محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
حج ایک عظیم عبادت ہے۔ اللہ کی عبادتِ عظمیٰ ہے جس میں بے پناہ اسرار و فضائل ہیں۔ حج اسلام کا پانچواں رکن ہے ۔ ۹ ھ میں فرض ہوا اس سے قبل مستحب تھا۔ اسکی فرضیت قطعی ہے۔ جو اسکی فرضیت کا منکر ہو وہ کافر ہے ۔ پوری عمر میں حج ایک بار فرض ہے اسکے علاوہ نفل۔ حج کی فرضیت پر ارشاد باری تعالیٰ ہے پارہ 4 رکوع ۱ ؍سورۃ آلِ عمران آیت 96 اِنَّ اَوَّلَ بَیْتِ وُّضِعَ لِنَّاسِ الَّذی بِِبَکَّۃَ مُبٰرَکَ وَّ ھُدً لِّلْعٰلَمِیْن ترجمہ: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کیلئے (عبادت گاہ) بنایا گیا وہ گھر جو مکّہ میں ہے وہ برکت والا اور دنیا بھر کیلئے رہنما ہے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ابراہیم علیہ السلام کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور جو اس میں چلا جاتا ہے وہ امن پاجاتا ہے۔ اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس کا حج فرض ہے ان پر جو وہاں پہنچنے کی طاقت رکھتے ہوں جو منکر ہو تو اللہ کو بھی کسی کی کچھ پرواہ نہیں۔
تفسیر ابنِ عباس رضی اللہ عنہٗ میں آیت بالا کی تفسیر اس طرح بیان کی گئی ہے۔ سب سے اول جو خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے زمین پر بنائی گئی ہے وہ ہے جو مکّہ میں ہے۔ یعنی کعبہ شریف وہ مبارک گھر ہے یعنی اسمیں مغفرت و رحمت ہے اور سارے جہاں کیلئے سیدھی راہ ہدایت کی بنیاد ہے سب رسولوں ،ولیوں، مسلمانوں کی قبلہ گاہ ہے۔
کعبہ معظمہ کی دینی اہمیت:حج کی دینی اہمیت و فضیلت جاننے کے لئے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ ’’حج ‘‘ جس پاک گھر کی زیارت و طواف کا نام ہے خدائے پاک کی بارگاہ میں خود اس گھر کا کیا مرتبہ اور مقام ہے ۔۔۔
کعبہ معظمہ کے بے شمار فضائل ہیں ان میں سے کچھ عرض کئے جاتے ہیں۔ بیت المقدس کے مشہور بانی حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں، کہ آپ نے جنّاتوں سے تعمیر کرایا مگر کعبتہ اللہ کے مشہور بانی حضرت خلیل اللہ علیہ السلام ہیں۔ قرآن مقدس کا یہ صاف صاف اعلان ہے کہ اس سر زمین پر خدا کی عبادت کے لئے سب سے پہلا جو گھر تعمیر ہوا ہے وہ یہی ہے جو مکہ مکرمہ میں واقع ہے اور اسی وجہ سے قرآن کریم نے اس کو قدیم ترین گھر کہا ہے۔ پارہ 17 رکوع 10 سورۃ الحج آیت نمبر 29 وَلْیَطَّوّ فُوْ باِلبَیْتِ الْعَطِیْق ترجمہ: اور اس آزاد گھر کا طواف کریں۔
کعبہ میں مقامِ ابراھیم کی عبادت گاہ ہے۔ پارہ 4رکوع 1 سورۃ آلِ عمران آیت 97 ترجمہ: اور اس میں نشانیاں ہیں ابراھیم علیہ السلام کے کھڑے ہونے کی جگہ۔
اسمیں کھلی ہوئی نشانیاں علامتیں موجود ہیں جو اس بات کی شہادت ہیں کہ خدا نے اس گھر کو عظمت اور حرمت سے نوازا ہے۔ مقام ابراہیم علیہ السلام کی موجودگی اس بات کی ایک تاریخی دلیل ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے یہاں خدا کی عبادت کی ہے اور خدا کی عبادت ہی کیلئے اس گھر خانہ کعبہ کو تعمیر کیا گیا ہے۔ سورۃ بقرہ آیت نمبر 125 ترجمہ: اور ابراہیم علیہ السلام جہاں عبادت کے لئے کھڑے ہوئے تھے اس کو مستقل عبادت گاہ بنالو۔ *کعبہ میں سنگ اسود جنت سے لایا ہوا پتھر ہے جو قدرت کی نشانیوں میں سے ایک ہے * کعبہ معظمہ پر پرندے نہیں اڑتے بلکہ اس کے آس پاس ہٹ جاتے ہیں، بیت المقدس میں وہ بات نہیں * حرم کعبہ میں بکری اور شیر ایک جگہ پانی پی لیتے ہیں، وہاں شکاری شکار بھی نہیں کرتے * حرمِ کعبہ میں تا قیامت جنگ و جدال حرام ہے یہ اس دعا کا اثر ہے ۔ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذا بَلَدً اٰمِناً * کعبہ معظمہ سارے حجازیوں خصوصاً مکہ والوں کی پرورش کا ذریعہ ہے کہ وہ جگہ وادی غیر ذِی زرع ہے جہاں معاش کے ذریعہ سب ناپید ہیں مگر وہاں کے باشندے دوسروں سے زیادہ مزے میں ہیں۔ * مکہ میں بہت ہی متبرک چیزیں ہیں۔ مقامِ ابراھیم، صفا و مروہ، حجرِ اسود، رکن یمانی، عرفات و منیٰ، ساری مخلوق کے لئے امن کی جگہ ہے، آبِ زمزم ہے۔
