ائی وی سے متاثر ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے اس شہر میں ایچ ائی وی پازیٹو افراد کی تعداد کافی زیادہ ہے اور اس کے پیچھے ڈاکٹر گھنگھرو کی لاپروائی کو اہم وجہ تصور کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ افسران اس کے علاوہ بھی یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کہیں کسی اور وجہ سے یہ بیماری لوگوں میں تو نہیں پھیل رہی۔ ویسے نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ رتوڈیرو شہر میں حجام ایک ہی بلیڈ سے کئی لوگوں کی حجامت بناتے ہوئے نظر اتا ہے اور دانتوں کے ڈاکٹر بھی غیر معیاری اوزاروں کا استعمال کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

SHARE