یہ میرا اصول ہے کہ میں جس مقدمہ کی پیروی کرتا ہوں اس پر اس وقت تک کوئی تبصرہ یا اظہارخیال نہیں کرتا جب تک اس کا حتمی فیصلہ نہیں آجاتا۔ میرے ہاتھوں نقشہ پھاڑنے کے معاملہ پر میڈیا میں غیر ضروری تنازع کھڑا کیاگیا ،لیکن قارئین کو یاد رکھنا چاہیے کہ میں نے نقشہ چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی کی اجازت سے پھاڑا تھا اور یہ واقعہ عدالتی کاروائی کا حصہ بھی نہیں ہے۔
بہر حال جیسے ہی مجھے معلوم ہوا کہ اس معاملہ کی، یہ بتائے بغیر، بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی ہے کہ ایسا کرنے کی اجازت مجھے خود چیف جسٹس آف انڈیا نے دی تھی ، میں نے 16 اکتوبر کی دوپہر کو سماعت کے دوران ہی چیف جسٹس کو اس بات سے آگاہ کردیا کہ صبح میں میرے ہاتھوں نقشہ پھاڑنے کا معاملہ وائرل ہوگیا ہے ۔ میں نے چیف جسٹس سے گذارش کی کہ وہ اس بات کی وضاحت کردیں کہ میں نے یہ کام آپ کی اجازت سے کیا ہے ۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کہ ان کے کہنے پر ہی میں نے یہ نقشہ پھاڑا تھا۔ انہوں (چیف جسٹس ) نے میڈیا کے نمائندوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ ان کا یہ جواب بھی اسی طرح وائرل ہونا چاہیے جیسا کہ نقشہ پھاڑنے کی بات وائرل ہوئی ہے تاکہ یہ غیر ضروری تنازع ختم ہو۔
بلا شبہ مجھے (بابری مسجد کاکیس لینے پر )بد دعائیں دی گئیں ،بہت برا بھلا کہا گیا،نیز جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں ۔ اور ’ جئے سیا رام ‘ کے بھی بہت سے پیغامات ملے لیکن میں ان گالیوں اور دھمکیوں کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہوں اور بھگوا ن رام کا تذکرہ اپنے لئے ایک آشیرواد تصور کرتا ہوں۔
ثالثی کمیٹی کا رول
میں اس ’’ کامیاب‘‘ ثالثی کمیٹی کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کی رپورٹ کے خفیہ نکات بہت ہی سوچ سمجھ کرعین اس وقت افشا کئے گئے جب مقدمہ کی آخری سماعت جاری تھی ۔ بابری مسجد کے انہدام سے پہلے اور بعد میں بھی جب یہ کیس لکھنو بینچ میں زیر سماعت تھا، اس قضیہ کوافہام و تفہیم سے حل کرنے کے لئے متعدد کوششیں کی گئیں۔ لیکن یہ کوششیں بڑی حد تک ہندو فریق کے سخت موقف اور اس بات پر رٹ لگائے رہنا کہ ’’مندر وہی بنائیں گے ‘‘ کی وجہ سے بارآور ثابت نہیں ہوسکیں۔
ہندو فریق یہ ثابت کرنے سے قاصر رہے کہ مندر اس جگہ (بابری مسجدکی جگہ پر ) تعمیر کیا گیا تھا اور وہ اس بارے میں آستھا کی ایک کمزور سی دلیل کے سوا کوئی واضح ثبوت پیش نہیںکرسکے ۔ اور ٓاستھا کی اس بات کواڈوانی اور جوشی کی یاتراؤوں نے تقویت پہنچائی ۔ جب 1985 میں نیاس ( ایک ٹرسٹ ) قائم کیا گیا جس میں آرایس ایس ، وی ایچ پی ، سنت سادھو ، سیاستداں اور سبکدوش جج صاحبان شامل تھے ۔ اس کے بعد سے ہندؤوں کا موقف مزید سخت ہوتا گیا اور نیاس نے 1989 میں ایک مقدمہ دائر کیا ۔
اس وقت تک اجو دھیامیں مال و دولت کی ریل پیل ہوچکی تھی اور غنڈا گردی بھی عروج پر تھی ۔ اور وہاںکئی مندر بھی تعمیر کئے گئے جن میں دولت کے انبار لگا دئے گئے ۔نیز غنڈ ے بھی پالے گئے تھے جنہوں نے خوف و تشد د کاایک بازار گرم کر رکھا تھا ۔
کیا یہ ثالثی ہے ؟