آبِ زم زم سے علاج: حرمِ کعبہ کا کنواں جہاں قبلہ رو ہو کر پیٹ بھر کر آبِ زم زم پیا جاتا ہے۔ آبِ زمزم کی فضیلت میں بہت سی حدیث مروی ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ’’ زم زم کا پانی جس نیت سے پیا جائے اس سے وہی فائدہ حاصل ہوتا ہے ‘‘ (ابن ماجہ) غرضیکہ مکہ معظمہ صرف عبادت کے لئے ہے، کماتے دنیا والے ہیں اور کھاتے کعبہ والے ہیں۔ * ربِ تعالیٰ نے کعبہ کی حفاظت خود فرمائی کہ فیل (ہاتھی) والوں کو ابابیل (BARN SWALLOW) سے مروادیا۔ * ہمیشہ حج کعبہ کا ہی ہوا بیت المقدس کا حج کبھی نہیں ہوا۔ ایک بار یہود نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ ہمارا قبلہ بیت المقدس ہے تمہارا کعبہ، اور بیت المقدس کعبہ سے کہیں افضل ہے، کہ وہ کعبہ سے پہلے اور پرانا ہے، انبیاء اکرام اور ان کی حجرت گاہ ہے اور شام کے علاقے میں واقع ہے جو متبرک زمین ہے، جہاں قیامت قائم ہوگی۔ مسلمانوں نے کہا نہیں ہمارا کعبہ افضل و اعلیٰ ہے۔ اس موقع پر اس آیت مبارکہ کا نزول ہوا۔ پارہ 4 رکوع 1سورہ آل عمران ، آیت نمبر 97 ترجمہ: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کیلئے (عبادت گاہ) بنایا گیا وہ گھر جو مکہ میں ہے۔اس آیت مبارکہ میں انکی تردید کی اور مسلمانوں کی تائید کی گئی (تفسیر خزائن العرفان، و روح البیان، و صاوی و تفسیر نعیمی جلد 4صفحہ 21 )
تبدیل قبلہ کا حکم: اسلام میں جب تبدیل قبلہ کا واقعہ ہوا کہ مسلمان بیت المقدس سے کعبہ معظمہ کی طرف پھیرے گئے، تو یہود نے طعنہ دیا کہ مسلمانوں نے اعلیٰ اور پرانے قبلہ کو چھوڑ ا اور نئے قبلہ کو اختیار کر لیا، انکے اس طعنہ کی بھی تردیداس آیت کریمہ میں رب العزت نے فرمائی (روحُ البیان) * ربِ تعالیٰ نے کعبہ کے شہر کو بلدِ امین فرمایا اور اسکی قسم فرمائی وَ ھٰذَ الْبَلَدُ الْامِیْن * کعبہ کے پاس نیکی کا ثواب ایک لاکھ اور بیت المقدس کے پاس پچاس ہزار۔ * اللہ کے آخری نبی محسنِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے پاس مکہ شریف میں پیدا ہوئے اور فرشتوں اور زیادہ انبیاء کرام کا قبلہ کعبہ ہی رہا نہ کہ بیت المقدس۔ کعبہ کو بحکم الٰہی حضرت آدم علیہ السلام نے بنایا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بنائے ہوئے کعبہ کو پھر اسی کی بنیاد پر حضرت ابرہیم علیہ السلام کو تعمیر کرنے کا حکم ہوا (وہ پتھر جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہو کر دیواریں چنتے تھے) وہ بھی نشانیوں میں سے ہے۔ کعبہ معظمہ میں برکت و ھدایت کی بہت ساری نشانیاں ہیں۔ تاریخ و سیرت کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس کو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے بھی پہلے بیت المعمور (بیت المعمور ساتویں آسمان پر فرشتوں کی عبادت اور طواف کیلئے ایک مسجد ہے) تعمیر کیا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے لیکر طوفان نوح تک وقتاًً فوقتاً حسبِ ضرورت اس کی مرمت (Repairing) ہوتی رہی لیکن طوفانِ نوح میں کعبہ بھی غرق ہو گیا۔ اسکے بعد حضرت ابرہیم علیہ السلام کو دوبارہ تعمیر کا حکم ہوا۔ جب حضرت ابرہیم علیہ السلام تیسری دفعہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ملنے کے لئے آئے۔ اس وقت حضرت اسمائیل علیہ السلام زمزم کے قریب تشریف رکھتے تھے اور تیر درست کر رہے تھے۔ اپنے والد کو دیکھ کر بے اختیار دوڑے اور دونوں مل کر اس قدر روئے کہ آواز یں بند ہو گئیں۔ اسکے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ مجھکو خانہ کعبہ کی تعمیر کا حکم ہوا ہے، تم بھی میری مدد کرو۔ چنانچہ دونوں باپ بیٹے ملکر تعمیر میں مشغول ہوئے۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پتھر لاتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پتھروں کو قرینے سے جماتے جاتے تھے۔ انہوں نے کعبہ شریف کا ایک دروازہ مشرق (East) اور دوسرا جانب مغرب (West) رکھا تاکہ ایک دروازہ سے لوگ داخل ہوکر دوسرے دروازے سے نکل جائیں۔ ان دروازوں کی دہلیزیں زمین کے برابر تھیں۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے یکم ذی قعدہ کو خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی اور 25 ذی قعدہ کو ختم کی (کشف القلوب جلد اول صفحہ 555)۔
حج کا حکم: جب حضرت ابراھیم علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر ثانی سے فارغ ہوئے تو آپ کو بارگاہ رب العزت سے حکم ہوا، پارہ 17 سورہ الحج آیت نمبر 27 وَ اَذِنْ فِی النّاسِ با الْحَجِّ یا تُوْکَ رِجَا لاًوَّ عَلیٰ کُلِّ ضَا مَرٍیَّا تَیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍٍٍٍّ عَمِیْق ترجمہ: اور عام طور پر لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ اس بیت اللہ کے حج کرنے کو پیدل اور دُبلے اونٹوں پر سوار ہوکر دور دراز مسافت (راستہ) طے کر کے آئیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا مَا یَبْلُغُ صَوْتِیْ ( میری آواز نہیں پہنچے گی) رب نے فرمایا عَلَیْکَ الْاَذَان وَ عَلَیْنَاالْبَلَاغتیرا کام پکارنا ہے اور پہنچادینا میرا کام ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بوقبیس پہاڑی سے چڑھکر ایک پتھر پر کھڑے ہو کر پکارا۔ یَا ایُّھَا النَّاسُ اِنَّ رَبَّکُمْ قَدْ بنیٰ لَکُمْ بَیْتاً وَ کَتَبَ عَلَیْکُمْ الْحَجَّ فَاَجِیْبُوْ رَبَّکُمْ ط ’’ اے لوگو! تحقیق تمہارے پروردگار نے تمہارے لئے گھر بنایا اور تم پر حج فرض کیا۔ پس خدا کے حکم کی تعمیل کرو۔ ‘‘ یہ پتھر آج تک موجود ہے اور مقامِ ابراھیم کہلاتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عبادت گاہ مقامِ ابراھیم : فَیْہِ اٰیَا تُٗ مُقَا مُ اَبْرَا ھَیْم (سورہ آل عمران) ترجمہ: اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ابراھیم ؑ علیہ السلام کے کھڑے ہونے کی جگہ۔ یعنی اسمیں ایسی کھلی ہوئی نشانیاں موجود ہیں جو اس بات کی شہادت ہیں کہ خدا نے اس گھر کو عظمت و حرمت سے نوازا ہے۔ مقامِ ابراھیم کی موجودگی اس بات کی ایک تاریخی دلیل ہے کہ ابراھیم علیہ السلام نے یہاں خدا کی عبادت کی ہے اور خدا کی عبادت ہی کے لئے اس خانہ کعبہ کی تعمیر کیا ہے۔ ارشاد باری وَتَّخِذُوْ مِنْ مَّقَامِ اِبْرَا ھِیْمَ مُصَلّٰی (سورہ بقرہ آیت 125 ) ترجمہ: ’’ اور ابراھیم جہاں عبادت کے لئے کھڑے ہوئے تھے اس کو مستقل عبادت گاہ بنا لو ۔ ‘‘
خانہ کعبہ ہدایت و برکت کا سرچشمہ: مُبٰرَکَ وَّ ھُدَالِّلْعٰلَمِیْن ( سورہ آل عمران) ترجمہ: بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کا مقرر ہوا وہ مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہاں کا رہنما۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی بیوی اور اولاد کو اس مبارک گھر کے پڑوس میں لاکر بسایا تھا۔ اس وقت آپ نے اللہ کے حضور دل کی گہرائیوں سے یہ دعا کی تھی ’’ خدایا ہم نے ان سب کو تیرے حکم سے تیرے گھر کے پاس لا کر ڈالا ہے کہ وہ تیری نمازیں قائم کریں۔ خدایا ! تو لوگوں کے دل ان کی طرف اشتیاق و عقیدت سے جھکا دے اور ان کو ہر طرح کے پھلوں سے مالامال فرمادے۔ ‘‘ اس دعا کی قبولیت کا نتیجہ یہ ہے کہ خدا کا یہ گھر ہمیشہ سے دینی و دنیوی برکتوں کا مرکز (Centre) بنا ہوا ہے اور آج بھی جن کو اس مرکز ہدایت کی زیارت نصیب ہو دیکھ سکتے ہیں (الحمدُ اللہ ناچیز کو گذشتہ سال یہ نعمتِ عظمیٰ ملی ہے) کہ کس طرح یہاں ہدایت و برکات کی شعائیں پھیلتی ہیں۔ اور کس طرح یہاں دینی ودنیاوی نعمتوں کی بارش ہوتی ہے۔
