اجودھیا تنازع پر سپریم کورٹ کا فیصلہ خلاف حقیقت ۔ یہ ٹائٹل سوٹ کا کیس تھا جس پرعدلیہ نے کچھ بھی واضح نہیں کیا :امیر شریعت مولانا ولی رحمانی

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ سخت تکلیف دہ ہے،اس فیصلے کے بعد ملک میں یہ فضا نہیں بننی چاہئے کہ کوئی فریق جیتا ہے اور کوئی ہارا ہے۔گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں امن و امان کو قائم رکھے اور صرف مسلمانوں سے امن کی اپیل کرنے کی بجائے ملک کے تمام باشندوں کوامن و امان کی بحالی اور بدامنی سے بچنے کا پابندبنائے

پٹنہ (ملت ٹائمز)
ملک کے ممتازعالم دین اور امارت شرعیہ بہار واڑیسہ جھار کھنڈ کے امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے اپنے ایک اخباری بیان میں فرمایا کہ بابری مسجد کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے وہ پورے ملک کے سامنے ہے، چونکہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا ہے اور وہ ہمارے ملک کی سب سے معزز عدالت ہے،اس لئے ہم اس فیصلے کو مان رہے ہیں لیکن ہمیں اس بات پر سخت افسوس ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کی بنیاد اے ایس آئی(آثار قدیمہ)کی رپورٹ پر رکھی ہے ،حالانکہ آثار قدیمہ کے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ آثار قدیمہ کی رپورٹ اندازے پر مشتمل ہوتی ہے ،اس سے یقینی طور پر کوئی چیز ثابت نہیں کی جاسکتی،جب آثار قدیمہ کے ماہرین کا یہ ماننا ہے تو پھر آثار قدیمہ کی رپورٹ کو بنیاد بناکر ایسے اہم کیس میں فیصلہ دینا سخت افسوسناک ہے،سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں یہ بنیادی غلطی بھی کی ہے کہ اس کا یہ کہنا ہے کہ بابری مسجد میں جمعہ کی نماز بھی ہوتی تھی اور پوجا بھی کی جاتی تھی،حالانکہ یہ بات جھوٹ اور غلط بیانی پر مبنی ہے ،بابری مسجد میں ۹۴۹۱ءسے پہلے کبھی بھی پوجا نہیں ہوتی رہی ہے، البتہ سیتا رسوئی والا جو حصہ مسجد کے باہر تھا اور جہاں ہندوﺅں اور مسلمانوں کے حصے کو الگ الگ کرنے کے لئے عدالت سے لوہے کی جالی لگادی گئی تھی، وہاںسیتا رسوئی پر پوجا ہوتی تھی ،ایسی غلط بات کو تسلیم کرلینا بھی انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے ، اس حقیقت سے بھی لوگ واقف ہیں کہ ۹۸۹۱ءسے پہلے خود ہندو فریق نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ مسجد کے بیچ کے گنبد کے نیچے رام جی کی جائے پیدائش ہے ،سخت افسوس ہے کہ اس تاریخی پس منظر اور زمین کے مالکانہ حق کے باوجود ۹۴۹۱ ءمیں مسجد میں مورتی رکھی گئی اور رام جنم بھومی کے نام پر انتشار کو ہوا دی گئی یہاں تک کہ ۲۹۹۱ءمیں مسجد شہید کردی گئی ،یہ بات بھی کیسی تعجب انگیز ہے کہ یہ کیس ٹائٹل سوٹ کا تھا یعنی کورٹ کو یہ طے کرنا تھا کہ زمین کس کی ہے؟سپریم کورٹ نے متنازعہ جگہ مندرکے لئے دینے کی بات تو کی ہے لیکن اب تک کی ملنے والی تفصیلات کے مطابق یہ واضح نہیں کیا کہ اس زمین کی اصل ملکیت کس کی تھی او رہے !
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر ہمارا صاف صاف یہ کہنا ہے کہ ملک کی سا لمیت اور سپریم کورٹ کے احترام میں اس فیصلے کو قبول کرنا چاہئے، مگر اس فیصلے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے اور سپریم کورٹ کے پورے احترام کے ساتھ ہمارا یہ کہنا ہے کہ ہم اس فیصلے کو خلاف حقیقت سمجھتے ہیں،سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ سخت تکلیف دہ ہے،اس فیصلے کے بعد ملک میں یہ فضا نہیں بننی چاہئے کہ کوئی فریق جیتا ہے اور کوئی ہارا ہے۔گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں امن و امان کو قائم رکھے اور صرف مسلمانوں سے امن کی اپیل کرنے کی بجائے ملک کے تمام باشندوں کوامن و امان کی بحالی اور بدامنی سے بچنے کا پابندبنائے۔

SHARE