کسی بھی قضیہ اور مسئلہ کوحل کرنے کے لئے مصالحت اور ثالثی ایک قابل تعریف اور پسندیدہ طریقہ ہے بشرطیکہ وہ تمام فریقوں کی حمایت اور رضامندی سے معاملات طے کرے اور تنازعات کی چنگاریوں کو باقی نہ رکھے ۔ سپریم کورٹ نے 26 فروری 2019 کو مصالحت کے ذریعہ مسئلہ کو حل کرنے کی غرض سے ایک اور موقع فراہم کرکے ایک درست قدم اٹھایا تھا۔ اس مرحلے میں بھی مسلم فریقوں نے ثالثی کی کوششوں کو ایک اور موقع دینے پر اپنی آمادگی کا اظہار کیا ۔ ہندو فریقین (نرموہی اکھاڑہ نے بھی اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے ثالثی کی حمایت کی ) بھی ثالثی پر راضی ہوگئے ۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ نیاس اور نرموہی اکھاڑا دونوں عدالت میں اور اس کے باہر بھی دست و گریباں رہے ہیں ۔
سپریم کورٹ نے 8 مارچ 2019 کو ثالثی کے لئے جس ٹیم کا اعلان کیا وہ جسٹس خلیف اللہ (چیئرمین) ، شری شری روی شنکر اور سری رام پنچو پر مشتمل تھی ۔ ثالثی کمیٹی نے اپنی ابتدائی میٹنگ کے بعد 10 مارچ کو فریقین کے ساتھ پہلی میٹنگ کی جس میں شری شری روی شنکر کی شمولیت پر اس بنیاد پر اعتراض اٹھایا گیا کہ وہ پہلے سے یہ موقف رکھتے ہیں کہ اس جگہ (مسجد کی ) کو ہندوؤں کودے دینا چاہیے ۔ شری شری نے بھی خود کو ثالثی عمل سے الگ نہیں کیا جن کی موجودگی سے ثالثی کا عمل جانب دار انہ اورکسی ایک طرف جھکا ہوا محسوس ہوتا تھا اس لئے ایک جانبدار ثالث کی موجودگی میں مصالحت کے عمل کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا ۔
ان اعتراضات کے پیش نظر ، شری شری نے جناب کمال فاروقی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے دیگر ارکان کے نام ایک خط ارسال کیا جس پر کوئی تاریخ درج نہیں تھی ۔ ہندو فریق اپنے موقف
پربضد تھے جبکہ مسلمانوں کی طرف سے جمعیت علماء ہند ( اس مقدمہ کی سپریم کورٹ میں فریق اول) اور دیگر افراد اور تنظیموں نے کچھ تجاویز پیش کیں۔ ہمیں ان کی پوری تفصیلات معلوم نہیں ہے سوائے وہ نکات کے جو افشا کئے گئے ۔ بحیثیت وکیل ، میں نے واضح کردیا تھا کہ میں ان میٹنگوں میں شرکت نہیں کروں گا کیونکہ مصالحت کی یہ گفتگو فریقوںکے مابین ہورہی ہے ۔
ثالثی کمیٹی نے اجودھیا تنازع کے صرف فریقوں کا موقف سننے کے بجائے ہر کس ناکس کی بات سنی جن میں ایک رکن پارلیمان بھی شامل تھے جو اجودھیا مقدمہ میں فریق بننا چاہتے تھے مگر عدالت نے ان کی درخواست مسترد کردی تھی۔ انہوں نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے 500 مسجدوں کی ( نام کے ساتھ ) ایک فہرست پیش کی کہ یہ مندر توڑ کر تعمیر کی گئی ہیں یعنی ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس پر کوئی کارروائی کی جائے۔
اس سے قطع نظر ،کمیٹی کے سربراہ جسٹس خلیف اللہ نے 7 مئی 2019 کو ایک خط لکھ کر سپریم کورٹ سے کمیٹی کی مدت کار میں توسیع کی درخواست کی جسے عدالت نے قبول کرتے ہوئے 5 اگست تک بڑھا دیا۔بہر حال سپریم کورٹ نے 11 جولائی کوجسٹس خلیف اللہ سے کہا کہ وہ ثالثی عمل کی پیش رفت سے عدالت کو آگاہ کریں۔ عدالت نے 18 جولائی 2019 کو دوبارہ اس کی یاددہانی کرائی جس کے جواب میں 2 اگست کو کمیٹی نے بتایا کہ ثالثی کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں اور ان کا کوئی حتمی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ عملی طور پر ثالثی کمیٹی کی میعاد ختم ہو چکی ہے او ر اب وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اگرچہ اس ضمن میں کو ئی باضابطہ حکم صادر نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم ثالثی کمیٹی نے اپنے طور پر خود کو دوبارہ زندہ کیا اور اس بارے میں عدالت کو بتایا جس نے 18 ستمبر کو ایک آرڈر پاس کیا کہ : . ’’ اپیلوں پر سماعت اب آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے جوبغیر کسی رخنہ اندازی کے جاری رہے گی۔ اگر اس دوران میں فریقین قضیہ کو بات چیت کے ذ ریعہ حل کرنے کے خواہاں ہیں تو وہ یہ گفتگو اس سے پہلے تشکیل دی گئی ثالثی کمیٹی کے توسط سے بھی کرسکتے ہیں اور اگر وہ اس کے ذریعہ مسئلہ کے کسی حل پر پہنچ جاتے ہیں، تو وہ یہ حل عدالت کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ہم یہ بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اگر تصفیہ کے لئے ثالثی کے عمل کو بروئے کار لایا جاتا ہے تو 8 مارچ 2019 کو جاری کردہ ہمارے پہلے حکم نامہ کے مطابق رازداری برتنے کے لئے تمام شرائط کی پاسداری کرنی ہوگی۔ــ‘‘ ( اس پر خاص زور دیا گیا ) ۔
حکم نامہ کے الفاظ پر غور کریں جو ’’پہلے تشکیل دیئے گئے ثالثی پینل‘‘ کی بات کرتا ہے اور یہ کہ فریقین کو افہام و تفہیم کے ذریعہ معاملہ کو سلجھانے یا پہلی ثالثی کمیٹی کی مدد لینے کا اختیار تفویض کرتا ہے ۔
رپورٹ کے نکات افشاء ہونے کے بعد ایسا معلوم ہوا ہے کہ تنازع کو بات چیت سے حل کرنے کے لئے یوپی سنی وقف بورڈ کے صدرجناب زوفر فاروقی نے درخواست دی تھی۔
ہمیں با ضابطہ طور پر یہ بتایا گیا کہ جناب زوفر فاروقی پر یو پی کی آدتیہ ناتھ حکومت کا دباؤ ہے جن کے خلاف ایک ایف آئی آر درج ہے۔ اس غرض سے کہ بابری مسجد کے مسئلہ پر مصالحت یا ثالثی کے بارے میں ان کے اختیار کو کوئی چیلینج نہ کرے ، فاروقی نے یہ دعوی کیا کہ وقف بورڈ نے اس سے پہلے ایک قرارداد پاس کی تھی جو چیئرمین کو یہ مکمل اختیار دیتی ہے کہ وہ بابری مسجد مقدمہ کے سلسلہ میں کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن جناب فاروقی نے مزید ایک قدم آگے بڑھ کر وقف بورڈ کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ شکیل احمد سید سے کہا کہ وہ اس کیس سے دستبردار ہوجائیں اور اسے بورڈ کے ایک دوسرے وکیل شاہد رضوی کے حوالے کردیں۔
بہر حال اس معاملہ میں درخواست کے لئے دباؤ نہیں ڈالا گیا ( ویسے بھی اگر وکیل کو تبدیل کرنا ہے تو عدالتی کارروائی سے ہی ایسا کیاجاسکتاہے ) نیز وقف بورڈ کے چیئرمین نے جناب ڈاکٹر راجیو دھون کی عدالت میں مضبوط دلائل سے بحث کرنے کی ستائش کی ۔ وکیل تبدیل کرنے کی اس درخواست کا نتیجہ صرف یہ ہوسکتا تھا کہ جناب ظفر یاب جیلانی اورجناب ڈاکٹر راجیو دھون جو جمعیۃ علماء ہند اور وقف بورڈ کی طرف سے بھی پیروی کر رہے تھے انہیں بیچ سماعت سے ہٹاد یا جاتا۔
سری رام پنچو کی آمد
سری رام پنچوسپریم کورٹ کی ثالثی کمیٹی کے ارکان میں سے ایک ہیں ۔ میں انہیں صارفین کے تحفظ اور مفاد عامہ کے وکیل کے طور پر جانتا ہوں۔ وہ ثالثی کی متعدد کوششوں بشمول ناگالینڈ معاملے میں شامل رہے ہیں ۔ انہوں نے ثالثی پر ایک کتاب لکھی ہے اور وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ثالثی کے کاموں میں مہارت رکھتے ہیں ۔ وہ بظاہر بعض افراد کے رابطے میں تھے جو ثالثی کی گفتگو میں شامل ہوئے تھے۔