خانہ کعبہ امنِ عالم کا مرکز (Centre of World Peace)
وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَشَا بَۃً لِّلنَّا سِ وَ اَمَنَّا ط (سورہ بقرہ آیت 125 ) ترجمہ: ’’ اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر (کعبہ) کو تمام انسانوں کے لئے مرجع اور مرکزامن بنایا‘‘ ’’ انسانیت کا مرجع‘‘ ہونے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ حج کے ایّام میں ساری دنیا سے خدا پرست یہاں جمع ہوتے ہیں۔ بلکہ اسکا وسیع تر مطلب یہ ہے کہ مومن اپنی پوری زندگی میں اس گھر کے ارد گرد چکر لگاتا ہے۔ کعبہ ہی اسکے ایمان کا مرکز ہے، کعبہ ہی مومن کی اصلی عبادت گاہ ہے۔ یہیں سے مومن کو توحید کی غذا ملتی ہے اور مومن اسی کو اپنی پانچ وقت کی نمازوں میں قبلہ بناتا ہے۔ سورہ ابراھیم آیت نمبر 35 وَ اِذْ قَا لَ اِبْرَاھِیْمُ رَبِّ جْعَلْ ھَذٰ بَلَدًا اٰ مَنَّا وَ جُنُبْنِیْ وَ بَنِیّٰ اَنَّعْبُدَلْاَصْنَامْ ترجمہ: اور یاد کرو جب ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی ’’ اے ہمارے رب اس شہر کو امن کا شہر بنا دے اورمجھے اور میری اولاد کو بُتوں کی پوجا سے بچا۔‘‘سورہ آل عمران آیت نمبر 97 وَ مَنْ دَ خَلَہُ کَا نَ اٰ مِنا (ترجمہ)’’ اور جو اسمیں آئے امان میں ہو‘‘ سورہ ابراھیم آیت نمبر 37 (ترجمہ کنزالایمان) ’’ اے میرے رب میں نے اپنی اولاد بے آب و گیاہ آبادی میں بسائی جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیرے حرمت والے عظمت والے گھر کے پاس اے ہمارے رب اسلئے کہ وہ نماز قائم رکھیں تو۔ تُو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھل کھانے کو دے تاکہ وہ احسان مانیں۔ مکہ مکرمہ میں قیام کامقصود صرف عبادت الٰہی ہے، اس لئے رب نے وہاں کھیتی باڑی نہ رکھی، تاکہ وہاں کے لوگوں کو دنیاوی الجھن نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ تمام عبادت میں نماز افضل عبادت ہے کہ آپ نے خصوصیت سے اسکا ذکر فرمایا۔ مکہ مکرمہ کی نماز دوسری جگہوں کی نماز سے بہتر و اعلیٰ ہے ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی۔ آج تک مکہ مکرمہ شہر ہے وہاں کی زمین کھیتی باڑی کے لائق نہیں پھر بھی وہاں کے لوگ سیر ہو کر کھاتے ہیں بھوکے نہیں رہتے۔ دنیا کماتی ہے وہ کھاتے ہیں۔ ساری دنیا کے دل مکہ مکرمہ کی طرف جھکتے ہیں (روح البیان تفسیر نورالعرفان صفحہ 414)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اولاد ابرھیم علیہ السلام کو اپنا یہ احسان یاد دلایا کہ ہم نے کعبہ کو تمام انسانوں کے لئے امن کا مرکز بنایا اس احسان عظیم کا ذکر کئی جگہ فرمایا کہ حرم کعبہ کو ایک پر امن مقام بنایا۔ آج ساری دنیا میں قتل و غارتگری بد امنی کا بازار گرم ہے کہیں بھی امن کا نام و نشان نہیں ملتا۔ غور کریں دیکھیں کہ ساری دنیا کا کیا حال ہے۔ مولائے رحیم نے فرمایا جو حرم کعبہ میں داخل ہوا پھر کسی کی مجال نہیں کہ کوئی اسکا بال بیکا کر سکے۔ اللہ تعا لیٰ نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی تمام دعاؤں کو قبول فرمایا اور حرم کعبہ کو وہ حرمت و فضیلت بخشی کہ روئے زمین پر اسکی کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ جاہلیت کے اس تاریک ترین دور میں بھی جب کہ ہر طرف لوٹ مار بد امنی اور فتنہ و فساد کا بازار گرم تھا ، حرم کعبہ کا یہ احترام تھا کہ خون کے پیاسے دشمن یہاں ایک دوسرے کو دیکھتے لیکن کسی کو یہ جراء ت نہ ہوتی کہ دشمن پر حملہ کرے ہاتھ اُٹھائے یہ آیت مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔( سورہ عنکبوت آیت نمبر 68) اَوَ لَمْ یَرَوْ اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمً اٰمِنَاوَّ یُتَخَطَّفُ النَّا سُ مِنْ حَوْ لِھِیْم ۔ (ترجمہ) ’’ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرمت والی زمین پناہ گاہ بنائی۔ حالانکہ ان کے گردوپیش لوگ اُچک لئے جاتے ہیں۔‘‘
ایک بات تو خاص طور سے دل و دماغ کی توجہ کو کھینچتی ہے وہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی دعا کا یہ فقرہ میری اولاد کو بُت پرستی سے بچا (سورہ ابراھیم آیت نمبر 35)۔ امن کی دعا حقیقت کی نقاب کشائی کرتا ہے کہ تمام تباہ کاریوں ، فتنہ سامانیوں اور فساد انگیزیوں کا سرچشمہ شرک و کفر ہے جس پر پوری انسانیت متحد ہو سکتی ہے اور یہ فساد بھری دنیا امن و عافیت کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ وہ توحید کی دعوت ہے ۔ امنِ عالم کا راز یہ ہے کہ دنیا میں توحید قائم ہو خدا پرستی ہی وہ بنیاد ہے جس پر انسانیت متحدہو سکتی ہے ۔ شرک و کفر کے اس تاریک دور میں بھی حدود کعبہ ’’ حرمِ امن ‘‘ تھا جبکہ اس کے ارد گرد لوگ لوٹ لئے جاتے تھے۔ یہ معمارِ کعبہ کے پاک جذبات کی برکت ہے کہ ہر دور میں اس کا یہ احترام باقی رہا۔ اور صرف بنی اسمٰعیل ہی نہیں بلکہ مجوسی، صابی، یہودی و نصرانی سب ہی اسکی عظمت و احترام کے قائل تھے وہیں آج کے فتنہ و فساد سے جاں بلب دنیا جو امن و عافیت کو ترس رہی ہے وہ توحید کی تعلیم کو اپنا کر اطمینان و سکون حاصل کر سکتی ہے۔ یقیناً اَمنِ عالم کا واحد مرکز خدا کا وہ گھر ہے جو اس روئے زمین پر خدا کیعبادت کا پہلا گھر ہے ۔ خدا کا گھر ہر وقت اپنے وجود سے پیغامِ توحید کا اعلان نشر کر رہا ہے اور سارے انسانوں کو خدا پرستی کی بنیاد پر جمع ہونے کی دعوت دے رہا ہے۔ ایسی دعوت جس کے حق ہونے پر کائنا ت کا ذرہ ذرہ شہادت دے رہا ہے۔
معمارِ کعبہ حضرت ابراھیم علیہ السلام و حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی دعائیں :
پارہ 1 رکوع 14 سورہ بقرہ آیت نمبر 127 to 129 وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰھِمُ الْقَوَا عِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُ ط رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ط اِنَّکََ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ رََ بَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَۃًلَّک ص وَ اَرِنَا مَنَا سِکَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا ج اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّا بُ الرَّحِیْمُ رَبَّنَا وَبْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًامِّنْھُمْ یَتْلُوْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکِ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَتَ ویُزََکِّیْھِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم (ترجمہ: کنز الایمان) ’’ اور جب اُٹھاتا تھا ابراھیم اس گھر کی نیو (بنیاد) اور اسمٰعیل یہ کہتے ہوئے اَے رب ہمارے ہم سے قبول فرما بے شک تو ہی ہے سنتا جانتا اے رب ہمارے اور ہمیں تیرے حضور گردن رکھنے والا اور ہماری اولاد میں سے ایک اُمت تیری فرمابردار ہمیں ہماری عبادت کے قاعدے بتا اور ہم پر اپنی ر حمت کے ساتھ رجوع فرما۔ بے شک تو ہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ۔ اے رب ہمارے اوربھیج انمیں سے ایک رسول انہیں میں سے ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمائے، بے شک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔‘‘ حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی دعائیں بارگاہ رب العزت میں قبول ہوئیں حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ہمارے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی دعا کی حضورصلی اللہ علیہ وسلم دعائے ابراھیم علیہ السلام اور بشارتِ مسیح ہیں۔ ابراھیم علیہ السلام نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بہت سی دعائیں مانگی جو رب کریم نے لفظ بلفظ قبول فرمائیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم مومن جماعت میں پیدا ہوں۔ مکہ معظمہ میں ہی پیدا ہوں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو کتاب کے علاوہ حکمت بھی عطا ہو۔ یعنی حدیث پاک حضورصلی اللہ علیہ وسلم تمام جہاں کے معلم ہوں۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی دعا ہی کی برکت ہے گرچہ مکہ مکرمہ میں پیداوار نہ ہو مگر یہاں کے لوگوں کو رزق وافر مقدار میں ملے گا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ قبولیتِ دعا کی جگہ ہے سورہ آل عمران 96-97 شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خلیل اللہ کی یہ دعاء قبول فرمائی اور اس گھر کو تمام جہاں کے لئے برکت، فضیلت، امن کا مرکز قرار دیا اور یہ وضاحت فرمائی کہ خود اس گھر کے وجود میں ایسی صریح (ظاہر) و صاف علامتیں (نشانیاں) موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہیں۔ انتہائی پاک و متبرک مقام ابراھیم، صفا مروہ، حجر اسود، رکنِ یمانی، عرفات و منیٰ، ساری مخلوق نہ صرف انسان بلکہ چرند وپرند سب کے لئے امن کی جگہ۔ آبِ زم زم وغیرہ۔
آبِ زم زم سے علاج: حرمِ کعبہ کا کنواں جہاں قبلہ رو ہو کر پیٹ بھر کر آبِ زم زم پیا جاتا ہے اس کے بے شمار فوائد و فضائل حدیث کریمہ کے ذخائر میں موجود ہیں۔ آبِ زم زم تین سانسوں میں رک رک کر پینا چاہیے بیماری سے شفاہے علاج ہے ۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام کی تمنّائیں: پارہ 13رکوع 13 سورہ ابراھیم آیت 39 to 41 ( ترجمہ) ’’ اے ہمارے رب مجھے نماز قائم کرنے والا رکھ اور کچھ میری اولاد کو ۔ اے ہمارے رب اور ہماری دعاسن لے۔ اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہوگا۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل و حضرت اسحٰق علیہ السلام کی پیدائش کو اللہ کی بڑی نعمتوں میں شمار کیا، حضرت ابراھیم علیہ السلام فرزندگی کی دعا مانگ کر عرض کرتے تھے ’’ اِسْمَعْ یَا اِیْل ‘‘ اے اللہ سن لے یعنی آمین۔ جب اسمٰعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تو آپ نے اس دعا کی یادگار میں آپ کا نام اسمٰعیل رکھا۔
کعبتہ اللہ کے بنانے والوں کو وصیت: پارہ 1 رکوع 14سورہ بقرہ آیت نمبر 125 ’’ وَ عَھِدْنَآ اِآیٰ اِبْرَا ھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَ بَیْشِیَ لِطّآ ءِفِیْنِ وَالْعٰکِفِیْنِ وَالرُّلَّعِ السُّجُوْد ( ترجمہ کنز الایمان): اور ہم نے تاکید فرمائی ابراھیم اور اسمٰعیل کو کہ میراگھر خوب ستھرا (پاک) کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع سجود والوں کے لئے ’’لفظ پاک‘‘ کا لفظ خاص طور سے قابل غور ہے۔ خدا کے گھر کی اصل پاکی صفائی ستھرائی یہ ہے کہ اسے شرک و کفر کی نجاستوں سے پاک صاف رکھا جائے، اس میں خدا کے سوا دوسرے کا نام بلند نہ ہو اور اس سے دنیا کو صرف توحید کا پیغام ملے۔ بالکل فطری طور پر رب کریم کا یہ حکم آج اُن تمام لوگوں کی طرف ہے جو ملتِ ابراھیمی پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور خدا کے گھر کو قبلہ و کعبہ مانتے ہیں۔بالخصوص وہ افراد، جو بیت اللہ کی تولیت و توسیع اور خدمت کی عظیم ذمہ داری پر فائز ہیں۔
