مولانا سلمان ندوی اور ضمیر الدین شاہ سمیت ان لوگوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جو بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی وکالت کررہے تھے او رکہہ رہے تھے کہ امن وسلامتی کیلئے یہی ضروری ہے کہ مسلمان اپنے حق سے دستبردار ہوجائیں
نئی دہلی (ملت ٹائمز ڈیسک )
اجودھیا تنازع پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے خلاف ہے ۔ اس فیصلے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ، اس سے سپریم کورٹ کے وقار کو دھچکا لگاہے ۔ ملک کی عدلیہ کے وقار کوبحال کرنے ، سیکولرزم اور آئین کے تحفظ کیلئے اس فیصلہ کی زیادہ سے زیادہ مخالفت ضروری ہے ۔ ان خیالات کا اظہار ملت ٹائمز کے پروگرام” خبر در خبر“ میں شمس تبریز قاسمی سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر و کیل محمود پراچہ نے کیا ۔
اجودھیا فیصلہ پر تجزیہ کرتے ہوئے ایڈوکیٹ محمود پراچہ نے مسلم فریقوں کے وکلاءپر بھی سوال اٹھایا اور کہاکہ اے ایس آئی کی رپوٹ کو چیلنج نہ کرنا ہماری طرف سے ایک بھیانک غلطی ثابت ہوئی جس سے ججز کو ہندو فریق کے حق میں فیصلہ سنانے کا موقع ملا۔انہوں نے کہاکہ 2003 میں آثار قدیمہ کی رپوٹ حکومت نے پیش کی تھی جس پر ہمارے وکلاءنے جرح نہیں کیا اور اس کی کروس چیکنگ نہیں کی گئی ۔ پراچہ سے جب بحث کے دوران کہاگیا کہ سپریم کورٹ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ آثار قدیمہ کی رپوٹ کو بنیا د نہیں بنا یا جائے گا تو انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے کہ آثار قدیمہ کی رپوٹ معتبر نہیں ہوگی ۔ فیصلہ میں آثار قدیمہ کی رپوٹ کو ہی بنیاد بناکر ہندوفریق کے دعوی کو سپریم کورٹ نے ترجیح دی ہے کیوں کہ جب اے ایس آئی کی رپوٹ میں یہی بتایاگیا ہے کہ مسجد کے نیچے ایک ڈھانچہ ملاتھا جو غیر اسلامی تھااور اسی کو ججز نے شک کی بنیاد پر بنیاد بنالیا اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ ہماری طرف سے کراس چیکنگ کا مطالبہ نہیں کیاگیا ۔ کمشنر کو عدلیہ میں جرح کے دوران طلب کرکے مسلم فریق نے پوچھ تاچھ نہیں کی۔
محمود پراچہ نے مزید کہاکہ رویو پٹیشن داخل کرنا ضروری ہے لیکن اس سے قبل ضروری کام یہ ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ از سر نو لیگل کمیٹی تشکیل دے اور وکلاءکا نیا پینل بنائے ، جن لوگوں نے جرح کی ہے وہی اگر ریویو پٹیشن میں بھی رہیں گے تو نتیجہ وہی رہے گا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ نے متعدد مرتبہ رویو پٹیشن کے بعد اپنا فیصلہ تبدیل کیاہے اور یہ فیصلہ بھی تبدیل ہوگا ۔ بابری مسجد وہیں بنے گی جہاں بنی ہوئی تھی ۔ کیوں کہ اگر ہم اب بھی خاموش بیٹھے رہیں گے تو اس کے بعد ہندوستان کو اندلس بننے سے کوئی نہیں روک پائے گا ۔
محمود پراچہ نے کہاکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں آئین کی دفعہ 142 کا بھی ذکرکیاہے جس کے تحت لامحدود اختیار حاصل ہیں لیکن وہ سیکولر معاملوں کیلئے ہے ۔ مذہبی معاملوں میں سپریم کورٹ کو 142 کے تحت فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے ۔ اس فیصلے کے خلا ف تحریک چلانا ضروری ہے ورنہ سبھی ہائی کورٹ اور ڈسٹک کورٹ اسی کو نظیر بنائیں گے اور ہمارے لئے مشکلات پیدا ہوں گے ۔
سینئر ایڈوکیٹ محمود پراچہ نے مولانا سلمان ندوی اور ضمیر الدین شاہ سمیت ان لوگوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جو بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی وکالت کررہے تھے او رکہہ رہے تھے کہ امن وسلامتی کیلئے یہی ضروری ہے کہ مسلمان اپنے حق سے دستبردار ہوجائیں ۔ انہوں نے کہاکہ حالیہ فیصلہ پر سب سے بڑی تنقید یہی ہے کہ اس نے اکثریت کے دباﺅ میں اور ثبوت وشواہد کو نظر انداز کرکے فیصلہ سنایاہے ۔ سپریم کورٹ کا کام لاءاینڈ آرڈ کو برقرار رکھنااور اس کو ترجیح دینا ہے لیکن اس نے اسی کی مخالفت کی ہے ۔ جب ملک کی عدلیہ اقلیتوں کو اکثریت کے خوف سے انصاف نہیں دے سکتی ہے تو اس سے بڑی خامی اور غلطی کیا ہوسکتی ہے ۔
ایڈوکیٹ محمود پراچہ کے ساتھ خبر در خبر کا پروگرام دیکھنے کیلئے یہاں کلک کریں ۔