انہوں نے کمیٹی کی کوششوں کے دوران کن لوگوں سے باضابطہ طور یا غیر رسمی طور پر بات کی ہے اس کا علم نہیں ہے ۔ کیونکہ 2 اگست سے پہلے ثالثی کی میٹنگوں میں شریک بڑے فریقوں کو کمیٹی کی کارروائیوں کی کوئی تفصیل نہیں بھیجی گئی جو عدالت میں اس مقدمہ کے اہم فریق ہیں۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ 14 اکتوبر 2019 کو ، سری رام پنچو نے سپریم کورٹ کو ایک خط بھیجا جس میں عدالت سے بورڈ کے چیئرمین جناب زوفر فاروقی کو تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی گئی،کہا گیا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے ۔
14 اکتوبر 2019 کوچیف جسٹس آف انڈیا نے یو پی کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کی موجودگی میں بینچ کی جانب سے جناب فاروقی کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم صادر کیا۔ اس کے اگلے دن سر ی رام پنچو نے ایک اور خط سپریم کورٹ کو ارسال کیا جس کے متن کو چیف جسٹس آف انڈیا نے ظاہر نہیں کیا ۔ اس کے بارے میں شاید یہ گمان یافرض کیا جاسکتا ہے کہ یہ خط اس نام نہاد سمجھوتہ کے بارے میں ہو سکتا ہے یا اب تک جو کچھ پیش رفت ہوئی ہے اس کے بارے میں۔
اس کی خفیہ تفصیلات کو عام کرنے کے لئے جو وقت منتخب کیا گیا وہ ان کے لئے بالکل مناسب اور موزوں وقت تھا۔ چونکہ وہ دن مقدمہ کی سماعت کا بالکل آخری دن تھا ۔ اس سے ایک دن قبل سری رام پنچو سپریم کورٹ کے احاطے میں چیئرمین فاروقی کے ساتھ نظر آئے تھے ۔لیکن ذرا توقف کریں کچھ باتیں قابل غور ہیں:
اول: ہم پہلے ہی 18 ستمبر کے سپریم کورٹ کے اس آرڈر کو دیکھ چکے ہیں جس میں عدالت نے واضح طور پر کہا ہے کہ ” اس سے پہلے تشکیل کردہ ثالثی کمیٹی ” کی حیثیت تنہا متبادل کی ہے۔
دوم : ” قابل احترام سپریم کورٹ کی نامزد کردہ ثالثی کمیٹی” کے مجاز افسر ہری کرن Harekaran نے 2اکتوبر کو فریقین کے بعض وکلاء کو ایک میل بھیجا کہ وہ 9؍ اکتوبر 2019کو ثالثی کمیٹی کی میٹنگ میں شرکت کریں نیز اس کے بعد 10 اکتوبر کو ہونے والی فالو اپ میٹنگ میں بھی رہیں۔
یہ ہری کرن کون ہے؟ وہ سری رام پنچو کے ساتھ کام کرتا تھا یا ہوسکتا ہے اب بھی ساتھ میں ہو وہ پنچو کے لئے ایک صحیح مددگار شخص ہے کیونکہ پنچو جلد از جلد کوئی نہ کوئی حل نکالنا چاہتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے
کہ یہ سب کچھ کمیٹی کے دیگر با اثر ارکان کی منظوری سے ہوا ہو ۔
سوم: ہمیں نہیں معلوم کہ ان میٹنگوں میں کون کون شریک ہوا ہے کیونکہ ہمارے پاس ان کی تفصیلات نہیں بھیجی گئیں ۔ ان میٹنگوں کی تفصیلات سب کو ارسال کی جانی چاہیے تھیں مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
ثالثی کمیٹی کی میٹنگیں نہ صرف بندکمرے میں بلکہ اس مقدمہ کے فریقوں سے بھی پوشیدہ رکھی گئیں۔ہندو فریق نے عدالت میں یہ عندیہ دے دیا تھا کہ وہ ثالثی کے عمل میں شامل نہیں ہوں گے۔ ہمیں