کعبہ معظمہ کے مقدس مقامات سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
حدیث شریف میں آیا ہے کہ حجر اسود جب جنت سے دنیا میں لایا گیا تو دودھ سے زیادہ سفید تھا۔پھر آدمیوں کے گناہوں کی وجہ سے کالا ہو گیا (ترمذی شریف) دوسری حدیث شریف میں ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا حجر اسود کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائے گا کہ اسکی دو آنکھیں ہونگی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جس سے وہ بولے گا اور اس شخص کے بارے میں گواہی دیگا کہ جس نے اسکو حق کے ساتھ بوسہ (چوما) دیا ہوگا۔ (ترمذی و ابن ما جہ)
حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا تھا کہ میں کعبہ شریف کے اند رجا کر نماز پڑھوں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر حطیم میں داخل کر دیا اور فرمایا کہ جب تیرا دل کعبہ میں داخل ہونے کو چاہے تو یہاں آ کر نماز پڑھ لیا کر کہ یہ کعبہ کاہی ٹکرا ہے۔ تیری قوم نے جب کعبہ کی تعمیر کی اس حصہ کو (اخراجات کی کمی کی وجہ سے ) کعبہ کے باہر کر دیا۔(ابوداؤد)
حدیث شریف میں ہے کہ میزاب رحمت کے نیچے دعا کرے اسکی دعا قبول ہوتی ہے (درمختار) حدیث شریف میں ہے کہ ملتزم ایسی جگہ ہے جہاں دعا قبول ہوتی ہے۔ کسی بندہ نے وہاں ایسی دعا نہیں کی جو قبول نہ ہوئی ہو۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ مستجاب کے پاس ستر ہزار فرشتے دعا پر آمین کہنے کے لئے مقرر ہیں۔ اس لئے اس کا نام مستجاب رکھا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ جل شانہ‘ کی بارہ نعمتیں روزانہ اس گھر پر نازل ہوتی ہیں جن میں سے چھ طواف کرنے والوں پر نازل ہوتی ہے، چار وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور دو بیت اللہ کو دیکھنے والوں پرنازل ہوتی ہے (حدیث) بیت اللہ شریف کا صرف دیکھنا ہی عبادت ہے۔حضرت سعید بن المصیب ر ضی ا للہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو ایمان کی تصدیق کے ساتھ کعبہ شریف کو دیکھے اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے پتے درخت سے جھڑ جاتے ہیں اور جو شخص مسجد میں بیٹھ کر صرف بیت اللہ کو دیکھتا رہے چاہے طواف، نماز نفل نہ پڑھتا ہو وہ افضل ہے اس شخص سے جو اپنے گھر میں نفلیں پڑھتا ہو اور بیت اللہ کو نہ دیکھے۔ حضرت عطاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کو دیکھنا بھی عبادت ہے اور بیت اللہ کو دیکھنے والا ایسا ہے جیساکہ رات کو جاگنے والا اوردن میں روزہ رکھنے والا اور االلہ کے راستے میں جہاد کرنے والا اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والا۔ حضرت عطارحمتہ اللہ علیہ سے ہی نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ بیت اللہ کودیکھنا ایک سال کی عبادت نفل کے برابر ہے۔ حضرت طاعوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بیت اللہ کا دیکھنا افضل ہے اس شخص کی عبادت سے جو روزہ دار، شب بیدار، مجا ھد فی سبیل اللہ ہو۔ حضرت ابراھیم نخعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بیت اللہ کا دیکھنے والا مکہ سے باہر عبادت میں کوشش سے لگے رہنے کے برابر ہے اورطواف کرنے والوں میں جس قدر نعمتیں نازل ہوتی ہیں وہ اس حدیث سے ظاہر ہے اس لئے علماء نے لکھا ہے کہ مسجد حرام میں تہیۃ المسجد سے طواف کرنا افضل ہے۔ اگر کسی وجہ سے طواف نہ کر سکے تو تہیت المسجد پڑھے ورنہ بجائے تہیت المسجدکے مسجد میں جاتے ہی طواف کرنا افضل ہے۔ البتہ اگر نماز کا وقت ہو تو اس وقت طواف نہ کرے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کو اللہ جل شانہ‘ نے اپنے لطف و کرم اور فضل سے کثرت سے طواف کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔حضور مصطفےٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا کہ تو کتنا بہتر شہر ہے اور مجھ کو کتنا محبوب ہے اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو تیرے سوا کسی جگہ قیام نہ کرتا (حدیث) اس حدیث کی وجہ سے نیز ان جیسی احادیثوں کی وجہ سے جن میں مکّے کی نیکی کا ثواب ایک لاکھ آیا ہے ایک بڑی جماعت کا مذہب ہے کہ مکہ مکرمہ سارے شہروں سے افضل ہے اور وہاں قیام کرنا مستحب اور افضل ہے ۔
تعمیر کعبہ کا مقصود عبادتِ الٰہی و عقیدہ توحید کا اعلان : پارہ رکوع سورہ الحج آیت نمبر26 to 27
’’ وَ اِذْ بَوَّ اْنَا لِاِبْرَاَھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَلّا تُشْرِک بِی شَیْاءً وَّ طَھِّرْ بَیْتِیَ لِطَّآ ءِفِیْنَ وَا لْقَاءِمِیْن وَالرُّ کَّعِ اسُّجُوْد وَ اَذِّنْ فِیْ النَّا سِ بِا لْحَجِّ یَا تُوْکَ رِ جَا لاً وَّ عَلیٰ کُلِّ ضَا مِرٍ یّا تِیْنَ مِنْ کُل فَجٍّ عَمِیْق (ترجمہ) اور جب ہم نے ابراھیم علیہ السلام کو اس گھر کا ٹھکانہ ٹھیک بتا دیا اور حکم دیا کہ میرا کوئی شریک نہ کر میرا گھر (کعبہ معظمہ) ستھرا (پاک) رکھ طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع سجدے والوں کے لئے۔ اور لوگوں میں عام ندا کر دے وہ تیرے پاس حاضر ہوں ہر دبلی اونٹنی پر کہ ہر دور کی راہ سے آتی ہیں۔
چنانچہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے بوقبیس پہاڑ پر چڑھکر آواز دی (اعلان فرمایا) کہ اللہ کے گھر کی طرف آؤ۔ جس جس نے آپ کی آواز پر لبیک کہا وہ اتنی ہی بار حج کریگا اور جو روح خاموش رہی وہ حج نہ کر سکے گی۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا یہ معجزہ ہے کہ آپ کی آواز مشرق و مغرب شمال و جنوب موجود سب تک پہنچی آپکی پکار کا اثر قیامت تک رہے گا۔ خانہ کعبہ پانچ بار تعمیر ہوا۔ (۱) حضرت آدم علیہ السلام نے بنایا (۲) ابراھیم علیہ السلام نے بنایا (۳) قریش نے بنوایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے ۱۵ سال قبل (۴) پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنھمانے (۵) پھر حجاج بن یوسف نے ۔ آج حجاج بن یوسف کی تعمیر موجود ہے۔ (تفسیر روح البیان و نور العرفان صفحہ 534) تعمیر کعبہ کا مقصد روزِ اول سے یہ تھا کہ خدا کی عبادت کرنے والے یہاں جمع ہوں اور قیام، رکوع، سجود کر کے توحید الٰہی کا شور بلند کریں اور کفر و شرک کی نجاست مٹا دیں۔ دور دراز سے لوگ شوق و ذوق ، ولولے و جوش کے ساتھ اس گھر کی زیارت کو آئیں اور یہاں سے توحید کا پیغام لیکر دور دراز ملکوں میں پھیل جائیں اور اس پیغام کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچا دیں۔ اسی لئے روزِ اول سے خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا یہ اِذ نِ عا م دے دو کہ وہ اس پاک گھر کا حج کریں اور یہاں جمع ہو کر توحید کے نعروں سے اپنے دلوں کو گرمائیں اور یہ پیغام لے کر زمین کے چپے چپے میں پہنچیں تمام مسلمان خصوصاً حجاج کرام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اللہ کے اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ’’بَلَّغُوْ عَنِّی ‘‘ میری بات دوسروں تک پہنچاؤ پر عمل پیرا ہوں اللہ تمام مسلمانوں کو اپنے گھر خانہ کعبہ و روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت و حاضری نصیب فرمائے اور ایمان پر قائم رکھے اور ایمان پر خاتمہ عطا فرمائے آمین ثم آمین۔Mob. : 09431332338