بتایا گیا کہ جن تین اہم ارکان نے اس میں شرکت کی ان میں سنی وقف بورڈ کے چیئرمین فاروقی ، نروانی اکھاڑہ کے جناب دھر م داس شامل تھے جنہوں نے کمرہ عدالت نمبر 1 کے باہر دوسرے اہم ہندو فریقوں کے ساتھ کھلے طور پر بدتمیزی کی تھی اور عدالت میں یہ دعویٰ کیا تھاکہ اسے اور ہندو مہاسبھا کے جناب چکرپانی اور ممکنہ طور پر دو دیگر فریقوں کوشباتھ (متولی) کا حق حاصل ہے ۔
چہارم:یہ نام نہاد ثالثی میٹنگیں ایک طرح سے بند کمرے میں ہوئیں اور ان میں جن فریقوں نے شرکت کی وہ سب کی نمائندگی کا دعوی کرتے تھے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے ۔
پنجم :یہ کہ یہ کوئی ثالثی نہیں تھی بلکہ ایک سازش تھی۔
وقت کا تعین اور افشائے راز
یہ خفیہ باتیں کیوں افشاء کی گئیں؟ یہ حرکت سپریم کورٹ کے اس حکم کی صریح خلاف ورزی تھی جس میں ثالثی رپورٹ کو خفیہ رکھنے کے لئے کہا گیا تھا ۔ رپورٹ کو افشا کرنے کا یہ فعل نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ یہ عدالت کی توہین بھی ہے۔ اس رپورٹ کی تفصیلات کو کس نے افشاء کیا؟ یہ پنچو ہوسکتے ہیں یا دھرم داس ، چکرپانی ، ہری کرن یا کوئی اور بھی ہوسکتا ہے۔ اس کو منظر عام پر لانے کے وقت کا تعین کس نے کیا؟ افشا سے ایک دن قبل پنچو عدالت کے احاطہ میں فاروقی کے ساتھ کیوں تھے؟ کیا یہ طریق عمل کا باضابطہ حصہ تھا ؟ چیئرمین خلیف اللہ کے بجائے پنچو نے عدالت سے کیوں رابطہ قائم کیا ؟ میں یہ فرض کر رہا ہوں کہ یہ فریضہ پنچو نے ان کے( چیئرمین ) حکم سے انجام دیا ہو مگر یہ اب تک کی روایت سے انحراف تھا کیونکہ اس سے پہلے سپریم کورٹ کو چیئرمین کے توسط سے ہی تمام تفصیلات سے آگاہ کیا جارہا تھا؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ افشا کرتے وقت یہ کیوں نہیں واضح کیا گیا کہ مذاکرات صرف چند فریقوں کے درمیان ہوئے ہیں اور انہیں ہندو اور مسلمانوں کے تمام فریقوں کی تائید اور حمایت حاصل نہیں ہے۔ افشا کے بعد کمیٹی یا کم از کم پنچو کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ یہ بتاتے کہ بات چیت چند فریقوں کے درمیان ہوئی ہے اور اس کے بدلے میں وہ فاروقی کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سپریم کورٹ سے درخواست کر رہے ہیں۔
میرے خیال میں ( یہ صرف میری رائے ہے ) کمیٹی یا پنچو نے ثالثی کے بعض ابتدائی اصولوں کی پاسداری نہیں کی اور انہیں نظر انداز کیا ۔ جب ثالثی کے لئے بات چیت کی جاتی ہے تو ایک مشہور مقولہ کے مطابق ’’ معاملات طے کرتے وقت مقدمہ کے پیش رفت کی نوعیت کو بھی سامنے رکھا جاتا ہے ۔ تاہم اس افشاء سے مقدمہ کی کارروائی پر خراب اثر پڑا ۔ غالباً پنچو خود کو ایک کامیاب ثالث کی حیثیت سے منوانا چاہتے ہیں اور وہ ثالث ہونے کی اپنی حیثیت کو مستحکم کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔ یہ میں نہیں جانتا ۔ بہر حال اس دوران ایک بہت اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ مسلم فریقوں نے کھلے عام یہ اعلان کردیا کہ وہ کسی نام نہاد تصفیہ کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور ان کا اس مجوزہ تصفیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
ثالثی کے عمل کو ’’ قانونی جواز‘‘ فراہم کرنے کی کوشش
فرض کیا جائے کہ یہ مصالحت کی قانونی گفتگو ( جو نہیں تھی ) تھی تو پھر ایک افشا کئے گئے سمجھوتہ کو کیسے قانونی جواز فراہم کیا جاسکتا ہے ۔ یہ ایک قانونی ضابطہ ہے جو دیوانی ضابط اخلاق (Civil Procedure Code) کے آر ڈر 23 میں درج ہے ۔ اس سلسلہ میں قانون اور ضابطہ یہ ہے کہ دعوی کرنے والا ( مدعی ) مقدمہ دائر ہونے کے بعد عدالت کی اجازت سے سبھی مدعا علیہان کے خلاف کسی بھی وقت اپنے دعوی سے کلی یا جزوی طور پر دستبردار ہوسکتا ہے ۔‘‘
اس کے بعد عدالت کو اس بات سے مطمئن کرانا ہو گا نیز وہ کن شرائط پر مقدمہ کو واپس لینے اور دعوی کے کسی جز سے دستبرداری کے قدم کو صحیح قرار دیتی ہے اور اس کے ساتھ دعوی کو واپس لینے یامعاملہ طے کرنے کے اخراجات کو ادا کرنا ہوتا ہے ( اس کیس میں یہ رقم کروڑوں روپے ہوگی )۔ اگر یہ دعوی سے دستبرداری نہیں بلکہ سمجھوتہ ہے تو تب بھی اس صورت میںتمام فریقوں کو اس پر دستخط کرنے ہوں گے جس کا فیصلہ عدالت کرے گی ۔ لیکن در حقیقت ایسا کچھ نہیں ہے،کیوں کہ سنی وقف بور ڈ کے علاوہ کسی بھی مسلم فریق نے مصالحت میں حصہ نہیں لیاتھا۔ یہ دراصل ایک اس طرح کا مقدمہ ہے جو نمائندہ نوعیت کا ہے جس کے لئے ایک مخصوص طریقہ کار ہے۔ اس لئے سب کو ماننا یہ لازمی ہے ۔ (آرڈر 1 ضابطہ8)۔ اس مقدمہ میں ،مسلم سوٹ نمبر 4 مسلمانوں کی طرف سے ایک نمائندہ مقدمہ ہے اور عدالت کے احکامات کے تحت تمام ہندو فریقین کے خلاف داخل کیا گیا ہے ۔ اس طرح کے مقدمے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا سوائے اس صورت میں جب تک کہ عدالت اس کی اجازت نہ دے کیونکہ دیوانی ضا بطۂ اخلاق صراحت کے ساتھ (اپنے حکمنامہ 23 ،رول 3B) کہتا ہے: “کسی بھی نمائندہ فریاد یا دعوی میں کوئی بھی سمجھوتہ یا مصالحت عدالت کی اجازت اور عدالتی کارروائی میں وضاحت درج کئے بغیر نہیں ہوسکتی اور عدالت کی اجازت کے بغیر کیا گیا اس طرح کا کوئی بھی سمجھوتہ یا مصالحت باطل قرار پائے گی۔‘‘آرڈر نمبر 23 رول 3B کے مطابق ایک بار عدالت کی جانب سے Leave گرانٹیڈ ہونے کے بعد تمام فریقین کی رائے جانے بغیر مصالحت نہیں ہوسکتی۔لہذا سنی وقف بورڈ کی جانب سے کیا جانے والا سمجھوتہ غیر قانونی ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے میڈیا اور عوام میں جھوٹ ، غلط اور غیر قانونی باتیں پھیلائی جارہی ہیں۔
میں یہ وضاحت کرنا چاہتاہوں کہ میں اس کیس کی خوبیوں پر کچھ نہیں کہہ رہا ہوں جس پر عدالت کو فیصلہ سنانا ہے۔میں صرف اس پر رائے دے رہا ہوں کہ ایک سمجھوتہ کو جو عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کرکے طے کیا گیا اور جو بذات خود غیرقانونی ہے۔ اس کی غلط طور سے پبلسٹی اور تشہیر کی جارہی ہے ۔ اور میں نے جن باتوں کا ذکر کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے اور جو مجھے معتبر ذرائع نے بتایا ۔ ذرائع ابلاغ ( میڈیا) میں یہ سرخیاں تھیں کہ ’’ تنازع کا تصفیہ ہوگیا ‘‘۔ افسوس کہ ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ میرا احساس ہے کہ سپریم کورٹ کی اجازت سے تمام تفصیلات کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے جس کی بنیاد پر ایک مقدمہ بنتا ہے اور عدالت کو افشا کے اس معاملہ کی تحقیقات کا حکم دینا چاہیے۔ (ترجمہ: ایڈوکیٹ شاہد ندیم)